منتخب کردہ کالم

لیڈری کا شوق؟ .. پروفیسر اسرار بخاری

لیڈری

لیڈری کا شوق؟ .. پروفیسر اسرار بخاری

چیف جسٹس آف پاکستان نے نقار خانہ وطن میں آواز بلند کی ہے:لیڈری کا شوق نہیں، انہیں تو شوق نہیں مگر جو لیڈر نہیں ہوتے اور لیڈری کا شوق رکھتے ہیں، ان کے بارے وہ کچھ کہیں نہ کہیں مگر امیر المومنین سیدنا عمر فاروقؓ کا قول ہے:جس نے کسی منصب کی تمنا کی وہ اس کے لئے اہل نہیں، یہ اہلی اور نااہلی کا قصہ جتنا پرانا ہے اتنا ہی نیا بھی، چیف جسٹس نے لیڈری کے شوق کی نفی کر دی، انہیں ایسا ہی کہنا چاہئے تھا کہ اقلیم انصاف کی لیڈری سے بڑی لیڈری کیا ہو گی کہ لیڈر بھی کٹہرے میں کھڑے کر دیتا ہے، اگر عدل واقعی عدل ہو تو عادل سے بڑھ کر کون؟ انہوں نے کراچی میں گندا پانی پلانے کا نوٹس لے لیا، لاہور میں اسپتال کا دورہ کر لیا، اور یہ کیا عدل نہیں کہ ایسا ڈاکٹر بھی دریافت کر لیا جسے بلڈ پریشر چیک کرنا نہیں آتا، عدل ضروری نہیں کہ کرسی پر بیٹھ کر کیا جائے چل پھر کر بھی کیا جا سکتا ہے، اور یہ نوبت کب آتی ہے جب ظلم کی بو سے منصف کے ناک کا آخری حصہ جلنے لگے، انہوں نے بوتلوں میں غیر معیاری پانی بھر کر بیچنے کا بھی نوٹس لے لیا دراصل صاف پانی کو بوتل کی سہولت حاصل ہوتی ہے، اور جس پانی کو صاف ہونے کے باوجود بوتل میں قیام نہ ملے وہ گندا پانی کہلاتا ہے، اس لئے سارا زور بوتلوں پر ہے پانی چاہے کسی بھی نسل کا ہو، یہی حال دیگر پراڈکٹس کا ہے کہ معیار پر خرچ کرنے کے بجائے اشتہارات پر خرچہ کیا جائے اس طرح ناقص مال دھڑا دھڑ اونچے داموں بک جاتا ہے، جیسے اشتہارات اور افتتاح کی تقریبات کے ذریعے گڈگورننس کا ہدف حاصل کر لیا جاتا ہے، افتتاح ہو جاتا ہے فیض جاری نہیں ہوتا نکاح ہو جاتا ہے رخصتی نہیں ہوتی۔
٭٭٭٭
موٹر سائیکل اور حکمرانی
وزیر داخلہ احسن اقبال نے طاہر القادری پر کمنٹ کیا ہے کہ جس نے کبھی موٹر سائیکل نہیں چلائی وہ ملک کیسے چلائے گا، گویا حکومت چلانے کی اہلیت موٹر سائیکل چلانا ہے، بہرحال اتنا تو اب بھی وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ آج کے وزیروں، امیر مشیروں الغرض اقتدار جے جملہ فقیروں کو سائیکل چلانا کبھی آتا تھا اب بھی آتا ہو گا لیکن اب مرسیڈ چلاتے ہی نہیں چلواتے بھی ہیں اس لئے تو حکومت برق رفتار ہے!
ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ جو موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلاتا ہے اسے تو ملک کا وزیراعظم ہونا چاہئے، یہ خیالات ن لیگ کے تھنک ٹینک کی عطا ہے ورنہ کہاں ہم اور کہاں موٹر سائیکل چلانے کی صلاحیت رکھنے والے حکومت چلانے والوں کی باتیں، طاہر القادری ممکن ہے احسن اقبال طلال دانیال کی طرح موٹر سائیکل چلانا نہ جانتے ہوں مگر سو سے اوپر ملکوں میں منہاج القرآن کے بڑے بڑے سنٹرز چلانے کا سلیقہ کسی نے دیکھنا ہو تو دیکھ سکتا ہے، ڈاکٹر صاحب میں ہم نے دیکھا ہے کہ وہ ایک اچھے منتظم بھی ہیں قائداعظم موٹر سائیکل نہیں چلا سکتے تھے مگر پاکستان بنا کر چلا دیا، احسن اقبال اگر موٹر سائیکل نہ چلا سکنے والے کو حکومت چلانے کیلئے نا اہل قرار دیتے ہیں، تو پھر ہر اس طرح کا نااہل ببانگ دہل یہ نہیں کہہ سکتا مجھے کیوں نکالا، احسن اقبال اچھے پڑھے لکھے وفاقی وزیر داخلہ ہیں اگر کسی کو شک ہو تو ان سے موٹر سائیکل چلوا کر دیکھ سکتا ہے کہ وہ اپنے منصب کے لئے کس قدر اہل ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ طاہر القادری کو استعمال کیا جا رہا ہے، لہٰذا ایک نا اہلی یہ بھی ہے کہ وہ حکومت نہیں چلا سکتے، اب تو ہم نے بھی سوچا ہے کہ کیوں نہ قلم کی جگہ موٹر سائیکل چلانے کا مال روڈ پر مظاہرہ کر کے ہم بھی کچھ عرصہ وزارت کے مزے لے لیں۔
