منتخب کردہ کالم

لاہور چلو ریلی … صولت رضا

لاہور چلو ریلی … صولت رضا

سابق وزیر اعظم نواز شریف صاحب سپریم کورٹ کا عطا کردہ ”نااہلی‘‘ کا تمغہ سجائے ریلی کی صورت میں لاہور روانہ ہوئے تو میرے کانوں میں صدر ممنون حسین کی منفرد تقریر کے نوکدار جملے گونجنے لگے‘ ”آپ دیکھیں گے کہ پاناما کیس میں کئی لوگ بے نقاب ہوں گے… بڑے بڑے لوگ اس کی زد میں آئیں گے‘‘۔ یہ شاہکار تقریر مستقبل کے عجب اندیشے سمیٹے سوشل میڈیا پر مقبولیت کے ریکارڈ توڑ رہی ہے۔ معلوم نہیں نواز شریف صاحب کو یہ مشورہ کس نے دیا تھا کہ وہ جی ٹی روڈ ریلی کے دوران سپریم کورٹ کے متفقہ فیصلے اور متعلقہ جج صاحبان کو نشانہ بنائیں۔ ”گلی گلی میں شور ہے‘‘ کے بعد اب ”مجھے کیوں نکالا‘‘ ہنسی مذاق، ٹھٹھے اور مزاحیہ فقرے بازی کا سرچشمہ بن گیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف صاحب کے قریب ترین رفقا اور مشیران میں ”خود کش‘‘ ذہنیت کے افراد غالب اکثریت میں ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید اور جے آئی ٹی ارکان کو کھلم کھلا دھمکیاں کسی طور مناسب اقدامات نہیں۔ تاریخ میں یہ سب کچھ رقم ہو رہا ہے۔ ایک زمانہ صرف تحریر اور تصویر کا تھا‘ اب وڈیوز بھی ساتھ ساتھ دکھائی جاتی ہے۔ نواز شریف صاحب کی پنجاب ہائوس اسلام آباد سے روانگی انتہائی مایوس کن تھی۔ گنتی کے چند سیاسی کارکن اور کچھ تماشائی۔ البتہ وفاق اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزرا، سرکاری افسران اور دیگر اہلکاروں کی موجودگی یہ ظاہر کر رہی تھی کہ ”نااہلی‘‘ شاید کسی ٹی وی پروگرام کے درمیان اشتہارات کے لیے مختصر وقفہ ہے۔ بس ایک دو دن کی بات ہے۔ مردِ آہن نواز شریف حسبِ سابق روایتی کروفر سے بحال ہو جائیں گے۔ یہ کیفیت ریلی میں گوجرانوالہ تک برقرار رہی۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں تازہ تازہ حلف اُٹھانے والے وفاقی وزیر نے یہ بڑھک بھی لگائی کہ عدلیہ بحالی تحریک میں نواز شریف صاحب کا قافلہ جب لاہور سے گوجرانوالہ پہنچا تھا تو چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کا اعلان ہو گیا تھا۔ اِس دفعہ بھی نواز شریف کی ریلی گوجرانوالہ پہنچے گی تو موصوف کے زیرِ استعمال سیاہ کار پر دوبارہ پاکستانی پرچم آویزاں کر دی جائے گا۔ یہ اور بات ہے کہ گوجرانوالہ گزرا، کامونکی، مریدکے بھی پیچھے رہ گئے۔ شاہدرہ پہنچے تو لیگی چہرے اُترے اُترے تھے۔ داتا دربار کے سامنے سڑک پر سمٹے ہوئے عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر نے نااہلی کے گرہن کو نمایاں دیکھا۔ عوام کو جس گھن گرج کی توقع تھی وہ دُور دُور تک دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ آزادی سے پہلے مشہور تھا کہ جو لاہور میں ٹھہر گیا وہ سارے (غیر منقسم) ہندوستان میں سیاسی لحاظ سے جم سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس سمیت دیگر سیاسی جماعتیں اور مذہبی تنظیمیں اپنے اہم عوامی اجلاس لاہور میں ہی منعقد کرتی تھیں۔ 23 مارچ 1940ء کو مسلم لیگ نے قرارداد پاکستان کے لیے تاریخی جلسہ اقبال پارک لاہور میں منعقد کیا۔ اس قرارداد کی منظوری کے بعد عظیم سیاسی جدوجہد کا آغاز ہوا‘ جس کے نتیجے میں 14اگست 1947ء کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ لاہور 1971ء میں بھی ایک سیاسی تحریک کا مرکز بنایا گیا‘ جس کے اثرات سارے جنوبی ایشیا پر مرتب ہو گئے۔ سات دسمبر 1970ء کو متحدہ پاکستان میں انتخابات منعقد ہوئے۔ جنرل آغا محمد یحییٰ خان صدرِ مملکت تھے۔ انتخابات میں عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمن نے واضح اکثریت حاصل کی اور سرکاری اعلانات کے مطابق اُنھیں وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونا تھا۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو پنجاب اور سندھ میں واضح اکثریت حاصل تھی البتہ شیخ مجیب الرحمن کے مقابلے میں عددی اکثریت بہت کم تھی۔ قصہ مختصر! صدر جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے مارچ 1971 میں قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں طلب کیا۔ منتقلیء اقتدار کی تمام تیاریاں مکمل تھیں کہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے لاہور کے اقبال پارک میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا اور یہ اعلان بھی کیا جو منتخب ممبر مغربی پاکستان سے ڈھاکہ جائے گا اُس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ یہ اعلان مستقبل میں سیاسی فساد اور عسکری یلغار کی بنیاد ثابت ہوا۔ عوامی لیگ نے سیاسی جدوجہد چھوڑ کر مسلح کارروائیاں شروع کر دیں۔ بھارت پہلے ہی تاک میں تھا۔ اُس نے شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹوکی سیاسی دھینگامشتی سے خوب فائدہ اُٹھایا۔ مشرقی پاکستان جب سلگتے بھڑکتے الائو کی صورت اختیار کر گیا تو اُسے پاک افواج کی گود میں پھینک کر سیاستدان ایک طرف ہوگئے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلے بالواسطہ جنگ جاری تھی لیکن آٹھ ماہ بعد بھارت نے مکمل تیاریوں کے بعد مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہماری ملی، سیاسی اور عسکری تاریخ کے المناک ابواب ہیں۔
