ماضی میں پھنسا ’’مومن‘‘….مجیب الرحمٰن شامی
بازارِ سیاست میں پہلے تو نواز شریف صاحب کے عدالتی بیان نے تہلکہ مچایا، اس کے چند ہی روز بعد پاکستان اور بھارت کے اہم ترین انٹیلی جنس اداروں (آئی ایس آئی اور، را) کے سربراہوں (لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی اور اے ایس دلت) کی ”مشترکہ تصنیف‘‘ منظر عام پر آ گئی۔ کہا جا رہا ہے کہ اس میں بہت کچھ ایسا ہے، جسے قومی رازوں کی ”افشائی‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ نواز شریف صاحب نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ داغ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے ایک ”سطری‘‘ انٹرویو پر اگر قومی سلامتی کمیٹی حرکت میں آ سکتی ہے، اور ان سے منسوب نقطہ نظر کو مسترد کرنے کا اعلان ضروری سمجھ سکتی ہے تو اسد درانی کی کتاب یافتہ حرکات و سکنات کا جائزہ کیوں نہیں لیا جا سکتا۔ ملکی مفادات کے خلاف مواد کا ایکسرے کر کے اقدام کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ اس مطالبے سے قطع نظر، آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کی ٹویٹ کے مطابق درانی صاحب کو جی ایچ کیو میں طلب کر لیا گیا ہے، تاکہ معاملے کی جانچ پڑتال ہو سکے۔ اس مشترکہ تصنیف میں جو کچھ بھی کہا گیا ہے، وہ اِس وقت ہمارا موضوع نہیں۔ صرف ایک نکتے کا ذکر کیے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ دلت صاحب کے بقول کشمیر کے حوالے سے جو ”آرام اور اطمینان‘‘ جنرل پرویز مشرف نے بھارت کو فراہم کیا، وہ اس سے پہلے اور اس کے بعد دیکھنے میں نہیں آیا۔ یاد رہے کہ یہ سرٹیفکیٹ جس حکمران کو فراہم کیا جا رہا ہے، وہ پاک فوج کا سربراہ تھا اور اسی حیثیت میں اقتدار پر قابض ہوا تھا۔ واجپائی صاحب کے دورِ اقتدار میں آگرہ جانے سے پہلے اس نے باقاعدہ منتخب صدر جسٹس (ر) رفیق تارڑ کا نواز شریف بنا کر صدارت پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ وجہ اس کی یہ بتائی گئی تھی کہ بھارت میں اعلیٰ ترین پروٹوکول حاصل کرنے کے لئے ”صدارتی تمغہ‘‘ سینے پر لگانا ضروری تھا… معاملے کی تہہ تک اُترا جائے تو شاید پرویز مشرف کے حوصلے اور اعتماد کی داد دے دی جائے کہ وہ پنجابی محاورے کے مطابق کشمیر کا ٹنٹا نبیڑنے کے لیے کس حد تک آگے جانے پر تیار تھے۔ اس وقت توجہ اس طرف مبذول کرانا مقصود ہے کہ اگر کسی سیاست دان حکمران کو اس طرح کا بھارتی سرٹیفکیٹ عطا ہوتا تو کیا اس کے بعد اس کی حب الوطنی کو پاکستان میں کہیں پناہ مل سکتی تھی، بے لگام میڈیا اس کی سات پشتوں تک کے بخیے نہ ادھیڑ چکا ہوتا؟ مزید یہ کہ اگر پاکستان اور بھارت کے دو سابق وزرائے اعظم یا دو بڑے سیاست دان کسی مشترکہ تصنیفی کاروبار میں ملوث پائے جاتے تو ان پر کیا گزرتی؟ بھارت کی بات بھارت جانے، پاکستان میں تو جینا حرام ہو جاتا۔ ایک بھارتی وزیر اعظم کی اس سفارتی پیش قدمی پر کہ وہ خود چل کر لاہور آئے، اور اپنے پاکستانی ہم منصب کے گھر بیٹھ کر چائے کا پیالہ نوش کرے، آج تک پاکستانی وزیر اعظم کی حب الوطنی کو باقاعدہ اہتمام و انصرام کے ساتھ مشکوک ثابت کیا جا رہا ہے، تو کتابی منصوبے کے بعد تو کتابِ سیاست کے سارے ابواب بند ہو چکے ہوتے۔
سابق وزیر اعظم کے بقول بھارت کو اطمینان فراہم کرنے والے پرویز مشرف کی آئینی شکنی پر جب ان کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ ہوا، تو یہ فیصلہ کرنے والے کا ناطقہ بند کر ڈالا گیا۔ نواز شریف کا دعویٰ ہے کہ ان کے خلاف جو کچھ ہوا، دھرنے دلائے گئے اور مقدمے بنائے گئے تو اس سب کی بنیادی وجہ پرویز مشرف پر مقدمے کی جسارت ہے۔ نواز شریف نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ ایک خفیہ ادارے کے سربراہ کی طرف سے دھرنے کے دوران، ان کو طویل رخصت پر جانے یا منصب چھوڑ دینے کا پیغام (یا تجویز) بھی بھجوائی گئی تھی، جس پر ہاتھ ملتے ہوئے انہوں نے (قومی مفاد میں) خون کا گھونٹ پی لیا تھا۔ نواز شریف کا بیانیہ یہ ہے کہ پاکستان میں کسی وزیر اعظم کو بھی سکون سے کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ماتحت ادارے اس کو ماتحت بنانے میں لگے رہے۔ وہ سر جھکا کر ملازمت کرنے پر تیار نہیں تھے، اس لیے ان کے ساتھ وہ ہوا، جو سب کے سامنے ہے۔ اس نقطہ نظر پر تنقید کرنے والے کم نہیں ہیں۔ ماضی کے حوالے سے چبھتے سوالات پوچھے جا رہے ہیں، اور اپنے حریفوں کے خلاف ریاستی اداروں سے (غیر دستوری) کمک کے حصول پر انگلیاں بھی اٹھائی جا رہی ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جب جرأت اور ہمت سے کام لے کر غیر دستوری رویّوں کی سرکوبی کرنی چاہیے تھی، اس وقت قومی مفاد کا مشروب پی کر خود پر غنودگی طاری کر لی گئی، اب جبکہ لنکا ڈھے چکی ہے، تو اپنا قد اونچا کرنے کے لیے کاوشیں جاری ہیں۔
نواز شریف پر مقدمے کے حقائق جو بھی ہوں، ان کے خلاف فیصلہ جو بھی آئے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ تاریخ میں اپنا مقام بنانے کی کامیاب کوشش کر گزرے ہیں۔ ان کا بیانیہ اقتدار تک تو ان کو نہیں لے جا پائے گا، ان کی مسلم لیگ (ن) کے راستے میں رکاوٹیں بھی کم نہیں کر پائے گا، لیکن تاریخ کا جائزہ لیں تو اس میں لوگ جیت کر ہارتے اور ہار کر جیتتے رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے خلاف جب قتل کا مقدمہ چل رہا تھا، تو سمجھا جا رہا تھا کہ عدالتی فیصلہ آنے کے بعد ہر شے بدل جائے گی، اور بھٹو مرحوم ایک ”قاتل‘‘ اور ”مجرم‘‘ کے طور پر کپکپاتے نظر آئیں گے۔ عدالت عالیہ کے پانچ فاضل جج صاحبان نے اپنے فیصلے میں انہیں باقاعدہ ”جبلّی جھوٹا‘‘ قرار دیا تھا، آج کی اصطلاح میں وہ صادق اور امین نہیں رہے تھے۔ بھٹو مرحوم تختۂ دار پر لٹک گئے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر من و عن عمل کر کے اہلِ اقتدار نے بزعم خود انصاف پسندی کی مثال قائم کر دی، لیکن آج برسوں گزر جانے کے بعد بھٹو مرحوم پھانسی پا کر بھی ”مجرم‘‘ نہیں سمجھے جا رہے جبکہ انصاف فراہم کرنے والے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ سیاست اور تاریخ کے فیصلے اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ دُعا کرنے کی یہ ہے کہ ہم جن تضادات میں گھرے ہوئے ہیں، ان سے باہر نکلیں۔ دستور پاکستان پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کو یقینی بنائیں کہ اس کے تحت قائم حکومت کا نہ تو راستہ کاٹا جا سکے، نہ گلا دبایا جا سکے ؎
باطل دوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول
ہمارے ہاں ہر وقت ماضی کا رونا رویا جاتا رہتا ہے۔ ماضی میں دور تک جا کر انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی کاوش زوروں پر رہتی ہے، لیکن اِرد گرد جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے آنکھیں چار نہیں کی جاتیں۔ اصغر خان کیس کے ملزموں پر طعن توڑنے کے لیے زبانیں لمبی ہیں۔ اب انڈیا فیم جنرل (ر) اسد درانی کے حلف نامے کی بنیاد پر ان سے اور ان کے آرمی چیف مرزا اسلم بیگ سے سوالات پوچھے جا رہے ہیں، ان کے بیانات قلم بند ہو رہے ہیں، لیکن آج جو الزامات فضا میں تیر رہے ہیں، اور جس جس طرح کی سرگرمیاں جاری ہیں، ان کی طرف سے آنکھیں بند ہیں۔ قانون حرکت میں آ رہا ہے نہ انصاف دینے والے کچھ دیکھ پا رہے ہیں کہ انصاف اندھا ہوتا ہے۔ مومن ماضی میں پھنسا نہیں رہتا، بلکہ اس سے سبق حاصل کر کے حال کو نکھارنے اور مستقبل کو سنوارنے میں لگ جاتا ہے۔ ہماری مومنانہ بصیرت کو کیا نام دیا جائے کہ جو حال کو ماضی کے سانچے میں ڈھالنے والوں کا ہاتھ نہیں پکڑتی، ان کا تعاقب نہیں کرتی، لیکن بہہ جانے والے پانی کو صاف بنانے کی مشق جاری رکھتی ہے۔ گرے ہوئے سیب اکٹھے نہیں کرتی، گرے ہوئے دودھ کو ”آبِ حیات‘‘ ثابت کرنے میں لگی رہتی ہے۔