منتخب کردہ کالم

لیڈر اور انویسٹر: سینیٹر بابر اعوان

قائد اعظمؒ

اچھا ہوا وزیر اعظم سمیت ہمارے کسی تاجر یا انویسٹر المعروف لیڈر نے ایک صدی کی موت پر تعزیتی پیغام تک جاری نہیں کیا۔ ویسے آپس کی بات ہے ناجائز دولت کے احرام سے گرنے والے دانوں پر پیٹ پھیلا کر چلنے والے تعزیتی بیان میں لکھتے کیا؟
ان لانگریوں کے علاقائی آقا کے بھی بڑے آقا امریکہ نے بھی اس انقلابی کی موت پر تعزیت کا اظہار نہیں کیا۔ وہ جب تک زندہ رہا، نظامِ سرمایہ داری خوب شرمندہ رہا۔ اس نے ثابت کیا‘ نہ انقلاب مر سکتا ہے نہ مساوات کا تصور۔ اس کی صدی کارپوریٹ صدی بن چکی تھی مگر اس نے مارکیٹ اکانومی کے مقابلے میں اشتراکی مساوات پر مبنی معاشرہ بنا کر دکھا دیا۔ جسے یقین نہ آئے وہ ایک امریکی کی شہرہ آفاق تحقیقاتی ڈاکومنٹری فلم سکو (Sicko) دیکھ لے۔ اسی امریکی فلم ساز مائیکل مور (Michael Moore) نے فارن ہائٹ نائن الیون میں جارج ڈبلیو بش اور اس کے دوست تیل کے عربی تاجروں کے چہرے بے نقاب کیے تھے۔
وہ 13 اگست 1926ء کے روز بیسویں صدی میں آزاد دنیا کی واحد پہچان، گنے کے کاشتکار اینجل کاسترو کے گھر کیوبا میں پیدا ہوا۔ اینجل انگریزی میں فرشتے کو کہتے ہیں۔ اس کی والدہ کا نام بھی اینجلہ یعنی فرشتہ بیگم تھا۔ لیو (LEO) شیر کا نشان اس کا ستارہ اور انقلاب اس کا استعارہ ہے۔ اس کاشتکار جوڑی نے غریب عوام کے اس فرشتہ صفت کا نام رکھا فیڈل کاسترو۔ فیڈل کاسترو کے پسندیدہ لوگوں میں پہلا عظیم انقلابی ہیرو چی گویرا ہے۔ اس کا دوسرا ایک دوست افریقہ کا آئی کون نیلسن منڈیلا تھا۔ فیڈل کاستروکا تیسرا یارِ غار ہوگو شاویز تھا۔ فیڈل کاسترو پر 635 سے زائد قاتلانہ حملے ہوئے۔ ان حملوں میں بم بلاسٹ، براہ راست فائرنگ، بارود بھرا سگار، ہوائی جہازوں سے بم برسانے اور امریکہ کی براہ راست سپورٹ کے ساتھ زمینی حملے شامل تھے‘ مگر عالمی استعمار فیڈل کاسترو کو قتل کرنے میں مسلسل بری طرح ناکام ہوا۔ فیڈل کاسترو ایک مکمل انقلابی لیڈر کہلانے کا حق دار ہے‘ جس نے کیوبا پر مسلط امریکہ کی کٹھ پُتلی بٹسٹا کے خلاف سیاسی جدوجہد کی۔ جب پُرامن تبدیلی کے سارے راستے بند پائے تب فیڈل کاسترو کو ہتھیار اٹھانا پڑے۔ اس نے ساری عمر غریبوں کے سرمایہ پر پلنے والے خوں خوار درندوں کو نہ صرف کیوبا سے دور رکھا بلکہ صحت، تعلیم، سماجی شعبے، خود انحصاری سمیت جدید ترقی کے سارے میدانوں میں دنیا کی واحد سپر پاور کو میلوں پیچھے بھی چھوڑ دیا۔ عام لوگوں کے ساتھ عام زندگی گزارنے والا فیڈل کاسترو کیوبا میں پیدا ہوا‘ کیوبا کے لیے زندہ رہا‘ اور یہ کالم چھپنے کے بعد 4 دسمبر کو خاک بن کر خاکِ وطن کی فضائوں میں بکھر جائے گا۔
