لیڈر کُشی یا خود کُشی…مجیب الرحمٰن شامی
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا ہے کہ آئین کی دفعہ62 (ون، ایف) کے تحت کسی عوامی نمائندے کو نااہل قرار دیا جائے گا، تو وہ نااہلی دائمی ہو گی، یعنی تاحیات وہ کسی انتخاب میں حصہ نہیں لے سکے گا، اور کوئی سرکاری منصب سنبھال نہیں سکے گا۔ کہا گیا ہے کہ کوئی عدالتی فیصلہ اس نااہلی کو ختم کر سکتا ہے یا پارلیمنٹ کا اقدام۔ فاضل جج صاحبان نے دائمی نااہلی کی ذمہ داری پارلیمنٹ پر ڈال دی ہے کہ اس نے کئی بار آئین کا جائزہ لیا، اس میں ترامیم کیں لیکن 62 (ون، ایف) پر نظرثانی نہیں کی یا یہ کہیے کہ اس کے تحت سزا کا تعین نہیں کیا۔ جبکہ دفعہ 63 کے تحت (سنگین جرائم میں سزا یافتہ افراد) سزا بھگتنے کے پانچ سال بعد عوامی نمائندگی کے اہل قرار پا جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونے والے بعض انتہائی ممتاز قانون دانوں کا خیال تھا کہ دفعہ 62 اور 63 کو ملا کر پڑھا جانا چاہیے، اور بعد از انتخاب نااہلی کی مدت وہی قرار دی جانی چاہیے، جو قبل از انتخاب اہلیت کے مطابق ہو، لیکن فاضل عدالت نے دونوں دفعات کو الگ الگ پڑھنے پر اصرار کیا، اور یوں گیند پارلیمنٹ کی کورٹ میں لڑھکا دی۔ اس فیصلے کو ہمارے میڈیائی مبصرین کی بہت بھاری تعداد نے نواز شریف کے حوالے سے دیکھا کہ، اولاً جہانگیر ترین کی نظرثانی کی درخواست ہنوز سپریم کورٹ کے سامنے زیر سماعت ہے، ثانیاً تحریک انصاف میں بلند منصبی کے باوجود وہ اس کے ”نواز شریف‘‘ نہیں ہیں، وہاں یہ اعزاز عمران خان صاحب کے حصے میں لکھا ہوا ہے، اس لیے ان پر بہت زیادہ توجہ نہیں کی گئی۔ فیصلے سے متاثر ہونے کے باوجود انہیں بہت زیادہ متاثر نہیں سمجھا گیا۔ ہنگامہ نواز شریف کے حوالے ہی سے اٹھا رہا، اور اب تک اٹھا ہوا ہے۔ حالانکہ پانامہ کیس کے پانچ رکنی بنچ نے جو فیصلہ دیا تھا، اس کے مطابق وہ اُسی وقت تاحیات نااہل قرار پا گئے تھے۔ تازہ فیصلے سے نواز شریف کا کچھ بگڑا ہے نہ سنورا ہے۔ وہ وہیں کے وہیں کھڑے ہیں جہاں فیصلے سے پہلے تھے۔
سپریم کورٹ نے جن درخواستوں پر فیصلہ دیا، ان میں سے کوئی بھی نواز شریف یا ان کے کسی ساتھی کی طرف سے نہیں دی گئی تھی۔ نااہلی کی مدت کے تعین کا سوال ان درخواست گزاروں کی طرف سے اٹھایا گیا تھا، جن کو قبل ازیں نااہل قرار دیا جا چکا ہے۔ کئی ممتاز قانون دان اس رائے کا اظہار بار بار کر چکے ہیں کہ تاحیات نااہلی نہ دستور کی منشا ہے، نہ انصاف کے اسلامی اور فطری اصولوں کے مطابق ہے۔ اگر سنگین ترین جرائم کا مرتکب شخص سزا بھگتنے کے پانچ سال بعد اہل قرار پاتا ہے، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اثاثہ جاتی گوشوارے میں کسی دانستہ یا نادانستہ غلطی یا کوتاہی کا مرتکب عمر بھر کے لئے انتخابی سیاست سے باہر کھڑا کر دیا جائے۔ سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اپنا استدلال واضح کر دیا ہے گویا نواز شریف سمیت تمام نااہل قرار پانے والے اُس وقت تک نااہل رہیں گے، جب تک خود سپریم کورٹ اپنی اس تشریح پر نظرثانی نہ کر لے یا پارلیمنٹ آئین میں اس طرح کی تشریح داخل نہ کر دے۔ اس کے لیے دونوں ایوانوں کی دو تہائی اکثریت درکار ہو گی، جب تک یہ نو من تیل فراہم نہیں ہو گا، رادھا ناچ نہیں سکے گی… اور انصاف کا بول بالا اُسی طرح ہوتا رہے گا جس طرح ہو رہا ہے۔
