یہ ایک دوسرا موضوع ہے کہ کس طرح سیاستدانوں کی غیر ذمہ داری اور امن و امان کی تباہی گاہے، باقی تمام راستے بند کر دیتی ہے۔ اس پہ پھر بات ہو گی۔ فی الحال مارشل لاء کا بہر حال کوئی خطرہ نہیں۔
میرا خیال یہ بھی ہے کہ اس طرح کی افواہیں جان بوجھ کر پھیلائی جا رہی ہیں اور ظاہر ہے کہ اس عمل کا ایک مقصد ہے۔ میں کوئی دعویٰ نہیں رکھتا کہ دعویٰ جہالت اور کبر کی پیداوار ہوتا ہے؛ با ایں ہمہ یہ ناچیز فوجی قیادت کی پالیسیوں پر نگاہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اخباری زبان میں کہتے ہیں: فلاں آدمی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کورکرتا ہے۔
ایک اخبار کے پچھلے صفحے پر چھوٹی سی ایک خبر ہے، تاثر یہ دیا گیا ہے کہ نئے آرمی چیف کے لیے وزیر اعظم نے صلاح مشورے کا آغاز کر دیا ہے اور یہ کہ ان کی پسند فلاں صاحب کے عزیز ہیں۔ ان صاحب کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اپنی سرکاری حیثیت میں وہ وزیر اعظم کے کام آئے۔
تین ماہ قبل یہ افواہ سنی تھی۔ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ بے معنی ہے۔ قیاس آرائیاں جاری رہتی ہیں اور کوئی روک نہیں سکتا۔ پنجابی کا محاورہ یہ ہے ”مارنے والے کا ہاتھ پکڑا جا سکتا ہے، بولنے والے کی زبان نہیں‘‘۔ اول تو یہ بڑی بدذوقی کی بات ہے کہ کسی خاص جنرل کا نام لے کر اسے وزیر اعظم کا پسندیدہ اور اس طرح ناموزوں ثابت کرنے کی کوشش کی جائے۔ ممکن ہے کہ وہ ایک بہتر اور موزوں آدمی ہو۔ پھر یہ کون سی دلیل ہے کہ چونکہ وہ فلاں صاحب کے رشتہ دار ہیں؛ چنانچہ ان کا انتخاب عمل میں آئے گا۔ مزید یہ کہ کسی خاندانی تعلق سے، کسی شخص کے مزاج، کردار اور ترجیحات کا تعین کیسے ممکن ہے۔
چیف آف آرمی سٹاف کو نومبر میں سبکدوش ہونا ہے۔ صاف صاف وہ اعلان کر چکے کہ وقت مقررہ پر اپنے گھر چلے جائیں گے۔ اب ابہام نہ ہونا چاہئے۔ بجا کہ وہ بہت مقبول ہیں۔ کراچی اور دوسرے شہروں میں بورڈ لگے ہیں ”جانے کی باتیں جانے دو‘‘۔ مگر انہوں نے ایسا کون سا اقدام کیا ہے، جس سے آشکار ہو کہ وہ مہربانی کے طالب ہیں۔ فرض کیجئے توسیع کا فیصلہ ہوتا ہے، جس کا امکان دکھائی نہیں دیتاتو یہ وزیر اعظم کی صوابدید سے ہو گا، کسی التجا اور امید پر نہیں۔
2010ء میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کی توسیع کے معاملے میں یہ ناچیز حالات کو قریب سے دیکھ رہا تھا۔ در حقیقت یہ خیال اس نے پیش کیا تھا۔ ان کے ذاتی دوست کے ذریعے جنرل صاحب کو قائل کیا گیا۔ فوری ردّ ِ عمل ان کا یہ تھا کہ وہ انکار کر چکے اور اب یہ ناموزوں ہو گا۔ وزیر اعظم گیلانی سے واقعی صاف صاف کہہ چکے تھے کہ ہرگز وہ اس کے آرزو مند نہیں۔ گیلانی صاحب کی دلیل یہ تھی کہ وہ شریف آدمی ہیں۔ ان کی موجودگی میں کوئی خطرہ نہیں۔ جنرل سے کہا گیا کہ وزیر اعظم دوسری بار درخواست کریں تو اس پر ہمدردی سے وہ غور کریں۔ وزیر اعظم نے صدر زرداری سے بات کی تو ان کا اولین ردعمل یہ تھا ”On my dead body‘‘ آخر کار وہ قائل ہو گئے اور اسی دلیل پر جس کا ذکر ہوا ہے۔ مگر یہ الگ بات کہ گیلانی کی توقعات پوری نہ ہو سکیں۔ میمو گیٹ پر انہوں نے شوخی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تو جنرل نے کہا کہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ سپریم کورٹ میں داخل کئے گئے سپہ سالار کے بیان پر وزیر اعظم نے کہا تھا کہ آئین اور قانون کی حدود سے انہوں نے تجاوز کیا ہے۔ عدالت عظمیٰ میں شریفانہ طریق سے اپنا مؤقف بیان کرنا آئین اور قانون کے خلاف کیونکر تھا؟ بالآخر وزیر اعظم کو معذرت کرنا پڑی اور قوم کو بتایا کہ جنرل کو انہوں نے منت سماجت کر کے توسیع قبول کرنے پر آمادہ کیا تھا۔
مجھے حیرت ہوئی، کہ عمومی طور پر جنرل کی توسیع کے فیصلے کا خیر مقدم نہ کیا گیا۔ خود جنرلوں میں بھی یہ اقدام شاید پسندیدہ نہ سمجھا گیا؛ اگرچہ اظہار سے وہ گریز کرتے ہیں۔ حکومت کو مایوسی ہوئی۔ قائد حزب اختلاف نواز شریف بدمزہ ہوئے۔ آخر آخر جنرل نے خود مجھ سے گلہ کیا کہ اس سے کیا فائدہ ہوا؟ یاد ہے کہ ذمہ داری کے آخری ہفتوں میں بری طرح وہ تھک چکے تھے۔ سبکدوش ہوئے تو فیصلہ کیا کہ اب وہ ٹی وی دیکھیں گے اور نہ اخباری کالم پڑھا کریں گے۔ ”اپنی صاحبزادی سے میں نے وعدہ کر لیا ہے‘‘۔انہوں نے کہا، پھر مسکرائے اور کہا: آپ کا کالم البتہ میں پڑھتا ہوں۔ کچھ دن میں خالد مسعود خان کا پڑھنے لگے اور ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ اس کے بعد خورشید ندیم کا۔ عرض کیا: جہاں تک حسن بیان کا تعلق ہے، اظہارالحق سے بہتر کوئی نہیں۔ انہیں ضرور پڑھا کیجیے۔
جنرل راحیل شریف کو بہت سراہا گیا۔ اتنا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے اوّلین ایّام اور ستمبر 1965ء کے سوا، کوئی مثال نہیں ملتی۔ وجوہات آشکار ہیں۔ بلوچستان ان کے دور میں بدل گیا اور کراچی کو امن نصیب ہوا۔ شمالی وزیرستان میں کارروائی کے لیے جنرل کیانی کو حالات سازگار نہ ملے تھے۔ اگرچہ جنوبی وزیرستان سمیت ساڑھے چھ ایجنسیوں میں اقدامات انہی نے کئے تھے۔ سوات میں ان کا کارنامہ بے مثال ہے۔ تین ماہ میں صرف آپریشن ہی مکمل نہ ہوا، نہایت سلیقہ مندی کے ساتھ ساری آبادی بحفاظت واپس چلی گئی۔ تاریخ میں ایسی مثالیں کم ہوں گی۔ با ایں ہمہ جیسا کہ عرض کیاجیسی عوامی مقبولیت جنرل راحیل شریف کے حصے میں آئی، اس کی کوئی دوسری نظیر نہیں۔ جنگوں میں ایسا ہوا کرتا ہے اور جنرل نے ایک عظیم جنگ لڑی ہے۔ بھارت کو انہوں نے بے نقاب کر کے رکھ دیا۔ ان سے پہلے بھارتی تخریب کار ایجنسی ”را‘‘ کا نام تک نہ لیا جاتا تھا۔ دہشت گردی کے حوالے سے بھارت کے ذکر سے بھی گریز کیا جاتا۔ ”ایک پڑوسی ملک‘‘ کہا جاتا۔جنرل نے صاف صاف بات کی۔ ان کا ایک بڑا وصف یہ ہے کہ وہ عوامی احساسات کو ملحوظ رکھ کر گفتگو کرتے ہیں۔ کراچی میں دہشت گردوں اور بیرون ملک مقیم ان کے سرپرستوں پر ایسا مضبوط ہاتھ ڈالا کہ سبحان اللہ۔
