وزیر اعظم نواز شریف جب لندن کے ایک ہسپتال میں علاج کرا رہے تھے تو عمران خان بھی اسی شہر کے مہنگے ترین ریستوران میں شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لیے فنڈ ریزنگ کر رہے تھے۔ جہانگیر ترین بھی وہیں پاناما لیکس کے حوالے سے میاں نواز شریف کے اثاثوںکو طشت از بام کرنے کے لیے مالیاتی معاملات کی چھان بین کرنے والے ماہرین سے مذاکرات کر رہے تھے۔ ”حکیم‘‘ آصف علی زرداری بھی نواز شریف کی رہائش گاہ کے قریب ہی واقع چرچل ہوٹل میں ”مطب‘‘ سجائے بیٹھے ہیں‘ اور علامہ پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری کینیڈا کے یخ بستہ ماحول میں بیٹھ کر بڑھکیں مار رہے ہیں کہ وہ پاناما لیکس کے معاملے میں نواز شریف کا تیاپانچہ کر دیں گے۔ چوہدری نثار علی خان بھی‘ جو پریس کانفرنس میں فرما کر گئے تھے کہ وہ اپنی اہلیہ کے علاج کے لیے جرمنی جا رہے ہیں، لندن ہی پہنچ گئے‘ جو اب غالباً وہاں سے جرمنی جا چکے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین بھی بغرض علاج جرمنی میں ہیں۔ گویا ملکی سیاست کے قریباً سبھی اہم و مرکزی کردار یورپ، امریکہ یا کینیڈا کی ہوا کھا رہے ہیں جبکہ بچی کھچی لیڈرشپ پاکستان میں بیٹھ کر نواز شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں کے خلاف واویلا کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی مرغی یا مرغا عمران خان کی دسترس سے باہر نکل چکا ہے کیونکہ پارٹی نہ تو نواز شریف کے استعفے کی حامی ہے اور نہ ہی رائے ونڈ میں نواز شریف کے گھر پر دھرنا دینے کے حق میں ہے۔ اب شاہ محمود قریشی‘ جو اپنی ہی پارٹی کی امیر کبیر قیادت سے تنگ ہیں، مختلف جماعتوں سے رابطے کر رہے ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے چوہدری پرویز الہٰی سے ملاقات کی لیکن نواز شریف حکومت کو گرانے کے لیے تازہ ترین انٹری سابق وزیر مملکت محمد علی درانی کی ہے جنہیں دیکھ کر غالب کا یہ شعر گنگنانے کو جی چاہتا ہے ؎
کعبے کس منہ سے جائو گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی!
محمد علی درانی میاں نواز شریف سے تو حساب مانگ رہے ہیں لیکن پرویز مشرف کے حق میں تحریک چلانے کے لیے انھوں نے سابق آمر سے جو کروڑوں روپے اینٹھے تھے، ان کا حساب کون دے گا؟۔ باسی کڑھی میں اس ابال سے یہ مطلب اخذ نہیں کرنا چاہیے کہ شریف خاندان پوتر ہے اور اس کے مالی معاملات مواخذے سے بالاتر ہونے چاہئیں، لیکن جو لوگ شریف فیملی کے مالی معاملات پہ تنقید کر رہے ہیں انھیں بھی اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔
کتنی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے اکثر و بیشتر سیاستدان رہتے تو پاکستان میں ہیں لیکن ان کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں اور کاروبار بھی دبئی، لندن، ٹورنٹو اور دوسرے ملکوں میں کرتے ہیں۔ وہ اپنا سرمایہ بھی باہر رکھتے ہیں۔ ہسپتال کھولنے اور یہاں بہتر طبی سہولتوں کے د عووں کے باوجود اپنے علاج کے لیے لندن بھاگے جاتے ہیں۔ یہ بات اصولی طور پر درست ہے کہ ہر شہری کو بیرون ملک تعلیم، علاج اور کاروبار کی مکمل آزادی ہونی چاہیے لیکن حکمرانوں کے لیے جو عوام سے ووٹ لے کر اقتدار میں آتے ہیں، اس حوالے سے ضابطہ کچھ سخت ہونا چاہیے کیونکہ انھیں تو پاکستانیوں اور بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے مثال بننا ہوتا ہے۔ وہ بیرونی سرمایہ کاروں کو دعوت دیتے ہیں کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے بہترین ملک ہے لیکن جب ان کی یا بچوں کی سرمایہ کاری بیرون ملک ہو گی تو سرمایہ کار ان کی بات پر کیسے اعتماد کریں گے؟ جنرل پرویز مشرف کو ہی لے لیجئے، جب تک وہ پاکستان میں سنگین غداری اور اکبر بگٹی کے قتل جیسے مقدمات میں پھنسے ہوئے تھے تو ان پر گویا نزعی کیفیت طاری تھی، جیسے ہی ای سی ایل سے ان کا نام ہٹایا گیا تو دبئی پہنچتے ہی ان کی صحت بحال ہو گئی۔ گزشتہ روز ہی سوشل میڈیا پر پرویز مشرف کی ایک تصویر نمودار ہوئی‘ جس میں وہ ایک خوبرو ٹرینر کے ساتھ جمِ میں ٹریڈ مل کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کے بارے میں بھی قوم کو تشویش لاحق ہوئی جبکہ پاناما لیکس میں اپنے بچوں کے نام آنے کے فوراً بعد اپنی تمام مصروفیات ترک کر کے رائے ونڈ جا بیٹھے اور پھر اچانک بغرض علاج لندن روانہ ہو گئے۔ انھوں نے لندن پہنچتے ہی پارک لین میں اپنے انہی فلیٹس کے سامنے‘ جن کی ملکیت اور خریدار ی کے حوالے سے اعتراضات ہو رہے ہیں‘ میڈیا سے تفصیلی بات چیت کی۔ میاں صاحب کی طبیعت یقیناً ناساز ہو گی لیکن شکر ہے کہ اتنی بھی نہیں کہ وہ اقتدار کو خیرباد کہنے کو تیار ہو جائیں۔ تاہم یہ اطلاعات اب گردش کر رہی ہیں کہ میاں صاحب کو عارضہ قلب کے علاج کے لیے کچھ عرصہ لندن میں ہی قیام کرنا پڑے گا۔ گزشتہ ہفتے یہ چہ میگوئیاں میڈیا اور سیاسی بیٹھکوں کی زینت بنی رہیں کہ میاں نواز شریف کا جانشین کون ہو گا کیونکہ وہ اب مستعفی ہوا ہی چاہتے ہیں۔ مختلف قیاس آرائیاں ہوتی رہیں اور اس حوالے سے چوہدری نثار علی خان اور اسحق ڈار کا بھی نام سامنے آیا‘ اور یہ بھی کہا گیا کہ شریف خاندان میں شہباز شریف کی جانشینی کے حوالے سے اتفاق نہیں پایا جاتا۔ یہ بھی کہا گیاکہ میاں نواز شریف کی فیملی میاں شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کے حق میں نہیں ہے۔ اس حوالے سے ان کی دوسری اہلیہ محترمہ تہمینہ درانی کی اس ٹویٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ شریف خاندان کو اثاثے ملک میں رکھنے چاہئیں اور سادہ زندگی گزارنی چاہیے۔ لیکن بعد میں بیگم تہمینہ درانی کو بلاواسطہ طور پر میڈیا میں اس بارے میں وضاحت کرانا پڑی کہ یہ ٹویٹ ان کی ذاتی رائے تھی‘ اور یہ شہباز شریف کے ایما پر نہیںکی گئی۔ دوسری طرف ایک اور ٹویٹ میں محترمہ مریم نواز نے قوم کو پیغام دیا کہ شریف فیملی میں کوئی پھوٹ نہیں ہے۔ یہاں یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر پھوٹ نہیں ہے تو ٹویٹ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ بالآخر شہباز شریف نے بھی لب کشائی کرتے ہوئے وضاحت کر دی کہ وہ بطور خادم اعلیٰ پنجاب کی خدمت کرتے رہیں گے اور وزارت عظمیٰ کے امیدوار نہیں ہیں۔ باخبر لوگوں کو بہت پہلے سے اس بات کا علم ہے کہ محترمہ مریم نواز کو آئندہ سیاسی قیادت سنبھالنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ وہ ایک سال سے وزیر اعظم ہاؤس میں اپنا دفتر لگائے بیٹھی ہیں‘ اور کچھ من پسند وزیروں، مشیروں اور بیوروکریٹس کی میڈیا کے حوالے سے ہر روز میٹنگ لیتی ہیں۔ شروع شروع میں میٹنگ کے بعض شرکا نے ان کے احکامات پر کہا کہ اس بارے میں تو میاں نواز شریف سے پوچھنا پڑے گا‘ تو اگلے ہی روز میاں نواز شریف گھومتے پھرتے اچانک خود میٹنگ میں آگئے اور شرکا پر واضح کر دیا کہ مریم نواز کو اُن کی مکمل آشیرباد حاصل ہے۔ اس وقت سے مریم نواز کے اختیارات میں گوناگوں اضافہ ہو چکا ہے اور بہت سے کلیدی سیاسی معاملات میں بھی ان کے فیصلوں کا گہرا عمل دخل ہے۔ دوسری طرف باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ میاں شہباز شریف‘ جو قریباً ہر دوسرے روز اعلیٰ سطح کے اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آیا کرتے تھے، آہستہ آہستہ کچھ پیچھے ہٹ گئے اور ان کا رول زیادہ تر پنجاب تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ میاں نواز شریف کے پچھلے دور کے برعکس اس مرتبہ ان کے سمدھی اور وزیر خزانہ اسحق ڈار ان کے عملاً نائب بن چکے ہیں۔ ڈار صاحب اپنے مخصوص میلان طبع کے مطابق اپنے معاملات میں شہباز شریف سمیت کسی کی بھی مداخلت پسند نہیں کرتے۔ ہر حساس معاملے میں ان کا رول کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان واقعی ایک جمہوری، پارلیمانی وفاقی مملکت ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو میاں نواز شریف لندن جانے سے پہلے اپنی پارٹی کے رہنماؤں کا اجلاس بلاتے، پارلیمانی پارٹیوں کو اکٹھا کرتے اور ممکن ہوتا تو قوم سے خطاب کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کو خود اعتماد میں لیتے، لیکن ہمارے ہاں تو پارلیمنٹ کا کام محض وزیر اعظم کو منتخب کرنا ہی ہوتا ہے، اس کے بعد وہاں کورم بھی بمشکل پورا ہوتا ہے۔ ملک کی تیسری بڑی اپوزیشن جماعت تحریک انصاف بھی اکثر پارلیمنٹ سے غائب رہتی ہے۔ جہاں تک وفاقی کابینہ کا تعلق ہے، اس کے اجلاس بھی شاذ ہی ہوتے ہیں؛ حالانکہ کابینہ کو ہر ہفتے ملنا چاہیے۔ وزرا کو بھی وزیر اعظم سے چند منٹ کی ملاقات کے لیے کئی کئی ہفتے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ برس زرداری صاحب نے مجھ سے لندن میں ملاقات کے دوران یہ فقرہ کسا تھا کہ میاں نواز شریف کو مغل اعظم نہیں بلکہ وزیر اعظم بننا چاہیے۔ لیکن لگتا ہے کہ میاں صاحب کے آئیڈیل تو مغل دور کے حکمران ہی ہیں۔
رہا معاملہ تحقیقاتی کمشن کی تشکیل کا تو حسب توقع اپوزیشن نے جسٹس (ر) سرمد جلال عثمانی کا نام رد کر دیا ہے۔ جسٹس عثمانی ایک شریف آدمی ہیں۔ پرانے کلاس فیلو ہونے کے ناتے میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں۔ اُن پر خوامخواہ یہ الزام لگا دیاگیا کہ اُن کی اہلیہ میاں نواز شریف کی جماعت میں ایکٹو ہیں۔ بہتر یہی ہو گا کہ اسحق ڈار اپوزیشن سے مل کر کمشن کی تشکیل کا معاملہ طے کر لیں‘ کیونکہ بالآخر ایسا ہی کرنا پڑے گا۔