لیڈر ہوتا کیا ہے؟ اس کی مثال بانیء پاکستان حضرت قائد اعظم کی زندگی میں بھی ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ یہ 1948ء کا پاکستان ہے‘ محمد علی جناح جب پاکستان کے گورنر جنرل بنے‘ اپنی کابینہ کا پہلا اجلاس طلب کیا۔ گورنر جنرل کے اے ڈی سی نے پوچھا کہ سر! اجلاس میں شرکا کو چائے پلائی جائے یا کافی؟ قائد اعظم‘ جو کابینہ کے اجلاس کا ایجنڈا اپنے ہاتھ سے تیار کر رہے تھے‘ اے ڈی سی کی اس بات پر چونک پڑے‘ سر اٹھایا اور سخت لہجے میں اے ڈی سی سے کہا: کیا یہ لوگ اپنے گھروں سے چائے، کافی پی کر نہیں آئیں گے؟ قائد اعظم کے منہ سے بروقت حق کا یہ حکم نامہ سن کر اے ڈی سی گھبرا گیا۔ قائد اعظم نے اپنی بات جاری رکھی اور کہا کہ جس وزیر نے کابینہ کی میٹنگ والے دن چائے، کافی پینا ہوں وہ گھر سے پی کر آئے یا واپس گھر جا کر اپنی مرضی سے چائے پیے یا کافی۔ ساتھ ہی فرمایا: قوم کا پیسہ قوم کے لیے ہے‘ وزیروں کے لیے نہیں۔ قائد اعظم کے اس حکم کے بعد جب تک وہ بحیثیتِ گورنر جنرل برسر اقتدار رہے‘ پاکستان کی کابینہ کی میز پر سادہ پانی کا مینیو ہی چلتا رہا۔ آئیے میں آپ کو قائد اعظم کے بعد کی دو کابینائوں کا حال سنائوں‘ جو دید شنید پر مبنی ہے۔ میں جس زمانے میں کابینہ کا رکن تھا‘ تب پچاس سے زائد وزیروں میں سے زیادہ سے زیادہ تین وزیر سارا ایجنڈا پڑھتے اور تیاری کرکے آتے تھے۔ وہ وزیر‘ جن کی وزارت کا ایجنڈا آئٹم ہوتا‘ ان کی جگہ تیاری سیکرٹری کرکے آتا اور سیکرٹری ہی کابینہ کے سامنے ایجنڈا پیش کرتا۔ کابینہ ڈویژن کو چلانے والے بیوروکریٹس کس قدرکائیاں ہوتے ہیں‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ
جونہی کابینہ کا اجلاس شروع ہوتا‘ ایجنڈا آئٹم سے پہلے دو تین کوارٹر پلیٹس ہر وزیر کے سامنے لا کر رکھ دی جاتی ہیں‘ جن کے ساتھ کانٹا، چھری، چمچ‘ چھوٹی پیسٹریاں‘ سلیقے سے بنے ہوئے ہلکے پھلکے برگر، فنگر فش، چکن شاشلک آتے ہیں۔
آج کے لیڈروں کی زندگی مغلِ اعظم سے شروع ہو کر شغلِ اعظم سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ آج اگر محمد شاہ رنگیلا زندہ ہوتا تو وہ پاکستان کی شاہانہ طرز کے حکمرانوں کو دیکھتا اور پھر اپنے رنگیلے پن پر شرمندہ ہو جاتا۔ آئیے میں آپ کو دوبارہ گورنر جنرل ہائوس میں واپس لے چلتا ہوں‘ جہاں ایک نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے۔ بانیء پاکستان کے سامنے ساڑھے اڑتیس روپے کی خریداری کا بل پیش ہوا۔ یہ خریداری گورنر جنرل ہائوس کے لیے کی گئی تھی۔ قائد اعظم نے بل کی منظوری دینے سے پہلے خریداری کی تفصیل طلب کر لی۔ پتہ چلا کہ دو تین چیزیں گورنر جنرل کی حیثیت سے ان کی ضرورت کے لیے تھیں اور کچھ چیزیں محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ نے منگوائی تھیں۔ حضرت قائد اعظم نے حکم جاری کیا کہ جو کچھ ان کی ہمشیرہ نے منگوایا‘ اس کا بل وہ اپنے اکائونٹ سے خود ادا کریں گے جبکہ گورنر جنرل ہائوس کی ضرورت کا بل منظور کر لیا گیا۔ ساتھ ہی یہ حکم بھی صادر کیا کہ آئندہ گورنر جنرل ہائوس کی خریداری کے لیے احتیاط برتی جائے کیونکہ یہ اخراجات قوم کے خزانے سے ادا ہوتے ہیں‘ جس میں میرے رشتہ داروں کا نہ کوئی حق ہے اور نہ ہی کوئی حصہ۔
