منتخب کردہ کالم

لڑائی ختم نہیں‌ ہوئی … کالم لطیف چوہدری

لڑائی ختم نہیں‌ ہوئی … کالم لطیف چوہدری

میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد کم از کم یہ حقیقت تو سب پر واضح ہو گئی ہے کہ اس ملک کا وزیراعظم کس قدر طاقتور ہوتا ہے‘ پاور گیم کے کھلاڑی با آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستان جیسے ملکوں میں حقیقی طاقت کس کے پاس ہوتی ہے؟

چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والے وہ دانشور دوست جو پنجاب کے وزیراعظم کو بہت طاقتور سمجھتے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے پنجابی سامراج کی اصطلاح استعمال کرتے رہتے ہیں، وہ اب شاید پنجاب کی افسانوی طاقت کے بارے میں اپنے خیالات تبدیل کر لیں۔ بہرحال عدالت عظمیٰ کا ’’تاریخ ساز‘‘ فیصلہ آ چکا ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ہو گیا ہے۔

نواز شریف اب سابقہ وزیراعظم بن چکے ہیں، زیادہ پرانی بات نہیں ہے، سب کو یاد ہو گا کہ پیپلزپارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ کیا ہوا تھا‘ وہ تو پنجاب کی روایتی اشرافیہ کے فرد تھے، انھیں سوئٹزرلینڈ حکومت کو اس وقت کے صدر آصف زرداری کے خلاف کیس کھولنے کے لیے ایک خط تحریر کرنے کا حکم دیا گیا تھا جو انھوں نے نہیں لکھا‘ نتیجہ توہین عدالت پر تا برخاست عدالت سزا اور 5سال کی نااہلی‘ گیلانی صاحب نے خاموشی سے اپنی نااہلیت کی مدت پوری کر لی اور شکایت بھی نہیں کی، اب ایک اور وزیراعظم ایسے ہی انجام سے دوچار ہوا ہے۔ لیکن اس بار نااہلی کا جرم مختلف ہے۔
Advertisement

نواز شریف کی نااہلی کے بارے میں پرچہ آؤٹ ہو چکا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی چوٹی کی شخصیات کو پتہ چل چکا تھا کہ کیا فیصلہ آنے والا ہے، چوہدری نثار نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ہی کہہ دیا تھا کہ وزیراعظم صاحب کو نااہلی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے لیکن شاید نواز شریف کے ذہن کے کسی کونے میں یہ امید موجود تھی کہ انھیں نااہل قرار دینا مشکل ہو گا حالانکہ متحدہ عرب امارات سے اقاما اور کمپنی کے مصدقہ کاغذات بھی آ چکے تھے اور نااہلی سے بچ نکلنا ممکن نہیں رہا تھا۔ ویسے بھی جب کوئی حکمران یہ کہنا شروع کر دے کہ اس کے خلاف عالمی سازش ہو رہی ہے تو سمجھ لیں کہ دل کا جانا ٹھہر گیا ہے، صبح گیا یا شام گیا۔

پاناما لیکس جیسے سکینڈل بلاوجہ منظر پر نہیں آتے‘ ایسے سکینڈلز کے پس پردہ ہمہ گیر مقاصد ہوتے ہیں۔ جب پہلی بار پاناما پیپرز منظرعام پر آئے تو اس وقت ہی یہ لگتا تھا کہ یہ سکینڈل وزیراعظم کے اقتدار کے خاتمے تک ان کی جان نہیں چھوڑے گا لیکن ایک امید تھی کہ اس سکینڈل میں براہ راست ان کا نام نہیں تھا۔ اس لیے شاید میاں صاحب اس وار سے بچ نکلیں۔ انھوں نے اڑتے تیر کے سامنے اپنا سینہ یوں کیا کہ قوم سے خطاب کر کے خود کو اس کیس کا فریق بنا لیا۔

مجھے یاد ہے کہ ان دنوں لاہور کے ایک بڑے ہوٹل میں ایک اہم سرکاری افسر کے ساتھ سینئر صحافیوں کا لنچ تھا‘ اسی معاملے پر بات چیت ہو رہی تھی‘ اسی دوران ایک اور اہم شخصیت بھی وہیں آ گئی‘ وہ اپنے کسی فنکشن میں شریک ہونے کے لیے اسی ہوٹل میں آئے تھے‘ صحافیوں کی بھنک پڑنے پر وہ وہاں آ گئے‘ باتوں باتوں میں ایک نکتہ اٹھایا گیا کہ وزیراعظم نے قوم سے خطاب کر کے خود کو اس سکینڈل سے منسلک کر لیا ہے‘ زیادہ بہتر ہوتا‘ اگر وہ اس پر خاموشی اختیار کرتے اور اس سکینڈل کا بوجھ اپنی اولاد کو اٹھانے دیتے کیونکہ آف شور کمپنیوں کے حوالے سے پاناما پیپرز میں نام انھی کے تھے‘ اس پر مہمان شخصیت نے کہا کہ قوم سے خطاب کرنے کا فیصلہ وزیراعظم کا اپنا تھا‘ وزیراعظم کو مشورہ دیا گیا تھا کہ قوم سے خطاب نہ کریں۔ لیکن وہ نہیں مانے‘ ظاہر ہے جب انھوں نے فیصلہ کر لیا تو مشیر صاحبان کیا کر سکتے ہیں۔