کئی سیاست دان اور تجزیہ کار دفعہ 62 پر حملہ آور ہیں، نواز شریف اور ان کی جماعت کو کوسنے دے رہے ہیں کہ انہوں نے ”ڈکٹیٹر‘‘ کی داخل کردہ اس دفعہ کو دستور سے نکال باہر کیوں نہیں کیا؟ پیپلز پارٹی اپنی تمام تر معصومیت کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے سر پر یہ کولہو لاد رہی ہے کہ ہم تو دستور کو اِس دفعہ سے نجات دِلانا چاہتے تھے‘ نواز شریف اور ان کے ہم نوائوں نے ایسا ہونے نہیں دیا۔ حالانکہ دنیا میں کہیں بھی بد دیانت افراد کو منتخب ایوانوں میں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ دستور کی دفعہ 62 پر غصہ جھاڑنے یا نکالنے کا کوئی محل نہیں۔ معاملہ اس کے اطلاق کا ہے۔ اس میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ سپریم کورٹ دفعہ (3)184 کے تحت حاصل بنیادی حقوق کی حفاظت کے اختیار کو عوامی نمائندوں کی نااہلیت کے لیے استعمال کر سکتی ہے؟ برسوں پہلے یہ دفعہ دستور میں درج ہوئی، اور افتخار چودھری کورٹ سے پہلے کسی نے اس کا یہ استعمال نہیں کیا۔ اٹھارہویں ترمیم کرتے ہوئے دستور میں دفعہ 10-A کا اضافہ کیا گیا تھا تاکہ ”فیئر ٹرائل‘‘ FAIR TRIAL کو بنیادی حق قرار دیا جائے۔ سپریم کورٹ کو دفعہ (3)184 کے تحت جو اختیارات تفویض کیے گئے ہیں، وہ بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے ہیں۔ جب کسی فرد کے خلاف سپریم کورٹ براہِ راست فیصلہ کرے گی، اور اسے اپیل کا حق بھی حاصل نہیں ہو گا، تو اسے دفعہ 10-A کی مطابقت میں کیسے سمجھا جا سکے گا۔ یہ بھی پوچھا جاتا رہے گا کہ کسی عوامی نمائندے پر براہِ راست مقدمہ چلانے کی ہدایت (3)184 میں کہاں درج ہے؟ یہ بھی عرض کیا جاتا رہے گا کہ 10-A کے تحت حاصل بنیادی حق کی نفی کرنے کا اختیار کہاں سے لیا گیا ہے؟
یہ درست ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے سے معاملہ کرتے ہوئے حدود و قیود کا خیال نہیں رکھا، اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہر حد کو پار کر گزری ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تشریح و تعبیر کرتے ہوئے معاملات کو گنجلک بنا دیا جائے۔ صاف اور سیدھی بات ہے کہ دستور کی دفعہ 62 میں کوئی عیب نہیں ہے۔ ہر عوامی نمائندے کو لازماً صادق اور امین ہونا چاہیے‘ کسی خائن اور دروغ گو کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کسی منصب پر فائز ہو، لیکن دیانت اور امانت جانچنے کا طریق کار واضح اور کھلا ہونا چاہیے۔ اسے ڈنڈے کی طرح من پسند افراد کے خلاف نہ چلایا جائے، بلکہ ہر شخص جو ذمہ داری کے منصب پر فائز ہو، اس کو یکساں طور پر سکین (SCAN) کیا جا سکے۔ کوئی شخص عوامی عہدیدار ہو یا عدالتی منصب دار، فوجی یا سول افسر اس کو جانچنے اور پرکھنے کے پیمانے ایک ہوں، اور اس کا طریق کار بھی واضح ہو… کوا کہیں کالا اور کہیں سفید… کہیں حلال اور کہیں حرام نہیں ہو سکتا۔
یاد رکھا جائے کہ قوم کے اندر جڑیں رکھنے والے سیاست دان ایک بڑی متاع ہوتے ہیں۔ لاکھوں نہیں کروڑوں افراد ان پر اعتماد کرتے، اور ان کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں۔ پاکستان جیسے مُلک میں جہاں ادارے کمزور ہوں (یا کر دیے گئے ہوں) قومی رہنمائوں کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ دور از کار تاویلات کے ذریعے قوم کو ان سے محروم کرنا اسے بے حوصلہ کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے اپنے آپ پر اعتماد ختم ہوتا ہے۔ یقین کی دولت سے محرومی سے بڑی محرومی کوئی اور نہیں۔ قوم کو جوڑنے والوں سے معاملہ کرتے ہوئے فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہئے، ان کی چھوٹی غلطیوںکو بڑا بنا کر پیش کرنے، اور ان کی کردار کشی کرنے سے حیاتِ نو حاصل نہیں کی جا سکتی کہ لیڈر کُشی اور خود کُشی میں ایک لفظ ہی کا فرق ہے۔ پیشہ ورانہ رقابت میں مبتلا افراد ایک دوسرے سے جو بھی سلوک کرتے رہیں تاریخ پر نظر رکھنے، اور مستقبل کو سنوارنے کی امید رکھنے والوں سے یہ توقع نہیں لگائی جا سکتی۔ یاد رکھیے، دفاعی اور عدالتی ادارے مضبوط نہ ہوں تو قوم مضبوط نہیں ہوتی، لیکن اگر سیاسی ادارے مضبوط نہ رہیں، اور انہیں سینچنے والوں کو تہہ تیغ کر دیا جائے تو وجود کو برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آنکھ، ٹانگ، اور ہاتھ کے بغیر تو زندہ رہا جا سکتا ہے دِل کے بغیر نہیں ؎
مجھے ڈر ہے دِلِ زندہ کہیں تو نہ مر جائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے