منتخب کردہ کالم

ماسٹر عاشق حسین اور ساغر صدیقی….حسنین جمال

ماسٹر عاشق حسین اور ساغر صدیقی….حسنین جمال

منتیں مرادیں مانتے ہوئے دلوں کی زخمی دھڑکنیں، بے تاب دعائیں، ان گنت آنسو، طویل خاموشیاں۔ یہ سب کسی بھی مزار کے گنبد تلے پھڑپھڑا رہی ہوتی ہیں۔ مزاروں کی اپنی ایک الگ دنیا ہوتی ہے، ہزار کہانیاں ہوتی ہیں جو اس مقدس سکوت کے اندر جمع ہوتی ہیں۔ انہیں سننے والا کوئی نہیں ہوتا‘ لیکن وہ جو پُر ہیبت سناٹا رات کے وقت وہاں طاری ہوتا ہے‘ اس میں اگر ہمت کی جائے تو کبھی کبھی ہلکی سی محسوس کی جا سکتی ہیں۔ پرانی عمارتیں، صدیوں پہلے بنے ہوئے مزار اور گاؤں کی وہ مسجد جو ایک کمرے کی ہوتی ہے، جسے گاؤں والوں کے سخت اور کھردرے ہاتھوں نے مٹی سے بنایا ہوتا ہے، ان سب جگہوں پہ وہ سکون ہوتا ہے جو وقت دینے والے پہ اپنے بھید بھاؤ کھولتا ہے، ان سے باتیں کرتا ہے، کوئی اسے مراقبہ کہہ دیتا ہے، کسی کی نظر میں یہ خود فراموشی کہلاتی ہے، کوئی اسے تصوف میں لے جاتا ہے، گناہگار کے نزدیک یہ صرف دل کا سکون پانے کی ایک معصوم سی کوشش ہے۔
بہت سے لوگ جنہیں اور کوئی ٹھکانا نہیں ملتا وہ مزاروں پہ رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سب کام باہر بھی ہوتے ہیں۔ وہاں ایسے لوگ ہوم لیس کہلاتے ہیں۔ وہ کسی بھی سٹیشن پہ سیڑھیوں کے نیچے، دو بڑی عمارتوں کی درمیانی پتلی سی گلی میں، کچرا پھینکنے کی جگہوں پہ یا کہیں بھی عارضی ٹھکانہ کر لیتے ہیں، بعد میں سردی گرمی کے حساب سے جگہیں تبدیل کرتے ہیں اور گزارہ چلتا رہتا ہے۔ ان میں اور ہمارے لوگوں میں فرق یہ ہوتا ہے کہ لنگر پانی یہاں چوبیس گھنٹے چلتا رہتا ہے، وہاں ان بے چاروں کو خوراک کے لیے تھوڑی بھاگ دوڑ یا کبھی کبھار لوٹ مار بھی کرنا پڑتی ہے۔ جو بندہ زیادہ عرصہ مزار پہ ٹک جائے وہ ادھر کا فقیر یا ملنگ کہلاتا ہے۔ اگر زیادہ ملنگ نظر آنا چاہے تو سر اور داڑھی کے بال بالکل چھوڑ دیتا ہے اور تین چار برس کے عرصے میں سرٹیفائیڈ ملنگ ہو جاتا ہے۔ خاموشیوں میں رہنے والے یہ ملنگ اس وقت فل چارج ہو جاتے ہیں جب آس پاس ڈھول بج رہا ہو، دھمال ڈالا جا رہا ہو۔ ویسے بھی عرس کے دن اور ہی طرح کے ہوتے ہیں، ان دنوں مزار پہ جا کے اسی بندے کا کتھارسس ہو سکتا ہے جو حالات سے اتنا تنگ ہو کہ سب کچھ بھلانے کا واحد راستہ اسے یہی نظر آئے کہ بس ڈھول کی تھاپ پہ میدان میں کود پڑے۔