قائد اعظم سرکاری پروٹوکول اور پاکستان کی خود مختاری کا کس طرح دفاع کرتے تھے‘ اس کی ایک مثال بھی قوم کے لیڈر کی زندگی میں موجود ہے۔ یہ واقعہ تب کا ہے‘ جب برطانوی بادشاہ کا بھائی‘ جو خود بھی ایک ڈیوک تھا‘ پاکستان کے دورے پر آ رہا تھا۔ پاکستان میں برطانوی سفیر نے قائد اعظم سے وقت مانگا۔ برطانوی سفیر نے قائد اعظم سے عرض کیا کہ ایک ذاتی درخواست ہے‘ امید ہے کہ آپ اسے قبول
کریں گے۔ قائد اعظم بولے: فرمائیے۔ برطانوی سفیر نے کہا: شاہِ انگلستان کا بھائی پاکستان کے دورے پر تشریف لا رہا ہے‘ تاجِ برطانیہ کی خواہش ہے کہ آپ ایئرپورٹ پر جا کر بادشاہ کے بھائی کا استقبال کریں۔ قائد اعظم مسکرائے اور کہا: مجھے کوئی اعتراض نہیں‘ میں آپ کے بادشاہ کے بھائی کا ایئرپورٹ پر جا کر استقبال کرنے کے لیے تیار ہوں‘ ہاں‘ البتہ ایک شرط ہے۔ برطانوی سفیر بولا: جی ہاں ارشاد فرمائیے۔ ہمارے لیڈر نے کہا: شرط یہ ہے کہ جب میرا بھائی انگلستان جائے گا تو برطانوی بادشاہ کو ایئرپورٹ پر آ کر اس کا استقبال کرنا ہو گا۔ آج کل حکمرانوںکے بیٹے، بیٹیاں، داماد، بھائی، بھتیجے، بھابیاں، چاچے، مامے، پھوپھو، ماسی، تائی، چاچی، سالی سب حکمران ہیں۔ اسی لیے محاورہ مشہور ہو گیا کہ ”سائیں تو سائیں‘ سائیں کا کتا بھی سائیں‘‘ قائداعظم کا وہی بھائی‘ جسے ملک کی عزت کی خاطر قائد اعظم نے بطور استعارہ انگلستان کے ڈیوک کے برابر ٹھہرایا‘ ایک دن گورنر جنرل ہائوس آ گیا۔ قائد اعظم کا اے ڈی سی ان کے کمرے میں داخل ہوا‘ ایک وزیٹنگ کارڈ گورنر جنرل کے سامنے رکھا اور پھر زبانی بتایا کہ آپ کے بھائی صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔ اسی اثنا میں قائد اعظم کی نظر وزیٹنگ کارڈ پر پڑی۔ بھائی کا نام سن کر جس چہرے پر تھوڑی دیر پہلے رونق وارد ہوئی تھی‘ اسی پر تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ قائد اعظم کے بھائی نے اپنے کارڈ پر نام کے ساتھ یہ جملہ لکھ رکھا تھا ”برادر آف قائد اعظم محمد علی جناح‘ گورنر جنرل آف پاکستان‘‘ آج کی طرزِ حکمرانی میں جو شخص اپنے نام کے ساتھ ٹھیکیدار لکھے، حاجی لکھے، نمبردار لکھے یا ممبر لکھے تو اس کی بیگم صاحبہ خودبخود ہی ٹھیکیدارنی، حاجن، نمبردارنی اور ممبرانی بن جاتی ہے۔ یہ اسی روش کا نتیجہ ہے کہ بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھنے والے پُرجوش دعوے کرتے ہیں کہ انھوں نے کبھی کسی سے ایک ٹیڈی‘ کوڑی بھی نہیں لی‘ نہ رشوت کی صورت میں‘ نہ ڈالی اور نہ انعام‘ کیونکہ آج کل یہ سارا کام بیگمات سرانجام دیتی ہیں۔
لیڈر اور انویسٹر میں بنیادی فرق اتنا سا ہے کہ لیڈر اپنی زندگی کو قوم کی امانت سمجھتا ہے‘ جبکہ انویسٹر قوم کے مال کو شِیرِ مادر جان کر ہڑپ کر جاتا ہے۔ لیڈر قوم پر جان نثار کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے‘ جب کہ انویسٹر قوم کا مال باہر بھجوانے اور وقت ضرورت ملک سے بھاگ جانے کے راستے ہمیشہ نظر میں رکھتا ہے۔ شاعرِ مشرق نے یہی فرق یوں واضح کیا: ؎
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور