منتخب کردہ کالم

لنکا میں سبھی باون گز کے (ناتمام) ہارون الرشید

عزت کے ایک احمقانہ تصوّر کے ساتھ ‘ایک دوسرے کے ساتھ ہم دست و گریباں کیوں رہتے ہیں؟ عزّت نہیں‘ یہ وحشت ‘ ہیجان اور خود پسندی ہے۔ عزّت صبر کے ساتھ ہوتی ہے‘ وقار کے ہمراہ!
عمران خان‘ اگر اپنے رفیق علیم خان کو وضاحت کا موقع دیتے؟ سوال کرنے والے سے اگر یہ کہتے کہ الزام سے اخبار نویس کو گریز کرنا چاہئے؟ اگر علیم خان اٹھتے اور یہ کہتے: قبضہ گروپ نہیں‘میں ایک کاروباری آدمی ہوں۔ سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اپوزیشن سے وابستہ ہوں ۔مشکل حالات میں کاروباری سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے۔ ملامت اور مذمت کی بجائے‘ آپ کو تو مجھے داد دینی چاہیے۔
لنکا میں سبھی باون گزکے ہیں ۔ علیم خاں غصے میں آ گئے اور ایک ناروا بات کہی‘ بالکل ناروا۔ اخبار نویس سے انہوں نے کہا کہ اگر پانچ سات مرلے درکار ہیں تو وہ ان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ خدا لگتی یہ ہے کہ سوال کا لہجہ غلط تھا اور بالکل غلط تھا۔
پھر بھی سلیقہ مندی کے ساتھ معاملے کو سمیٹنا ممکن تھا۔ علیم خان میں افتخار کا جذبہ جاگ اٹھا اور انہوں نے حقارت کا انداز اختیار کیا۔ اخبار نویس نے غلط کیا تھا تو علیم خاں نے بھی۔ ایک چیز مگر اس کے حق میں جاتی ہے۔ اس نے معذرت کرلی۔ اپنی غلطی جب اس نے مان لی تو قصہ تمام ہوا۔ قصیدہ بردہ کا ایک مصرع یہ ہے۔” کریم وہ ہے‘ جو عذر قبول کرے‘‘۔ معاف کیجئے گا معافی مانگنے والے‘ کو معاف نہ کرنا تکّبر کا اظہار ہے۔
میڈیا کے زکوٹا جن کو خوراک چاہئے‘ ہمہ وقت اور بے حد ۔ پھر وہ لوگ ہیں‘ تحریک انصاف سے جنہیں خدا واسطے کا بیر ہے۔ ان میں سے بعض نے تاثر دینے کی کوشش کی کہ پی ٹی آئی کے لیڈر نے‘ صحافی کے ساتھ سودا بازی کرنے کی کوشش کی۔ جملہ بازی تھی ‘ سودے بازی کہاں سے آ گئی۔ رہی مقدمہ بازی تو اس میں سے کیا نکلے گا ؟۔رہی ملک گیر تحریک تو اس کا کیا جواز؟
تحریک انصاف کے مخالف ٹی وی چینلز اوروفاقی وزیر اطلاعات نے اس پہ ردّے چڑھانے کی کوشش کی: عمران خاں بدتمیز ہیں اور اپنے ساتھیوں کو انہوں نے بدتمیزی سکھائی ہے۔ محترمہ وزیر صاحبہ نے کیا تمیز اور شائستگی کا مظاہرہ کیا؟ دو آدمیوں کا ذاتی جھگڑا ہے۔ دونوں نے حماقت کا ارتکاب کیا ۔سچ پوچھیے تو اخبار نویس نے زیادہ۔ اول تو آغاز اس نے کیا‘ ثانیاً معافی طلب کرنے پر جتھہ داری ‘ اگر یہ تکّبر نہیں تو اور کیا ہے؟ عمران خاں کو تلخ گفتار کہا جاتا تو اس کا جواز تھا۔ خواجہ سعد رفیق‘ طلال چوہدری ‘پرویز رشید اور دانیال عزیز کیا کوثر و تسنیم میں دھلی زبان میں بات کرتے ہیں۔نون لیگ کا میڈیا سیل‘ اشتعال کی آگ بھڑکانے میں لگا رہتا ہے ۔ذاتی طور پرمیاں محمد نواز شریف ناشائستگی سے گریز کرتے ہیں مگر ان کے کارندے؟۔
