لیجیے، شوہر بھی دردِ سَر ہوئے!…ایم ابراہیم خان
ازدواجی زندگی کے حوالے سے ایک نئی تحقیق نے دل بستگی کا اچھا خاصا سامان کیا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اب تک یہ تصور کیا جاتا رہا ہے کہ خواتین کے لیے گھریلو ذمہ داریوں کے حوالے سے بچے دردِ سَر ہیں مگر اب معلوم ہوا ہے کہ بچوں سے کہیں زیادہ تو شوہر دردِ سَر ہوتے ہیں!
ماہرین کا کمال یہ ہے کہ جب بھی ازدواجی زندگی کے حوالے سے تحقیق کرنے بیٹھتے ہیں کوئی نہ کوئی انوکھا نکتہ کشید کرکے ہی اٹھتے ہیں۔ اُنہوں نے ایک بار پھر یکسر منفرد نکتہ کشید کرکے بہت سوں کی گھریلو زندگی کے جنگل میں آگ لگانے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ ہم ایک انتہائی پُرفتن دور میں جی رہے ہیں جس میں ازدواجی زندگی کے حوالے سے کسی بھی فرد کے لیے کوئی واضح سہولت ہے نہ آسانی۔ ایسے میں ماہرین رہی سہی پوری کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اِن کے بیان کردہ ”نکاتِ جاں فزا‘‘ معاملات کو مزید بگاڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔
مرزا تنقید بیگ ماہرین سے بہت چڑتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جب قدرت کسی کے بارے میں یہ طے کرلیتی ہے کہ اُس سے کوئی بھی مثبت کام نہیں لینا اور صرف خرابیوں کی راہ ہموار ہونے دینی ہے تو اُسے ماہرین کی صف میں کھڑا کردیتی ہے۔ اور اِس صف میں شامل ہونے والا ہر فرد خود کو متعلقہ امور پر حرفِ آخر سمجھنے لگتا ہے اور موقع ملتے ہی رائے دینا اپنا پیدائشی حق اور فرض گردانتا ہے!
مرزا کہتے ہیں ”ماہرین کو تو بس زبان ہلانے سے کام ہے۔ ع
کسی کی جان گئی، آپ کی ادا ٹھہری!
زندگی اور بالخصوص ازدواجی زندگی کس بلا کا نام ہے اِس کا ماہرین کو ‘ککھ‘ بھی اندازہ نہیں۔ خواتینِ خانہ کے لیے نرم گوشہ رکھنا اِن کا پرانا وتیرہ ہے۔ تاکہ ع
کوئی تو ہو جو مِری وحشتوں کا ساتھی ہو!
ماہرین بہت چالاک ہیں۔ وہ کسی ایک فریق کو اپنا بناکر رکھتے ہیں تاکہ حمایتی دستیاب رہیں! یہ لوگ جب بھی ازدواجی زندگی کے بارے میں تحقیق کا ڈول ڈالتے ہیں تو طویلے کی بلا بندر کے سَر کے مصداق سارا ملبہ شوہروں پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خواتین کو زیادہ سے زیادہ مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کے ذریعے ماہرین دراصل خواتین کی ہمدردیاں بٹورنے کے فراق میں رہتے ہیں۔ اب دیکھو، کتنی ہوشیاری سے بچوں کی ذمہ داریوں کے لیے بھی مردوں کو موردِ الزام ٹھہرایا جارہا ہے۔‘‘
حال ہی میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق ماہرین کہتے ہیں کہ خواتین کو روزانہ صبح غیر معمولی ذہنی تناؤ کا سامنا ہوتا ہے۔ اُنہیں بہت سے کام کرنا ہوتے ہیں۔ بچوں کو اسکول کے لیے تیار کرنا کوئی چھوٹا دردِ سَر ہے؟ ایسے میں اگر میاں بھی دفتر جانے کی تیاری کر رہا ہو تو سمجھ لیجیے گئی بھینس پانی میں۔ اصل بحران اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ خواتین کو تمام کام تنہا کرنا پڑیں یعنی جیون ساتھی کسی بھی کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے بالکل تیار نہ ہو۔
ماہرین کا بیان کردہ یہ نکتہ بھی مرزا سے ہضم نہ ہوسکا۔ ہوتا بھی کیسے؟ وہ ایسے معاملات کو زندگی بھر بھگتتے آئے ہیں! خواتین کو جیون ساتھیوں کی طرف سے معاونت نہ ملنے سے متعلق نکتے پر مرزا نے تبرّائی انداز اختیار کرتے ہوئے کہا ”میاں، ان ماہرین کو تو اللہ سمجھے۔ کون سا شریف شوہر ہے جو گھر کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں شریکِ حیات کی معاونت نہیں کرتا؟ اور کون سا شوہر ہے جو بے چارہ شریف نہیں! یہ تو مان نہ مان میں تیرا مہمان والا معاملہ ہے۔ شوہر چاہے کہ نہ چاہے، اُسے گھر کے معاملات میں ہاتھ بٹانا ہی پڑتا ہے۔ اس معاملے میں خواتین سراسر ناشکرے پن کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ بچوں کو اسکول کے لیے تیار کرنے سے اسکول پہنچانے اور واپس لانے تک تمام مراحل میں مرد بے چارے بار بردار جانور کی طرح استعمال ہو رہے ہوتے ہیں مگر کوئی اِس مشقّت کو کسی شمار میں نہیں رکھتا۔ جسے دیکھیے وہ خواتینِ خانہ کے غم میں گُھلا جاتا ہے۔ اور خواتین بھی ایسی چالاک و سفّاک واقع ہوئی ہیں کہ گھریلو معمولات کی چَکّی میں بہت باریک پِستے ہوئے مَردوں کے حق میں کچھ بولنے کے بجائے اُن کے نام پر روتی ہی رہتی ہیں۔‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ خوش گوار ازدواجی زندگی کے لیے انتہائی لازم ہے کہ تمام ذمہ داریوں کو مرد و زن مساوی بنیاد پر نبھائیں۔ یہ ”نکتۂ جاں سوز‘‘ بھی ایسا نہیں جو کسی کی سمجھ میں نہ آتا ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں بھی مردوں ہی کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مرزا کا استدلال ہے ”جو ماہرین مرد و زن میں تمام ذمہ داریاں مساوی تقسیم کرنے کی بات کرتے ہیں اُن سے کوئی کہے کہ قلتِ آب کے دوران گراؤنڈ فلور سے پانی کے کین بھر کر چوتھی منزل کے فلیٹ تک لانے والے مرد کو کچھ ریلیف دلائیں اور خواتین کو بھی اس کام میں شریک کریں! ماہرین ہی تو کہتے ہیں کہ خوش گوار ازدواجی زندگی کے لیے تمام ذمہ داریوں کا مرد و زن میں مساوی بنیاد پر تقسیم کرنا لازم ہے! مگر صاحب، ایسا ہو نہیں سکتا۔ جب بھی کوئی بحرانی کیفیت نمودار ہوتی ہے، خواتین کو ”لیڈیز فرسٹ‘‘ کے اصول کی بنیاد پر ریلیف دیتے ہوئے الگ کردیا جاتا ہے! مصیبت کی ہر گھڑی میں سارا کا سارا بوجھ مردوں کو جھیلنا پڑتا ہے۔ خواتین کے لیے نرم گوشہ رکھا جاتا ہے۔ اور اس نرم گوشے کے حصے کی ساری سختی مردوں کے حصے میں آتی ہے!‘‘
مرزا کی ابھی جاری تھی کہ بھابی چائے اور بسکٹ کی ٹرے لے کر میدانِ کارزار یعنی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں۔ اتنا کافی تھا۔ مرزا نے بھابی کو دیکھتے ہی خواتین سے متعلق اپنی آراء کو بریک دیا۔ دینا ہی تھا۔ مرزا کوئی گوجرانوالہ کے پہلوان تو ہیں نہیں کہ بیوی کے سامنے اکڑ سکیں۔ اخبارات میں ازدواجی زندگی سے متعلق تحقیق سے بھابی صاحبہ بھی آگاہ رہتی ہیں اس لیے وہ جانتی ہیں کہ مرزا اس حوالے سے بتیانے کے بہت شوقین ہیں۔ ہم جب بھی مرزا کے گھر جاتے ہیں، بھابی سمجھ جاتی ہیں کہ ازدواجی زندگی کے اسرار و رموز سے متعلق تحقیق پر مباحثہ برپا ہوگا۔ مرزا ازدواجی زندگی کے بارے میں جو کچھ بھی کہتے ہیں اُس سے بھابی بھی بہت محظوظ ہوتی ہیں کیونکہ اُنہیں خوب اندازہ ہے کہ مرزا کو گھوم پھر کر تو خواتین کی حاشیہ برداری کی طرف ہی آنا ہے۔ اور کیوں نہ آئیں؟ پانی آخرِ کار اپنی پنسال کی طرف آتا ہے!
بہر کیف، ماہرین کی عظمت کو سلام کہ اُنہوں نے بچوں کی چخ چخ اور دیگر بہت سے معاملات کے حوالے سے خواتین کے حصے میں آنے والے دردِ سَر کو بھی مردوں کے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔ خواتین کی حاشیہ برداری میں ماہرین اِتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ اُنہیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ بھی آخر مرد ہیں! گھریلو ذمہ داریوں اور دردِ سَر کے حوالے سے پہلے تو بچوں اور شوہروں کو ایک پیج پر لا کھڑا کیا گیا اور پھر سارا ملبہ شوہروں پر ڈال دیا گیا! علامہ اقبال نے برق اور مسلمانوں کے حوالے سے جو ”فارمولا‘‘ بیان کیا ہے وہ شوہروں پر بھی اطلاق پذیر رہتا ہے۔ ازدواجی زندگی کے معاملات میں کی جانے والی تحقیق کی شکل میں بھی برق گرتی ہے تو بے چارے شوہروں پر!