مالک کے ہاں عرضی اور دعا…خالد مسعود خان
دو دن پہلے شوکت نے میرے لیے کافی کا آرڈر دیا اور ”کھچروں‘‘ والی مسکراہٹ منہ پر سجا کر کہنے لگا: یہ تمہاری شاہ محمود قریشی سے کیا عداوت ہے؟ میں نے کہا: میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا محترم شاہ محمود قریشی سے کوئی ذاتی عناد، رنجش، گلہ یا شکوہ ہرگز نہیں ہے۔ اور بھلا ہو بھی کیونکر؟ میرے اور اس کے بیچ ایسی کیا چیز ہے جس پر کوئی عداوت ہو؟ عداوت تو بہت سخت لفظ ہے‘ میرا تو اس سے کسی قسم کا نہ مفادات کا ٹکرائو ہے اور نہ بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی ناراضگی۔ وہ خیر سے میرے والدِ محترم کی نمازِ جنازہ پر بھی آئے تھے‘ ان کی نوازش۔
لیکن شوکت بھلا باز آنے والا کب ہے؟ چسکے لینے والے انداز میں پوچھنے لگا: تو پھر تم نے گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران اس کے بارے میں دو تین کالم کس لیے رگڑ مارے ہیں؟ میں نے کہا: یہ سوال نہایت ہی مناسب اور معقول ہے لیکن یہ سوال جتنا مناسب اور معقول ہے اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ یہ وہ سوال ہے جس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے اس کی کوئی معقول وجہ یا دلیل بھی سجھائی نہیں دیتی۔ شوکت نے کافی کا ایک گھونٹ بھرا اور کہنے لگا: پھر کالم لکھنے کی کیا وجہ ہے؟ مجھے اندازہ ہوا کہ اسے کالم کے مندرجات سے ٹکے کی دلچسپی نہیں بلکہ وہ محض مزہ لینے کی غرض سے بات کو لٹکا رہا ہے۔ میں نے کہا: تمہیں میرے کالم کی کس بات سے اختلاف ہے؟ کہنے لگا: کسی بات سے بھی نہیں۔ میں نے کہا: گویا تم میری باتوں سے پوری طرح متفق ہو؟ کہنے لگا: سو فیصد۔ میں نے پوچھا: تم شاہ محمود قریشی بارے معاندانہ جذبات کیوں رکھتے ہو؟ جواباً وہ کہنے لگا: مجھے تو خود اس بات کا پتا نہیں کہ میں شاہ محمود قریشی بارے منفی خیالات کیوں رکھتا ہوں۔ میں نے کہا: تمہارے ساتھ تو وہی ہوا ہے جو تم نے چیک پوسٹ پر کھڑے فوجی گارڈ سے کیا تھا۔ شوکت ہنسنے لگ پڑا۔
کینٹ چیک پوسٹ پر کھڑے فوجی گارڈ نے شوکت سے کہا کہ شناختی کارڈ دکھائو۔ شوکت نے خاموشی سے کارڈ نکالا اور گارڈ کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ فوجی نے کارڈ کو دیکھا اور کہنے لگا کہ اس پر تمہارا مستقل پتہ نارووال کا لکھا ہوا ہے‘ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ شوکت نے گارڈ سے پوچھا: تمہارے کارڈ پر مستقل پتہ کہاں کا لکھا ہوا ہے؟ وہ کہنے لگا: تلہ گنگ کا۔ شوکت نے اس سے پوچھا کہ وہ یہاں کیا کر رہا ہے؟ وہ کہنے لگا: میں یہاں نوکری کر رہا ہوں۔ شوکت نے کہا کہ وہ بھی یہاں یہی کچھ کر رہا ہے۔ فوجی زور سے ہنسا اور اسے جانے کا اشارہ کر دیا۔