آغاز نون لیگ نے کیا تھا اور بہت سے لوگ اس کے گواہ ہیں۔1996ء میں بہت سوچ سمجھ کر‘ عمران خاں کے خلاف کردار کشی کی مہم چلائی گئی‘ انہی خطوط پر 1988ء میں حسین حقانی اینڈ کمپنی نے جو استوار کیے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی تصاویر۔ غلط تاثر دے کر‘ کچھ اصلی اور کچھ جعلی۔ تحریک انصاف کا طرزِ عمل‘ اسی کا جواب ہے ؎
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا تھا‘ وہ لوٹا رہا ہوں میں
صحافت اور سیاست میں چولی دامن کا ساتھ ہے ایک دوسرے کے ساتھ انہیں جینا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ دونوں ہی نابالغ ۔ جنرل پرویز مشرف نے نجی چینل کھولنے کا جو تجربہ کیا‘ آخری تجزیے میں وہ بالکل درست ہے ۔ برقی میڈیا اگر موجود نہ ہو‘ بے باک صحافی اگر کارفرما نہ ہوںتو حکمران اپنی قوم شاہراہوں پربچھا کر پامال کر دیتے۔ فوج‘ عمران خاں اور آزاد صحافت نے ملک کو پولیس سٹیٹ بننے سے بچا لیا۔
غالباً ترکی کا تجربہ پرویز مشرف کے ذہن میں رہا ہو گا۔ ترکی اور پاکستان دو الگ طرح کے معاشرے ہیں ۔ پاکستان میں حقیقی آزادی کے ادوار بہت مختصر سے رہے‘ احساسِ کمتری برصغیر کا مرض ہے ‘ تعلیم محدود۔ جائزہ لیتی تو مشرف حکومت جان لیتی کہ ترکیہ میں صحافت کی آزادی نے اوّل اوّل بہت سے مسائل پیدا کئے۔ اوّل اوّل معاشروں کو رہائی نصیب ہو تو غیر ذمہ داری کا طوفان ساتھ اٹھتا ہے ۔ جب تک برقی میڈیا کا دور آیا‘ ترک معاشرہ‘ طویل تجربے کا حامل تھا۔ پاکستان میں تو ایسے میڈیا گروپ بھی موجود ہیں‘ دشمن ممالک سے جو رہ و رسم رکھتے ہیں۔ترکی میں اس کا تصور بھی نہیں۔ترکوں کی قوم پرستی ضرب المثل ہے۔پاکستان ایک نئی قوم کاوطن ہے۔ قائد اعظم نے کہا تھا ‘ ایک صدی اسے متشکل ہونے میں لگے گی۔ہمارے یہاں تو یہ بھی ہوا کہ قومی سلامتی کے تقاضے میڈیا میںبھلا دیے گئے‘ حتیٰ کہ بعض نے ملک کی خارجہ پالیسی تشکیل دینے کی کوشش کی۔
جنرل کیانی شائستہ آدمی ہیں۔ اختلاف اور احتجاج بھی کریں توالفاظ کے چنائو میں منطق ہی پر زور دیتے ہیں۔ اشتعال سے ہر حال میں گریز اں۔ ایک بار انہوں نے کہا تھا: سات بجے سے رات گئے تک ‘ جو کچھ ہمارے ہاں برپا ہوتا ہے‘ دنیا کے کسی دوسرے ملک میںبھی کیا اس کی مثال موجود ہے؟
علیم خاں کے ساتھ اخبار نویسوں کی تکرار ایک معمولی واقعہ ہے‘ جسے بھلا دینا چاہیے مگر ایک بڑے تناظر میں ذرائع ابلاغ کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
