منتخب کردہ کالم

لیڈر لوگ کیا چاہتے ہیں .. ہارون الرشید

ہتھیلی

لیڈر لوگ کیا چاہتے ہیں .. ہارون الرشید

لیڈرانِ کرام پہ کیا افسوس۔ افسوس تو اس قوم پہ ہے۔ کولہو کے بیل کی طرح‘ جہالت کے تاریک اور ناپاک دائرے میں سرگرداں ہے۔ اپنے ماضی سے بے خبر‘ اپنے مستقبل سے بے نیاز۔
نواز شریف مقبول لیڈر ہیں۔ یہ دعویٰ درست نہیں کہ عمران خان کے مقابلے میں وہ دس فیصد مظاہرین بھی جمع نہیں کر سکتے۔ کل وہ اس لیے ناکام ہوئے کہ طویل اقتدار کے نتیجے میں خلق ان سے بیزار ہو چکی‘ ادارے ان سے اکتا چکے۔ کمزوریاں ان کی کئی ہیں۔ ایک تو وہی کبھی نہ ختم ہونے والی من مانی کی آرزو۔ ثانیاً منفی ہتھکنڈوں پہ انحصار۔ بندگانِ خدا کے قلوب میں پوشیدہ خیر کی بجائے‘ ان کی ادنیٰ امیدوں کو آواز دیتے ہیں۔ کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
سیاست میں اداکاری کا عنصر بھی ہوتا ہے مگر ایسا کمال انہوں نے پیدا کیا ہے کہ باید و شاید۔ جذبات سبھی بھڑکاتے ہیں۔ خود کو نجات دہندہ سبھی ثابت کرتے ہیں۔ میاں صاحب کا وصف یہ ہے کہ مستقل طور پہ خود کو مظلوم بنا کر پیش کرتے ہیں۔ صورت گر نے چہرہ بھی اس کے لیے موزوں بخشا ہے‘ معصومیت برستی ہے۔ مظلومیت طاری کر لیتے اور طاری کیے رکھتے ہیں۔ بچوں ایسے معصوم بشرے پہ بیچارگی۔ خوئے غلامی کی ماری‘ شہزادوں پہ ترس کھانے والی قوم میں یہ حربہ ہمیشہ کارگر رہا۔ اب زوال اس لیے ہے کہ اعتبار بہت کم ہو چکا۔
وسطی ایشیا سے آریائوں کی آمد جب شروع ہوئی برصغیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ‘ غلامی کی تاریخ ہے۔ جمہوریت ابھی کل کی بات ہے۔ مزاجوں میں ابھی رچی بسی نہیں۔ اس خطۂ ارض میں اپنے حقوق کا آدمی کو ادراک نہیں۔ قوموں کے بعض رجحانات کا تعلق‘ ان کے ماضی اور کچھ کا انحصار اکثریت کے مزاج پر ہوتا ہے کہ وہی ماحول بناتی ہے۔ غور کرنے والے کم ہوتے ہیں۔ تجزیہ کرنے والے خال ہی۔ کانوں میں جو کچھ پڑتا ہے‘ ذہن لاشعوری طور پہ قبول کر لیتے ہیں۔ انہی کو عوام کالانعام کہا جاتا ہے۔ وطن میں اپنے حقوق سے نابلد اور قانون کو مجبوری سمجھنے والے‘ پاکستانی‘ مشرقِ وسطیٰ میں ضابطوں کی پوری طرح پاسداری کرتے ہیں۔ مغرب میں رفتہ رفتہ اپنے حقوق پہ اصرار کرنا سیکھ جاتے ہیں۔
یہ رعایا اور بادشاہوں کا سماج ہے۔ قانون اس میں عامیوں کے لیے ہوتا ہے۔ قانون بھی کہاں‘ حکم کی تعمیل۔ بادشاہ اور درباری مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ بڑی حد تک چھوٹے بڑے افسر اور عہدیدار بھی۔ شعور و فکر اور احساس و ادراک کے نہیں‘ لوگ اپنی افتادِ طبع کے قیدی ہوتے ہیں۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ تعلیم کا فروغ‘ کبھی کسی حکومت کی ترجیح نہ تھی۔ بلوچستان کے تمن داروں‘ سندھ کے وڈیروں‘ پختونخوا کے خوانین اور پنجاب کے جاگیرداروں کو علم دشمن کہا جاتا ہے۔ درحقیقت سب سے بڑھ کر سیاسی پارٹیوں کے سربراہ‘ وزرائے اعلیٰ اور وزرائے اعظم تعلیم کے مخالف ہیں‘ جہالت کے دائمی سرپرست۔ پڑھے لکھوں میں وہ لوگ انہیں خوش آتے ہیں‘ جو ان کے اشارے پہ حرکت میں آتے ہوں۔ عزت نفس سے محروم‘ ادراک سے پاک‘ اپنے اذہان کو سلا رکھنے والے۔ صدیوں سے چلی آتی روش کا احترام کرنے والے۔ ان سے بھی زیادہ ان پڑھ انہیں اچھے لگتے ہیں۔
شریف خاندان سے کیا شکوہ کہ کتاب اور اہلِ علم سے دور کا واسطہ بھی کبھی نہ تھا۔ کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو ایسے روشن خیال لیڈر نے بھی تعلیم عام کرنے کی کوشش نہ کی۔ ہزاروں نجی تعلیمی اداروں کو‘ جن میں سے بعض بہترین معیار کے حامل‘ بعض معاشرے کے بہترین ایثار کا مظہر تھے‘ قومیا کر برباد کر دیا گیا۔ سرکاری سکولوں کا ملک بھر میں جال بچھا تھا۔ ان دو چار فیصد پرائیویٹ اداروں کو ہتھیانے کی کیا ضرورت پڑی تھی؟ کیا کبھی کسی نے مطالبہ کیا تھا؟ خود دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں تعلیم پائی تھی‘ علم کی اہمیت سے خوب آشنا تھے۔ پھر قومی تعلیمی اداروں کا معیار بلند کرنے کی کوشش کیوں نہ کی؟
فوجی اقتدار خلقِ خدا کے شعور کی توہین ہے۔ رائے عامہ پر اظہار عدمِ اعتماد۔ جنرل پرویز مشرف کا عہد‘ چنانچہ کسی اعتبار سے مثالی نہیں۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن کی قیادت میں اعلیٰ تعلیم کا فروغ لیکن انہی کے دور میں ہوا۔ جیسے ہی دوسرے لوگ دخیل ہوئے‘ سمندر پار گئے‘ پاکستانی طلبہ کے وظائف محدود سے محدود تر ہوتے گئے۔ جامعات میں سطحی لوگ چمکنے لگے۔ اس لیے کہ جنرل کا تعلق مڈل کلاس سے تھا۔ اسی لیے ذرائع ابلاغ کو اس نے آزادی بخشی‘ جمہوریت کے علمبرداروں نے نہیں‘ حالانکہ بعد میں وہی ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج بنے… آزاد ٹی وی چینل۔
شہباز حکومت نے ہزاروں سکول نجی اداروں کو سونپ دیے ہیں۔ سرکاری سکولوں کے اساتذہ کا موازنہ اگر ریڈ کارپوریشن‘ غزالی فائونڈیشن اور تعمیر ملت فائونڈیشن کے اساتذہ سے کیا جائے تو فرق چونکا دینے والا ہے۔ سرکاری اور نجی اداروں کے اساتذہ ایک ہی پس منظر سے آتے ہیں۔ نجی اداروں میں تنخواہیں زیادہ نہیں کم ہیں۔ فرق صرف تربیت کا ہوتا ہے‘ باز پرس اور نگرانی کا۔ اس ناچیز کو اپنے چھوٹے صاحبزادے کو راولپنڈی کے ایک نجی سکول میں داخل کرانے کے لیے بار بار التجا کرنا پڑی۔ اس کے باوجود کہ امتحانی بورڈ میں اس کی آٹھویں پوزیشن تھی۔
