منتخب کردہ کالم

مانوس اجنبی کے لیے! .. کالم رئوف طاہر

وہ جو شاعر نے کہا تھا ع
ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
وزارت سے سبکدوشی کے 41 روز بعد اس نے چُپ کا روزہ توڑا۔حسبِ معمول‘ حسبِ عادت اب بھی عمران خان ہی اس کا ہدف تھا‘ تم استعفیٰ مانگتے ہو۔ ہم تو میاں صاحب کے پرانے کوٹ کا بٹن تک دینے کے روادار نہیں۔ سیاسی بن باس ختم ہوا‘ اب وہ پھر میدان میں تھا اور اس کے ساتھ ہی تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ بھی‘ کیا ڈان لیکس کا قضیہ بھی اختتام کو پہنچا؟
اس اتوار کی شب اجمل شاہ دین نے اس کے لیے عشائیے کا اہتمام کیا‘ ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ دوست بھی مدعو تھے‘ اس کالم نگار کے سوا‘ سبھی میڈیا کی نمایاں شخصیات…یہ ایک غیر رسمی محفل تھی۔ لیکن مہمانِ خصوصی کی مدح و ستائش کا رسمی سلسلہ چل نکلا۔آئین کی کارفرمائی‘ عدلیہ کی آزادی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے پرویز رشید کی جمہوری جدوجہد…میری نظر یں ہم سب کے ممدوح کے چہرے پر تھیں لیکن اس پر کوئی تاثر نہ تھا‘ جیسے یہ ساری تعریف و توصیف کسی اور کے لیے ہو…آخر میں اس نے کہا تو صرفِ اتنا کہ یہ اجتماعی جدوجہد تھی‘ جس میں میرا بھی حقیر سا حصہ تھا۔ یہ کُل تھا اور میں اس کا چھوٹا سا‘ حقیر سا جُزو۔ ایوب خاں کا مارشل لاء لگا تو میں صرف آٹھ سال کا تھا‘ ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا آغاز کرنے والے کچھ اور لوگ تھے۔ البتہ اس کے آخری ماہ وسال میں جمہوری جدوجہد کرنے والے لاتعداد لوگوں میں ایک میں بھی تھا‘‘۔
تب ذوالفقار علی بھٹو اس کا ہیرو تھا اور پیپلز پارٹی اس کا رومانس۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں بھی اپنے ہیرو سے اس کی وفاداری میں کوئی فرق نہ آیا۔ اب پھر ابتلا و آزمائش کے مرحلے تھے جنہیں وہ ہنستے مسکراتے طے کر گیا تھا ؎
پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہو گی
پھر وہی پائوں‘ وہی خارِ مغیلاں ہوں گے
نوازشریف سے اس کا سیاسی رومانس تو بہت بعد میں شروع ہوا۔ بھٹو کی بیٹی اور اسکی پیپلز پارٹی سے اسکی مایوسی کا آغاز کب ہوا؟ وہ اس پر زیادہ بات نہیں کرتا۔ شاید اس کا خیال تھا کہ بی بی کو حکومت سازی کے لیے مطلوبہ اکثریت نہیں ملی تھی تو وہ اسٹیبلشمنٹ کی شرائط کے ساتھ حکومت میں آنے کی بجائے اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دیتیں۔ صرف 20 ماہ بعد محترمہ کو رخصتی کا پروانہ تھما دیا گیا۔
اب غلام مصطفی جتوئی اسٹیبلشمنٹ کی چوائس تھے (اور ظاہر ہے‘ بابائے اسٹیلشمنٹ غلام اسحاق خاں کے ایوانِ صدر کی خواہش بھی یہی تھی) لیکن 1993ء کا عوامی مینڈیٹ نوازشریف کے لیے تھا چنانچہ پرائم منسٹر ہائوس کی جانب ان کا راستہ نہ روکا جا سکا۔ اب عوام کے منتخب وزیراعظم کی ”آزاد روی‘‘ اور ”من مانی‘‘ مسئلہ بن گئی تھی‘ چنانچہ یہ بھی ناقابلِ برداشت ہو گئے۔ 18 اپریل 1993ء کو انہیں بھی باہر کا راستہ دکھا دیا گیا لیکن اب وہ اپنے میرٹ پر لیڈر بن چکے تھے۔ موٹروے‘ نئے ہوائی اڈے‘ گرین چینل‘ اکانومی کی لبرلائزیشن اور پرائیویٹائزیشن جیسے اقدامات نے ان کا نقش ایک اقتصادی مسیحا کا بنا دیا تھا۔ اس کے ساتھ وہ اس پر بھی اصرار کر رہے تھے کہ ہر کوئی اپنی اپنی آئینی حدود میں رہے۔ ایک دن پہلے 17 اپریل کی شب قوم سے خطاب نے ان کی مقبولیت کا سورج نصف النہار پر پہنچا دیا تھا۔ ڈکٹیشن نہ لینے‘ اسمبلی نہ توڑنے اور استعفیٰ نہ دینے کا اعلان۔ نوازشریف کی سیاست نیا موڑ مڑ گئی تھی اور یہی وہ مقام تھا جب پرویز رشید نے نوازشریف کی رفاقت اختیار کی۔ اس جمہوری کارواں کے نوواردگان میں مشاہد حسین سیّد بھی تھے۔