یہاں تک لکھ چکا تھا کہ علیم خان کا فون موصول ہوا۔ ان کا کہنا یہ ہے: سوال پر تو میں خاموش رہا‘ لیکن پھر اس آدمی نے آوازہ کسا اور کستا رہا۔ بقول ان کے وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور پیچھے چلے گئے۔ خاموش ہوجانے کی بجائے‘ کسی بھی شریف آدمی سے‘ جس کی امید کی جاتی ہے‘ ان صاحب نے توہین کا سلسلہ دراز کر دیا۔ اگر یہ درست ہے تو نہایت ہی افسوسناک ۔ ملک گیر تحریک چلانے کے آرزو مند صحافی رہنمائوں کو‘ پوری احتیاط سے جائزہ لینا چاہیے ۔اس پر بھی غور کرنا ہو گا کہ اپنے طور پر یہ صاحب سوال کر رہے تھے یا کسی نے انہیں اکسایا تھا۔ میں کوئی الزام عائد نہیں کر رہا۔ فوراً بعد بعض چینلوں پر جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا گیا‘اس میں شکوک و شبہات پیدا ہونا فطری ہے۔
میڈیا کے بارے میں تحریک انصاف کے رہنما عموماً غیر محتاط پائے گئے ۔مراد یہ نہیں کہ اس اس کے ناز اٹھائیں ۔ اس کے مقابل دب کر رہیں یاریاکاری کے ساتھ غیر ضروری شائستگی کا مظاہرہ ہو۔ نزاکتوں کا مگر خیال رکھنا چاہیے۔ پی ٹی آئی کے کارکن جذباتی ہیں۔ غصیّ میں کھولتے ہوئے وہ بدگمانی سے کام لیتے ہیں۔ نصرت جاوید ایسے شخص کو انہوں نے ”لفافہ جرنلسٹ‘ قرار دے دیا۔ 1998ء میں سی ٹی بی ٹی پر بحث کے ہنگام پر پی ٹی وی کے ایک مذاکرے میں ایک بار ناچیز کے بارے میں ‘اس نے کہا تھا: بیس برس کی رفاقت ہے مگر اللہ کے فضل سے آج تک کسی ایک چیز پر اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ نصرت ان نادر لوگوں میں سے ایک ہے‘ جو مقبولیت کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ ایسے اخبار نویس پر اس قدر سنگین الزام اور وہ بھی اس اہتمام کے ساتھ؟
عمران خاں نے ایک بار یہ بھی ارشاد کیا کہ اخبار نویس بلیک میلر ہیں۔فاسٹ بالرکے مزاج کو ملحوظ رکھتے ہوئے ‘ یہ بات بھلا دی گئی۔ ان کا طرز عمل مگر خوف کو جنم دیتا ہے۔ اپنے ساتھیوں کی انہیں تربیت کرنی چاہیے۔ بالکل برعکس ‘ وہ انہیں جنون کا درس دیتے ہیں۔ بہادری اور ہیجان دوبالکل ہی الگ چیزیں ہیں ؎
سودائے عشق اور ہے‘ وحشت کچھ اور ہے
مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا
بحرانوں‘ آندھیوں اور طوفانوں میں اور بھی زیادہ ہوش مندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہریں جب برہم ہوں تو ملاّح اور بھی زیادہ محتاط ہو جایا کرتا ہے۔ ہمیں کیا ہوا؟ ہمیں ادراک کیوں نہیں؟۔
عزت کے ایک احمقانہ تصوّر کے ساتھ ‘ایک دوسرے کے ساتھ ہم دست و گریباں کیوں رہتے ہیں؟ عزّت نہیں‘ یہ وحشت ‘ ہیجان اور خود پسندی ہے۔ عزّت صبر کے ساتھ ہوتی ہے‘ وقار کے ہمراہ!