انھوں نے قوم سے خطاب کیا اور پھر قومی اسمبلی میں اپنی اولاد اور کاروبار کے حوالے سے صفائی پیش کی، یوں وہ اس کیس میں ایک فریق بن گئے۔ اس پرانی بات کو یاد کرنے کا مقصد صرف یہ باور کرانا ہے کہ پاناما کیس میں وزیراعظم خود ملوث ہوئے ہیں، پھر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی نے معاملات یہاں تک پہنچا دیے ہیں۔ آج نواز شریف تمام تر سیاسی طاقت رکھنے کے باوجود بے کسی اور بے چارگی کی تصویر بن گئے۔ یہاں مجھے پنجابی کا ایک محاروہ یاد آ رہا ہے، ماڑی سی تے فیر لڑی کیوں سی یعنی اگر تم اتنے کمزور تھے تو لڑے کیوں تھے۔ پاکستان کے سیاستدانوں کو اس پر سوچنا چاہیے۔ لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہروردی، محترمہ فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو، بینظیر بھٹو ، یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف تک کا حشر دیکھ لیں۔

یہی سچ ہے کہ پاکستان میں سیاست دان ہمیشہ کمزور رہے، کوئی کہے گا کہ سیاست دان کرپشن کرتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں خود کھلونا بنتے ہیں۔ اگر وہ کرپشن نہ کریں، نالائق نہ ہوں تو اسٹیبلشمنٹ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، شاید اس استدلال یا منطق میں وزن ہو لیکن بھائی کرپشن یا نالائقی پر تو یہاں کوئی سزا نہیں ہوتی۔ کیا جونیجو کو کرپشن پر برطرف کیا گیا، کیا ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ کرپشن پر الٹا گیا۔

نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی نیوز لیکس کے ایشو پر فائنل فیز میں داخل ہوئی، اس خبر کی لیکیج کا ذمے دار کون تھا، اس کا سب کو پتہ تھا، میری سمجھ سے باہر ہے کہ نواز شریف اور ان کی کچن کیبنٹ نے خبر لیکس کا جوا کیوں کھیلا؟ نواز شریف دھرنے سے پہلے ہی بمشکل بچے تھے، وہ عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے کے شکنجے میں بری طرح جکڑے ہوئے تھے، اس شکنجے سے بھی انھیں اسٹیبلشمنٹ نے ہی نکالا تھا۔ اس کے بعد انھیں محتاط ہو جانا چاہیے لیکن انھوں نے نیوز لیکس کا پنگا لے لیا، اس میں پہلے پرویز رشید ، پھر طارق فاطمی اور راؤ تحسین علی خان کی قربانی دے دی گئی۔

ان تینوں قربانیوں میں راؤ تحسین کو بلاوجہ گھسیٹ کر قربان گاہ پر لا کر ذبح کر دیا گیا۔ اس سے بیورو کریسی میں اچھا تاثر نہیں گیا، یہاں سے نواز شریف کی پسپائی کا عمل تیز ہو گیا۔ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو پتہ تھا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، اس سے اسٹیبلشمنٹ مطمئن نہیں ہو گی اور پھر وہی ہوا، آئی ایس پی آر کا Rejected والا ٹویٹ سامنے آ گیا۔

اس ٹویٹ کی واپسی کے معاملے پر بھی میاں صاحب نے ضد اور ہٹ دھرمی دکھائی، اگر Withdraw کے بجائے Regret کو خوش دلی سے مان لیا جاتا، تب بھی دلوں میں نرم گوشہ پیدا ہونے کا امکان تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا، سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاناما لیکس کا ایشو سر پر تلوار بن کر لٹک رہا تھا ، اس کے باوجود وزیراعظم صاحب کے رویے میں سختی سمجھ سے بالاتر تھی۔مجھے یہ لگتا ہے کہ لڑائی ختم نہیں ہوگی،اب یہ ایک نئے رنگ میں لڑی جائے گی۔ دونوں جانب ہوش مندی نہیں غصہ غالب نظر آتاہے۔ اﷲ خیر کرے۔