نواز شریف صاحب کی ریلی اسلام آباد سے لاہور کی جانب جس انداز سے رواں دواں رہی‘ اُسے ٹی وی چینلز پر دیکھ کر شاید ہی کوئی ذی ہوش اس عمل کو سیاسی قرار دے گا۔ لاتعداد سرکاری گاڑیوں اور آٹومیٹک اسلحے سے لیس وفاقی اور پنجاب پولیس کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے چاق چوبند دستوں کی حرکات و سکنات لاہور پر ”مسلح یلغار‘‘ کی ”نوید‘‘ سنا رہے تھے۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کے یقینا سیاہ ترین ایام تھے کہ جب تین مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے والی شخصیت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سرِ عام مسترد کرتے ہوئے متشددانہ رویہ اختیار کیا۔ یہ طرزِ عمل اِس حقیقت کی دلالت کر رہا تھا کہ مسلم لیگ نواز میں ایسے عالی دماغ رہنما غالب آچکے ہیں‘ جو وطنِ عزیز میں ایک بار پھر سیاسی فساد اور امن و امان کے لحاظ سے بھڑکتا ہوا الائو دیکھنا چاہتے ہیں۔
خوش قسمتی سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کے بعد رائج الوقت جمہوریت کا نظام برقرار ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صاحب نے کابینہ مکمل کر لی ہے اور روزمرہ کے معاملات حسبِ معمول جاری ہیں۔ صرف نواز شریف صاحب نااہل قرار دیئے گئے ہیں۔ اُن کی جماعت بدستور وفاق، پنجاب اور بلوچستان میں برسر اقتدار ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی ن لیگ کی حکومتیں موجود ہیں۔ نواز شریف صاحب سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد باوقار اور قابلِ تقلید رویے کی توقع تھی‘ لیکن اُنھوں نے سکون پر ہیجان کو ترجیح دی۔ اُنہوں نے بیک وقت نظریاتی اور انقلابی ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ موصوف نے دنیا کے انقلابی قائدین کی سوانح حیات کا مطالعہ کیا ہوتا‘ تو اُن کی لاہور چلو ریلی کی اُٹھان اور پیش رفت مختلف دکھائی دیتی۔ اُنہوں نے اپنے ”دور اندیش‘‘ رفقا کے کہنے پر لاہور کی جانب یوں پیش قدمی کی جیسے ”تختِ لہور‘‘ پر فائز شخص سے قبضہ چُھڑانا ہے۔ یہ ریلی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف صاحب کے لیے کڑا امتحان تھا۔ بڑا بھائی ”نااہلی‘‘ کا تمغہ سجائے جی ٹی روڈ پر وطنِ عزیز کے اداروں کو بالواسطہ اور براہ راست اپنے نشانے پر رکھے ہوئے تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اپنے مسائل ہیں۔ نواز شریف صاحب ابھی شاہدرہ میں تھے کہ کوئٹہ میں دہشتگردی کا المناک واقعہ پیش آ گیا۔ فضا سوگوار ہو گئی۔ شہباز شریف صاحب اور چوہدری نثار علی خان صاحب نے اسلام آباد میں نواز شریف کی توجہ سنگین صورتحال کی جانب دلائی تھی‘ لیکن جس شخص کو اُس کے ”نامعلوم‘‘ رفقا اور مشیران نے یقین دلا دیا ہوکہ وہ اکیسویں صدی کا عظیم نظریاتی اور انقلابی رہنما بن چکا ہے‘ اُسے چھت سے کوئی ”پہنچا ہوا بزرگ‘‘ ہی اُتار سکتا ہے۔ میں برادر عزیز اور پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ صحافت (1969-1970) میں اپنے ہم جماعت امتیاز عالم صاحب سے گزارش کروں گا کہ وہ اگر نواز شریف کی گزری ہوئی ریلی کو مسلسل خراجِ تحسین پیش کرنے سے فارغ ہو گئے ہوں تو اُنہیں چاہیے کہ نواز شریف صاحب کو نظریاتی شخصیات اور انقلاباتِ عالم کے بارے میں چند کتابیں برائے مطالعہ ضرور پیش کریں۔ نواز شریف صاحب کو یہ علم بھی ہونا چاہیے کہ ”مسمی انقلاب‘‘ سوویت یونین، عوامی جمہوریہ چین اور اسلامی جمہوریہ ایران سے ہوتا ہوا اب ملٹی نیشنل بزنس ہائوسز اور این جی اوز میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ہمارے عوام کی اکثریت سیاسی لحاظ سے جذباتی ہے۔ خدشہ ہے کہ بے چارے 2018ء کے انتخابات میں کسی ”شریف ‘‘ شیخ مجیب الرحمن یا ذوالفقار علی بھٹو کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔ وطنِ عزیز میں اب مزید توڑ پھوڑ اور فساد کی گنجائش نہیں ہے۔اگلا کالم … منیر بلوچ