٭٭٭٭
کلچر کا کاف اہم ہے
اکثر کہا جاتا ہے فلاں کو ہماری آب و ہوا راس نہ آئی، گویا قوموں کی زندگی میں کلچر کا ’’کاف‘‘ اہم ہے، ہمیں اپنے کلچر کی آب و ہوا راس ہے، دوسروں کو ان کی، ہم نے دنیا پھر کر دیکھا ہے کہ تمام ترقی یافتہ ممالک کے لوگ اپنی ثقافت کو سینے سے لگا کر رکھتے ہیں، اور انہیں کوئی دقیانوس کہتا ہے نہ قدامت پرست، معافی کے ساتھ ہم سیدھے اپنے اوپر آتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہم کیوں دوسروں کے کلچر کو دعوت آب و ہوا دیتے ہیں، کسی نے ہماری شلوار کو لباس کا حصہ نہیں بنایا لیکن ہم نے ان کی پتلون چرا لی اور نہ جانے کیا کیا ان کا اپنا لیا، چرا لیا، اور پھر سینہ تان کر خود کو پاکستانی بھی کہتے ہیں، بات صرف یہ نہیں کہ خودکو پاکستانی کہا جائے مزا تو تب ہے کہ ہم پاکستانی نظر بھی آئیں، بات اب اپنے کلچر سے فرار کی یہاں تک آ پہنچی کہ عریانی فحاشی بھی ہمارے نزدیک اہلیت بنتی جا رہی ہے، ہمارا کلچر تو اسی روز بگڑنا شروع ہو گیا تھا جب ہماری فلموں میں بھی بالی وڈ دَر آیا، ان کا یہی کلچر ہو گا کہ گانے عریاں ٹانگیں زیادہ اور شاعری و تہذیب دکھائی نہیں دیتی، تیسری دنیا کے حکمرانوں نے اپنے لوگوں کے وٹامنز تو پورے نہیں کئے تھے ہی کہ ان کے لباس بھی مختصر کر دیئے تاکہ کپڑا کم اور بدن زیادہ خرچ ہو، ہمارے ہاں سوشل میڈیا سے لے کر کیبل تک یہ عالم ہے کہ کہیں؎
بے لباسی لباس نہ ہو جائے
اپنی ثقافت کا ناس نہ ہو جائے
قومی زبان اردو کے ساتھ جو ہوا سو ہوا اب تو اس کے پیرہن پر جا بجا انگریزی کے پیوند لگے ہیں اور پیوند جو باعث شرم ہوا کرتا تھا اب لائق فخر ہو گیا ہے، نہ کوئی مسلسل صاف ستھری اردو بولتا ہے نہ کوئی مسلسل انگریزی بول سکتا ہے، کلچر کا کاف اڑنے کی بات یہاں آ پہنچی ہے کہ تاثیر آ گئی ہے رکشے تک، ڈرائیور نے اپنی کمائی کی خاطر اپنی دونوں سیٹوں پر کو ایجوکیشن شروع کر دی ہے، تفصیل تو اپنے خالص پاکستانی کلچر میں ملاوٹ کی بہت لمبی ہے، مگر کیا کریں کہ ہمارا کاغذ بہت مختصر ہے گھونٹ اپنا کلچر کہلاتے رہیں گے۔
٭٭٭٭
تبرہ دھمکیوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
….Oوزیراعظم:امن چاہتے ہیں کمزور نہ سمجھا جائے، یہ بیانیہ اب کمزور پڑتا جا رہا ہے، اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے:کمزور نہیں اسلئے امن چاہتے ہیں،
….Oوزیر خارجہ:امریکہ دھمکیاں نہ دے ہم سے سیکھے، ہم دھمکیوں سے ڈسٹرب ہوتے ہیں منہ بند کرنا بھی جانتے ہیں۔
….Oخورشید شاہ:عمران پہلے پختونخوا حکومت کو بچائیں پھر سندھ آئیں،
وہ سارے صوبوں کو درست کر کے پھر پختونخوا کی طرف متوجہ ہونگے، اور وہاں ایک بلین درخت لگائیں گے، اور عوام پتے کھائیں گے۔
….Oشہباز شریف:قائداعظم کے افکار پر عمل کر کے خود انحصاری کی منزل پا سکتے ہیں۔
اسی طرح ہی پاکستان میں غیر انحصاری کا محاصرہ ٹوٹ سکتا ہے، ورنہ قائد کے افکار ہمیں سونے نہیں دینگے۔
….Oامریکی سفیر:پاکستان نے سی پیک کے ٹھیکوں میں ہمیں نہیں پوچھا،
آپ نے کبھی ویٹو کرنے سے پہلے ہمیں پوچھا ہے؟
….Oامریکہ نے دھمکی دی ہے کہ پاکستان کو 700ملین ڈالر امداد نہیں ملے گی،
ہمیں خود کفیل بنانے کا شکریہ۔
….Oنواز شریف:پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا اب معاشی طاقت بنا رہے ہیں۔
اس میں کیا شک ہے اور اگر معاشی طاقت بھی بن جائے، تو ہمارا ایٹم بم بن چلے چل جائے گا۔


اگلا کالم