ڈھول فقیروں کا ساز ہے۔ ہزاروں برس پہلے جب کوئی بھی دوسرا آلہ نہیں ہوتا تھا، ڈھول اس وقت بھی موجود تھا۔ کبھی ہاتھوں سے بجایا جاتا رہا کبھی لکڑی کی پتلی چھڑیاں اسے بجانے کے لیے استعمال ہوئیں، ضرورت پہ ڈیپنڈ کرتا تھا، جس طرح دل چاہا بجا لیا گیا۔ جدید ترین ملنگ ڈھول گلے میں ڈال کے گھوم رہے ہوتے ہیں۔ جو نہیں بجاتے وہ اس کی تال پہ ناچ لیتے ہیں۔ ڈانس ویسے بھی انسان کا پرانا طریقہ اظہار رہا ہے۔ جس طرح شدید غصے میں ہم بغیر ہاتھ ہلائے بات نہیں کر سکتے، کسی چیز کو ٹھوکر مارنے کا دل چاہتا ہے بس اسی طرح شدید خوشی میں شدید بے خودی میں خاکی انسانوں کو ناچنے کی صفت عطا ہوئی ہے۔ پچھلے چالیس پچاس برسوں میں کس گیت پہ فقیروں نے، درویشوں نے، ملنگوں نے سب سے زیادہ دھمال کیا ہو گا؟ کس گانے کی بیٹ پہ ڈھول تڑخ گئے ہوں گے، ڈرموں کو دیوانہ وار پیٹا گیا ہو گا، کچھ آئیڈیا ہے؟ دھمال کا لفظ پڑھتے ہی کون سا گانا ذہن میں آتا ہے؟ سوائے دما دم مست قلندر کے؟
یہ گانا بلا مبالغہ کئی سو لوگوں نے گایا، ہر دوسرے دن اس کا ایک نیا ری مکس آتا ہے، قوالوں نے اس پہ تالیاں پیٹیں، کسی نے دھمال ڈالا کوئی نرا رقص کرتا رہا لیکن پوری دنیا کو بے خودی کا ایسا تحفہ دینے والے خود کون تھے؟ لکھنے والے ساغر صدیقی تھے (استھائی اگرچہ پہلے سے موجود تھی، جیسے ”انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند‘‘ کی بھی تھی اور اسے قالب اسد محمد خان نے دیا تھا) دھن بنانے والے ماسٹر عاشق حسین تھے۔ ساغر صدیقی نے فٹ پاتھ پہ وفات پائی۔ ماسٹر عاشق حسین ابھی دو تین دن پہلے اپنے ٹوٹے پھوٹے گھر میں جھلنگی چارپائی پہ لیٹے لیٹے دم توڑ گئے۔ دونوں کو اس کارنامے کے عوض کچھ بھی حاصل نہیں ہوا، نہ پیسے، نہ اعلیٰ مقام، نہ شہرت، نہ کوئی حکومتی امداد، کچھ بھی نہیں۔ اور فقیر کیسے ہوتے ہیں؟ تو بس یہ جان لیں کہ وہ گانا جس پہ دنیا بھر کے ملنگ اکٹھے ہو کے دھمال ڈالتے ہیں اس کے دونوں بنانے والے فقیر تھے۔
ساغر صدیقی کسی بھی کتاب کے سرورق پہ آپ کو نظر آئیں گے تو وہ ایک ایسے آدمی دکھائی دیں گے جس کی شیو بڑھی ہوئی ہے، پھٹی پرانی چادر اوڑھی ہے، اور بس کہیں پڑے ہوئے ہیں۔ وہ ایسے ہی پیدا نہیں ہوئے، اچھے بھلے گھر کے تھے۔ پاکستان بنا تو انبالہ چھوڑ کے یہاں آ گئے۔ صحیح والے فنکار آدمی تھے۔ جس زمانے میں بڑے بڑے شاعر ادیب ہجرت کے بعد جائیدادیں کلیم کرنے میں لگے ہوئے تھے یہ بھائی صاحب ہوٹلوں میں کرائے پہ رہنے لگے۔ گھنگریالے بال، نفیس کپڑے پہنے یہ دبلا پتلا نوجوان فلم دو آنسو کے گیت لکھنے کے بعد ان دنوں انڈسڑی میں بھی ہٹ تھا۔ انہیں بس ان کا ادبی پرچہ لے کے ڈوب گیا۔ یہ ادبی رسالے اور کتابوں کی کہانی بھی عجیب ہے واللہ، بڑے بڑے ڈوب گئے عقل کسی کو نہیں آتی۔ بھائی اگر آپ کسی اعلیٰ سرکاری عہدے پہ ہیں، بزنس مین ہیں، کوئی بڑے پیر صاحب ہیں، اتنی زمینیں ہیں کہ سات پشتیں بیٹھ کے کھائیں تب تو یہ ادب اور ادبی رسالوں کے چونچلے سمجھ میں آتے ہیں اگر جیب میں کل کی روٹی کے پیسے نہیں ہیں، بچے گھر بھوکے بیٹھے ہیں تو نہروں کے ٹھیکے لینے کی ضرورت کیا ہے؟ آج تک پاکستان میں چلنے والا کوئی ایک ادبی رسالہ بتا دیجیے جو مدیر عالیشان کو اپنی گرہ سے نہ پڑتا ہو۔ کوئی ایک ادیب جو بس لکھ کے اپنا گھر چلا رہا ہو؟ کوئی ایک ترجمہ نگار جس نے محل کھڑے کر لیے ہوں؟ خیر، تو اس وقت ابھی ملک بنا ہی تھا، جذبے جوان تھے، رسالہ تو الگ بات ساغر صدیقی نے قومی ترانہ بھی لکھا تھا جو اینتھم سلیکشن کمیٹی نے منظور نہیں کیا۔ بس وہ آخری ٹائم چل رہا تھا ہوش و حواس والے ساغر کا، انہیں دنوں فلم جبرو کے لیے ماسٹر غلام حسین نے ان سے یہ گیت لکھوایا جو دس پندرہ منٹ میں لکھ کے انہوں نے پکڑا دیا۔ ملک کا قومی ترانہ منظور ہونا قسمت میں نہیں تھا لیکن پوری دنیا کے دھمالیوں کا آفیشل گانا رہتی دنیا تک یہی چلنے کی امید ہے۔ اس کے بعد وہی پرانی کہانی ہے۔ وہی ساغر جس کی زندگی فٹ پاتھوں پہ گزرتی تھی، جو نشے سے مدہوش رہتا تھا، جس سے پیسے دے کے بڑے بڑے لوگ غزلیں لکھوا لیتے تھے، گانے بنوا لیتے تھے، جو سڑک پہ سے کاغذ اٹھا کر شاعری کہتا اور لکھتا رہتا اور خود ہی ان کاغذوں کو پھاڑتا رہتا۔ انسانوں سے تنگ آ کے جس نے ایک کتا دوست بنایا اور آخری دموں تک وہی کتا ان کے ساتھ تھا۔ ایک روایت تو یہ بھی کہتی ہے کہ پورے ایک سال بعد وہ کتا اسی جگہ مر گیا جہاں ساغر نے آخری سانس لی تھی۔ اب وہ بابا ساغر صدیقی بھی کہلاتے ہیں بلکہ قبر کے آس پاس کچھ جگہوں پہ ”مزار حضرت بابا ساغر صدیقی‘‘ بھی لکھا دیکھا گیا ہے۔
ماسٹر عاشق حسین کے ساتھ بھی یہی کیا جائے گا۔ دو تین دن خوب دھمال ڈلے گا، کتبے پہ موٹا موٹا لکھوایا جائے گا، ”خالق دھمال، دما دم مست قلندر‘‘ بابا جی ماسٹر عاشق حسین، ہو سکتا ہے عرس بھی شروع ہو جائے لیکن یہ سب کچھ کرکے بھی بازار حکیماں کے ایک کوارٹر میں رہنے والے ماسٹر عاشق کا وہ جوان بیٹا واپس نہیں آ سکتا جو پیانو کا شاندار فنکار تھا، جس نے غربت کے ہاتھوں تنگ آ کے پکوڑے بیچنے شروع کر دئیے اور جو پکوڑے بیچتے بیچتے دل کا مریض ہو کے عین جوانی میں مر گیا۔ کون زیادہ سکھی رہا، ساغر صدیقی یا بابا عاشق حسین؟ فیصلہ آپ کیجیے، بس یہ دھیان رہے استاد کہ اپنا بچہ جو ہے وہ غلطی سے بھی فن کار نہ نکلے، باقی اللہ بہتری کرے گا!