میں نے کہا: شوکت! میرا تمہارا معاملہ ایک جیسا ہے۔ شوکت اس بات پر ہنسا تو سہی لیکن اس پر کوئی خاص اثر نہ ہوا۔ وہ دراصل بعض اوقات صرف چسکے لیتا ہے۔ اسے شرارت کے علاوہ اور کسی چیز سے غرض نہیں ہوتی۔ مجھ سے پوچھنے لگا: وہ بنی گالہ میں سلمان کی عمران خان سے ملاقات والی کیا سٹوری ہے؟ میں نے کہا: یہ بھی محض تمہاری چسکے لینے والی عادت کا قصور ہے‘ ورنہ یہ بات میں تمہیں پہلے بھی ایک بار بتا چکا ہوں۔ وہ آدھی آنکھیں میچے مزے لیتے ہوئے کہنے لگا: تم بتا رہے تھے کہ عمران خان نے بذاتِ خود بھی یہ والی بات سلمان نعیم سے دو بار پوچھی تھی۔ اگر میں دوسری بار پوچھ رہا ہوں تو اس میں کیا خرابی ہے؟ پھر کہنے لگا کہ شاہ محمود قریشی کے فرزند زین قریشی نے تو سلمان نعیم کی پی ٹی آئی میں شمولیت پر بڑی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ میں نے کہا: مجھے اس بارے میں کوئی کنفرم خبر نہیں؛ تاہم ادھر اُدھر سے محض سنی سنائی ہے کہ شاہ محمود قریشی نے بھی حلقہ پی پی 217 میں آزاد حیثیت سے انہیں شکست سے دوچار کرنے والے نوجوان کی پی ٹی آئی میں شمولیت پر ناخوشی کا اظہار کیا تھا‘ لیکن فی الحال نمبر گیم کے حساب سے صورتحال ایسی ہے کہ ایک ایک ایم پی اے بڑی اہمیت کا حامل ہے اور سلمان تو ویسے بھی بڑا متحرک ورکر تھا۔ کافی عرصہ سے گھر کے ساتھ والے ڈیرے کو ”انصاف ہائوس‘‘ کا نام دے کر پی ٹی آئی کے لیے کام کر رہا تھا۔ اس کی پارٹی میں دوبارہ شمولیت پر کوئی مسئلہ تو نہیں ہونا چاہئے تھا۔ شوکت کہنے لگا: اِدھر اُدھر کی چھوڑو۔ وہ بنی گالہ میں سلمان نعیم کی عمران خان سے ملاقات کا حال سنائو۔
سلمان نعیم کو فون آیا کہ اسے لینے کے لیے جہاز بھجوایا جا رہا ہے۔ سلمان نعیم کے والد نے کہا کہ ہم جہاز پر بنی گالہ نہیں جائیں گے‘ اپنی گاڑی پر جائیں گے۔ جہاز کی آفر ٹھکرا دی گئی۔ سلمان نعیم کو بنی گالہ سے آنے والے فون سے پہلے ماڈل ٹائون سے فون آ چکا تھا مگر چونکہ اس کے دل کے اندر پی ٹی آئی بسی ہوئی تھی‘ اس لیے اس نے ماڈل ٹائون جانے کے بجائے بنی گالہ جانا قبول کیا‘ اور دو گاڑیوں میں اپنے دوستوں اور والد کے ساتھ ملتان سے بنی گالہ روانہ ہو گیا۔
عمران خان نے پچیس سالہ نوجوان سلمان نعیم کو دیکھا اور چسکے لینے والی مسکراہٹ کے ساتھ (مجھے یہ ساری بات ایک معتبر دوست نے بتائی ہے جسے یہ سارا واقعہ بنی گالہ میں اس ملاقات کے دوران موجود راوی نے سنایا تھا) پوچھا: تو تم نے شاہ محمود صاحب کو کیسے ہرایا؟ سلمان نعیم کے والد نے عمران خان کو بتایا کہ ہم نے حلقہ میں بڑا فلاحی اور سماجی کام کیا تھا‘ اس لیے حلقہ کے لوگوں نے جواباً ہمیں ووٹ سے اس کام کا اجر دیا۔ عمران خان کو شاید اس بات کا یقین نہ آیا تھا‘ یا وہ شاید مزید مزا لینا چاہتا تھا۔ اس نے آہستگی سے دوبارہ پوچھا کہ آپ نے اتنی چھوٹی عمر میں آزاد حیثیت سے شاہ محمود قریشی صاحب کو کیسے شکست دی؟ جواباً انہوں نے مختصراً وہ عوامل بتائے جس کی بنیاد پر یہ ناممکن کام ممکن ہو سکا۔ اسی دوران سلمان کے والد نے وزارت کی بات کی تو ساتھ کھڑے ہوئے کسی لیڈر نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جو بندہ پانچ آزاد ارکان اسمبلی لائے گا وزارت اس کو ملے گی۔ یہ سن کر سلمان کے والد نے کہا: آئو جی! چلتے ہیں‘ ہمیں شہباز شریف نے بھی بلا رکھا ہے۔ شنید ہے کہ اسے وزارت کی نوید بھی سنائی گئی؛ تاہم راوی نے اس بارے کھل کر کچھ نہیں بتایا؛ البتہ یہ ضرور بتایا کہ ملاقات والے کمرے کے ساتھ والے کمرے میں شاہ محمود قریشی بھی موجود تھا۔
راوی مختلف قسم کے ہیں اور باتیں بھی اتنی ہی۔ کوئی راوی معتبر ہے اور کوئی چالو قسم کا۔ لہٰذا یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے کہ کیا سچ ہے اور کیا محض افواہ؛ تاہم ایک نسبتاً معتبر راوی کا کہنا ہے کہ شاہ محمود قریشی نے وزارتِ خارجہ لینے سے تو صاف انکار کر دیا ہے‘ اور کہا ہے کہ یہ عہدہ تو میں 2008ء سے 2011ء تک تین سال تک آج سے سات سال پہلے انجوائے کر چکا ہوں اور میں نے یہ عہدہ از خود چھوڑا تھا۔ ابھی پیپلز پارٹی کی حکومت کے دو سال باقی تھے اور میں یہ عہدہ مزید دو سال اپنے پاس رکھ سکتا تھا۔ اب سات سال بعد بھی میں نے اسی عہدے پر جانا ہے تو اس سات سالہ جدوجہد اور سیاسی سفر کا کیا فائدہ؟
لیکن اب باقی کیا بچتا ہے؟ صدارت، وزارت عظمیٰ، گورنری، سپیکرشپ اور وزارت اعلیٰ۔ وزارت اعلیٰ تو گئی کہ اس کا کونڈا سلمان نعیم نے کر دیا۔ وزارت عظمیٰ پر خود عمران خان ہے۔ ایک شرپسند دوست کے بقول شاہ محمود قریشی سپیکر کے لیے کبھی امیدوار نہیں بنیں گے کہ سپیکر کا الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہوتا ہے۔ اللہ جانے اس شرپسند دوست کی اس بات کا کیا مطلب ہے۔ گورنری ان کے شایان شان نہیں۔ رہ گئی صدارت دیکھیں پردہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ شوکت نے اٹھتے ہوئے سوال کیا: بھائی جان! آپ اس پر ضرور غور کیجئے گا کہ آخر آپ کو شاہ محمود قریشی سے کیا کد ہے؟
میں نے گزشتہ دو دن اس بات پر بڑا غور کیا۔ رات سونے سے پہلے گھنٹوں سوچا۔ صرف دو باتیں سمجھ میں آئی ہیں۔ ایک اس کا متکبر ہونا اور دوسرا اس کی حُبِ جاہ و منصب۔ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے ان دو باتوں کے علاوہ اور تیسری بات سمجھ نہیں آئی۔ اس دو دن کے غوروخوض کے دوران میں نے اپنے دل کو ہر طرح ٹٹولا۔ اس کے علاوہ کسی ذاتی ناپسندیدگی کا شائبہ بھی کہیں نظر نہیں آیا۔ اللہ مجھے ہر قسم کی بدگمانی اور برے خیال سے محفوظ رکھے۔ آمین۔ اپنے مالک کے ہاں صرف دعا کی جا سکتی ہے اور عرضی پیش کی جا سکتی ہے۔