سب یہ جانتے ہیں کہ شہباز شریف بہت ہی متحرک لیڈر ہیں۔ سارا دن دوڑتے پھرتے ہیں۔ سرکاری سکولوں اور کالجوں میں کیوں نہیں جاتے۔ تیسری بار وزیر اعلیٰ ہیں۔ اساتذہ کی استعداد کار بڑھانے کا موثر نظام کیوں وضع نہ کر سکے؟ ہر گزرتے دن کے ساتھ تعلیمی معیار پست سے پست تر ہے۔ نئی نسل برباد ہوتی جا رہی ہے۔ سالِ گزشتہ 12000 میں سے صرف اڑھائی سو نوجوان سی ایس ایس کا امتحان پاس کر سکے۔ شہباز صاحب کیا جانتے نہیں کہ عصر رواں میں معیشت کا انحصار جدید تعلیم پر ہے؟
راز کی بات یہ ہے کہ معاشرے کی جہالت‘ بے بسی اور بے چارگی حکمران طبقے کو سازگار ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ خلقِ خدا جاہل رہے۔ ان پہ انحصار کرتی رہے‘ آزاد نہ ہونے پائے۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے ارکانِ اسمبلی کس قدر بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔ فریاد کرتے اور ناراض ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات مستعفی ہونے کی دھمکی دیتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے لیے کیوں نہیں؟ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر میں کمیشن مل سکتا ہے۔ سکولوں اور کالجوں سے کیا حاصل؟
سندھ سیکرٹریٹ اور اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے کے سوا‘ جو آڑھتیوں کے بعد وزیر اعظم نے ایک پراپرٹی ڈیلر کو سونپ دیا‘ بدعنوانی کی سب سے بڑی مثال شاید سندھ کا محکمہ تعلیم ہے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں استاد ایسے ہیں‘ جو نصابی کتب پڑھ نہیں سکتے۔ چہ جائیکہ بچوں کو پڑھائیں۔ اس پہ مستزاد امتحانی نظام۔ علم سے بے شک بیگانہ ہیں مگر نقل کے لیے عقل ہی نہیں‘ پوری مہارت رکھتے ہیں۔ امتحانات میں امتیازی پوزیشن حاصل کرنے والوں پہ شہباز شریف انعامات کی بارش کیا کرتے ہیں کہ تالی بجتی رہے۔ تالی سے غرض ہے‘ کام سے نہیں۔
آسودہ لوگوں کے بچے‘ مہنگے اداروں میں پڑھتے ہیں۔ غریبوں کے اڑھائی کروڑ بیٹے بیٹیاں سکولوں میں داخل ہی نہیں ہوتے۔ گلیوں میں خاک اڑاتے گرد ہو جاتے ہیں۔
جب درد ہی نہیں‘ احساس ہی نہیں تو ریاضت اور منصوبہ بندی کیسے ہو۔ عام آدمی کبھی ترجیح تھا ہی نہیں۔ یہ ان کے لیے مٹی ہیں کہ اس میں فصل اگائیں۔ یہ ان کا میدانِ تجارت ہے کہ سروں پہ تخت بچھا کر‘ ہیرے جواہرات کمائیں۔ بیمار لوگ‘ جَمَعَ مَالاً وَعَدَّدہُ یَحسَبُ انَّ مَالَہ اخلَدَہ۔ مال جمع کرتا کرتا اور گنتا رہتا ہے اور یہ سمجھتا کہ اس کا مال دائمی ہے۔
فوجی بوٹوں کے گیت گا کر حصولِ اقتدار یا عام آدمی کے جذبات بھڑکا کر۔ درہم و دینار اور غرض کے بندے۔ اقبالؔ نے کہا تھا۔ ابلیس کے فرزند ہیں‘ ارباب سیاست۔
لیڈرانِ کرام پہ کیا افسوس۔ افسوس تو اس قوم پہ ہے۔ کولہو کے بیل کی طرح‘ جہالت کے تاریک اور ناپاک دائرے میں سرگرداں ہے۔ اپنے ماضی سے بے خبر‘ اپنے مستقبل سے بے نیاز۔

اگلا کالم… ہزار گھنٹے کا وزیراعظم