محترمہ کا دوسرا دور ایسا آسان نہ تھا۔ اس میں قائد حزب اختلاف میاںنوازشریف کے سوا شریف فیملی کے سبھی افراد پر مقدمے بنے۔ شہبازشریف بیرون ملک علاج کے بعد وطن واپس آتے ہی دھر لیے گئے‘ حمزہ پہلے ہی اڈیالہ جیل میں تھے‘ اور پھر نوبت خاندان کے بزرگ سربراہ‘ میاں محمد شریف (مرحوم) کی گرفتاری تک پہنچ گئی۔ گجرات کے چوہدری بھی زیرعتاب تھے۔ اعجاز الحق پر بھی مقدمہ بنا‘ لیکن ایک سابق آرمی چیف کے صاحبزادے اور ایک جرنیل کے داماد کی حراست کوئی معمولی بات نہ تھی‘ چنانچہ مجسٹریٹ نے خود تھانے جا کر ضمانت لے لی۔ شیخ رشید بھی کلاشنکوف کیس میں سزا یافتہ ہوئے۔تب مشاہد حسین‘ احسن اقبال‘ پرویز رشید‘خلیل ملک(مرحوم) اور صدیق الفاروق پر مشتمل سیل نے میڈیا کے محاذ پر بے نظیر سرکار کو بہت ٹف ٹائم دیا۔
لیکن آزمائش کا اصل دور 12 اکتوبر 1999ء کے بعد آغاز ہوا۔ ”قدم بڑھائو نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کے نعرے لگانے والوں میں سے بیشتر نے عافیت کی راہ لی۔ تب جنہوں نے وفاداری بشرطِ استواری کا مظاہرہ کیا‘ ان میں پرویز رشید اپنی مثال آپ تھا۔ بدترین تشدد‘ شرمناک ترین سلوک‘ لیکن وہ بے وفائی پر آمادہ نہ ہوا۔
ناقابلِ بیان تشدد سے وہ نفسیاتی عارضے کا شکار ہو گیاتھا۔ رہائی کے بعد وہ علاج کے لیے بیرون ملک چلا گیا۔ پھر امریکہ سے لندن آ گیا۔ 2006ء میں میاں صاحب بھی جدہ سے لندن چلے گئے تھے یہاں پرویز ایک بار پھر ان کا دست و بازو بن گیا۔ انگلستان کی شہریت کے لیے اس کا کیس منظوری کے آخری مرحلے میں تھا لیکن میاں صاحب وطن واپس آئے تو وہ بھی انگلستان کی شہریت کو لات مار کر اپنے لیڈر کے ساتھ لوٹ آیا۔ ان ہی دنوں رئوف کلاسرا نے پرویز مشرف کے عہدِ ستم میں پرویز رشید پر بیت جانے والے ظلم و تشدد پر کالم لکھا‘ میں نے پرویز رشید کو لمبی چوڑی ای میل ارسال کی‘ اس کا جواب صرف چند حروف پر مشتمل تھا‘ ”کئی اور UN SUNG ہیروز بھی ہیں‘‘۔ اپنی مدح و ستائش پر اسی بے نیازی کا مظاہرہ اس نے اجمل شاہ دین کے عشائیے میں بھی کیا۔ ڈان لیکس کے حوالے سے سوالات پر اس کا جواب تھا‘ انکوائری رپورٹ میں سب کچھ آ جائے گا۔ ایک سوال‘ کابینہ میں اس کی واپسی کا تھا جس پر اس کا جواب دلچسپ تھا‘ میں دوبارہ اپنا نقصان کیوں کروں؟ سینیٹر کے طور پر تنخواہ‘ الائونسز اور دیگر مراعات‘ وزارت کی تنخواہ سے زیادہ ہیں۔ اور سچ بات یہ ہے کہ جس شخص نے وزارت میں بھی درویشی کی ہو‘ اسے دوبارہ اس سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟۔
نظریاتی فکر کے لحاظ سے پرویز رشید دوسرے کیمپ میں تھا اور اس لحاظ سے وہ میرے لیے اجنبی لیکن یہ اجنبیت کبھی میرے لیے اس کی خیرخواہی میں حائل نہ ہوئی۔
دلچسپ بات یہ کہ اس کی ساڑھے تین سالہ وزارت میں‘ میں نے شاید ہی کبھی اس کی تعریف میں کالم لکھا ہو حالانکہ جمہور کی حکمرانی کے لیے ہمارے خواب مشترک ہیں۔ اس حوالے سے ہم ایک ہی منزل کے راہی اور ایک ہی کشتی کے سوار ہیںاور ویسے بھی وہ کالم کا نہیں‘ کتاب کا موضوع ہے۔