اس کے باوجود احسن یہی ہے کہ طے شدہ وقت پر یہ ذمہ داریاں کسی اور کے سپرد کر دی جائیں کہ ”اب کوئی اور کرے پرورش گلشنِ غم‘‘ اس لیے نہیں کہ ”ختم ہوئی دیدۂ تر کی شبنم‘‘۔ بلکہ اس لیے کہ ابدیت سفر کو ہے، مسافر کو نہیں۔ پاک فوج ایک مضبوط، جدید اور فعال ادارہ ہے۔ اس کا سربراہ غیر معمولی اختیارات کا حامل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اکثر انتظامی دائروں میں طے شدہ نظام کارفرما رہتے ہیں۔ سول کو اس سے سیکھنا چاہئے مگر افسوس کہ اس پر غور ہی نہیں کیا جاتا۔ غیر ذمہ دارانہ خبروں کی اشاعت کا مقصد غالباً یہ ہے کہ فوجی سربراہ پر دبائو ڈالا جائے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ مئی، جون، جولائی، اگست، ستمبر اور اکتوبر پورے پانچ ماہ باقی ہیں۔ ابھی سے وزیر اعظم کو صلاح مشورہ کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ فرض کیجیے کسی رفیق سے کانا پھوسی کریں تو کیایہ اطلاع ایک گمنام رپورٹر تک پہنچے گی۔ پھر یہ تو بڑی زیادتی کی بات ہے کہ ایک خاص افسر کی طرح اشارہ کر کے اس کی پوزیشن خراب کرنے کی کوشش کی جائے۔
جنرل راحیل شریف کا انتخاب وزیر اعظم نے اپنی ذاتی صوابدید سے کیا تھا۔ حالات نے اس فیصلے کو موزوں ثابت کر دیا۔ سبق اس میں یہ ہے کہ بہترین آدمی کا چنائو کیا جانا چاہئے۔ اپنی ترجیحات میں قومی مفاد کو جو ملحوظ رکھے گا۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف نے حالات کو جس ڈھب پر ڈال دیا ہے، بظاہر مارشل لاء کا اس میں کوئی امکان نہیں۔ افسوس اپنی حماقتوں سے سیاستدانوں نے فوج کے لیے بہت سی جگہ خالی کر دی ہے۔ منتخب حکومت نے اگر پولیس اور سول انٹیلی جنس کو بہتر نہ بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے تو اس کا کیا علاج؟ ڈاکوئوں کے خلاف کارروائی بھی اگر عساکر ہی کو کرنی ہے تو اندیشے پھوٹیں گے، افواہیں پھیلیں گی۔
جمعہ کو حکمران پارٹی کی قیادت کو سمجھنے والے ایک سنجیدہ اخبار نویس نے مجھ سے کہا: نون لیگ ذہنی طور پر مارشل لاء کے لیے تیار ہو رہی ہے۔ صدمہ پہنچا۔ غالباً یہ سرکاری جماعت کی پروپیگنڈہ لائن ہے۔ سن گن پا کرعمران خان نے گڑبڑا کر کہا: اگر فوج آئی تو میاں صاحب ذمہ دار ہوں گے۔ یہ ایک دوسرا موضوع ہے کہ کس طرح سیاستدانوں کی غیر ذمہ داری اور امن و امان کی تباہی گاہے، باقی تمام راستے بند کر دیتی ہے۔ اس پہ پھر بات ہو گی۔ فی الحال مارشل لاء کا بہر حال کوئی خطرہ نہیں۔