منتخب کردہ کالم

ماں بولی کے سیاسی سوداگر (غیر فوجی کالم) صولت رضا

طویل انتظار کے بعد مردم شماری کا سلسلہ شروع ہونے کو ہے۔ یہ کارنامہ بھی عدالتی حکم کے تحت انجام دیا جا رہا ہے ۔ اگر بات حکمرانوں کے سپرد رہتی تو شاید ہم مزید چند دہائیاں انتظار کی کیفیت میں مبتلا رہتے ۔ دنیا بھر میں مردم شماری مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے اساس تصور کی جاتی ہے ۔ ہمارے ہاں سیاسی ترجیحات میں کو تاہ نظری ہمیشہ سے حاوی رہی ہے ۔ سیاسی جماعتیں جس نو عیت کی جمہوریت کا راگ الاپتی ہیں ۔ اس میں ٹھہراؤکی نسبت کٹاؤ کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ۔ٖغیر جمہوری حکمران اپنے مخصوص انداز حکمرانی کے باعث مجبور تھے۔ اُنہوں نے کم و بیش اپنے پیشروجمہوری حکمرانوں کے طریقہ ِ واردات کو ہی آگے بڑھایااور عوامی لبادے میں اقتدار پر براجمان رہنے کے لیے چیر پھاڑ کرتے رہے ۔
سیاسی لحاظ سے کٹاؤ کا منظر نامہ قریب سے قریب تر ہو رہا ہے۔ موجوہ کیفیت کا سب سے اہم سیاسی ہتھیار زبان کا ہے ۔ زبان کے بل بوتے پر سیاسی پیش قدمی مسلمہ روایت ہے ۔ خاص طور سے جنوبی ایشیاکے ممالک میں لسانی تفرقہ کو ہوا دینا عام سی بات ہے ۔ قیام ِ پاکستان کے فوراً بعد قومی زبان کے حوالے سے یکسوئی کا فقدان برقرار رکھا گیا۔ مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام کی بھاری اکثریت اردو کو واحدقومی زبان تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھی ۔ اس حوالے سے 21فروری 1952ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں بنگالی زبان تحریک کے جلسے اور جلوس میں تشدد کے باعث اموات ہو گئیں ۔ جاں بحق ہونے والے بنگالی شہید تسلیم کئے جاتے ہیں۔ اُن کی یاد میں یادگار تعمیر کی گئی
اور اکیس فروری کو ہر سال دنیا بھر میں مادری زبان کا دن منایا جاتا ہے ۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آغاز میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے مسلمان بنگالی اراکین اسمبلی اردو کو قومی زبان بنانے کے پرجوش حامی تھے ۔ البتہ غیرمسلم بنگالی اراکین نے اردو کی مخالفت کی اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو کے حامی صرف سرکاری دفتروں میں ہی باقی رہ گئے ۔ مشرقی پاکستان میں بنگلہ زبان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ اردو مغربی پاکستان سے درآمد افسر شاہی کی علامت بن گئی ۔ تمام سیاست دان زبان کے قضیئے کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے ۔ اُنہوں نے مستقل حل کی جانب توجہ نہیں دی۔
1956 ء کے آئین میں بنگالی زبان کو قومی سطح پر نظر انداز نہیں کیا گیا۔ مارشل لا کے نفاذ کے بعد 1962 ء کے صدارتی آئین میں بنگلہ کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی خواہش پر اردو بنگلہ بول چال کے ذریعے رابطے کی ایک تیسری زبان کا اجرا کرنے کی کو شش کی گئی جو ناکام رہی۔ وطن عزیز کے دو حصوں میں جغرافیائی فاصلے تو پہلے تھے اب لسانی خلیج بھی روز بروز وسیع ہونے لگی۔ دشمن پہلے ہی موقع کی تاک میں تھا۔ اُس نے بنگلہ زبان کی تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے ہر قسم کے جتن کئے ۔ دوسری جانب مغربی پاکستان کے صف اول کے سیاست دانوں کو اردوکے آگے کچھ سجھائی نہیں دے رہاتھا۔ آخر کار مشرقی پاکستان سے سیاسی اور عسکری لحاظ سے تعلق ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔
زبان کے حوالے سے سیاسی بازیگروں کے پُرکشش کرتب جاری ہیں۔ انیس سو اکہتر کے سانحے کے بعد سندھ میں سندھی۔ اردو کشمکش کو فروغ دیا گیا۔ خوش قسمتی سے پنجابی بمقابلہ اردو کا کوئی وجود نہیں تھا ۔ حالانکہ متحدہ پاکستان میں بنگالی کے بعد پنجابی سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ مدت ہوئی پنجابیوں نے اپنی مادری زبان میں لکھنا چھوڑ دیا۔ جس کے سبب پنجابی کا وجود محض چند تعلیمی اداروں اور کچھ جرائد تک محدود ہے ۔ اس کے برعکس سندھی ، پشتو اور بلوچی کے لکھاری کثیر تعداد میں ہیں ۔ خاص طور سے سندھی اخبارات اور جرائد نے سندھی زبان کے وجود کو انمٹ توانائی عطاکی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ساتویں دہائی میں سیاسی مقاصد کے لیے
سندھی زبان کو قومیت کی بنیادی شرط قرار دے کر اسے اردو کے مقابلے پر لے آئی ۔ یوں سندھ کے شہری علاقوں میں لسانی تنازع نمایاں ہوا۔ اردو کو اپنی مادری زبان سمجھنے والے بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں جو سندھی کو اردو کے برابر درجہ دینے کے لیے تیار نہیں تھے ۔ یہ کیفیت سیاسی سرپرستی کے باعث سماج ، تعلیم اور روز مرہ میں آج بھی موجود ہے ۔ سندھ کی شہری اور دیہی تفریق کابنیادی سبب لسانی ہے ۔یہ اور بات ہے کہ دونوں اطراف کے سیاست کار اور دیگر شعبہ جات کی اشرافیہ اس خودساختہ حقیقت کو سرِ عام تسلیم نہیں کرتے لیکن شاید ہی انہوں نے اپنے سیاست ، ملازمت ، کاروبار یا سوچ میں دل سے اس کیفیت کی نفی کی ہو۔ چند ایک استثنیٰ موجودہیں ۔ لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔
مردم شماری اور عام انتخابات کے مواقع پر مادری زبان یاماں بولی کی سیاسی بولی لگنے جا رہی ہے ۔ لسانی الاؤ بھڑکنے کو ہے ۔ جس کی تپش رہے سہے سماجی سکون کو بھی تاراج کر دے گی۔ بدقسمتی سے صفِ اول کی تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی لسانی کمین گاہوں میں خیمہ زن ہیں ۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) برسوں سے چین کی بنسری بجا رہی ہے ۔ وفاق کی حکومت بھی تمام تر سیاسی توانائی پنجاب سے حاصل کرتی ہے ۔ اُسے کسی اور لسانی اکائی کی براہ راست حمایت درکار نہیں اگر کوئی ازخود ٹپک پڑے تو خوش آمدید ورنہ پنجابی طرزِ جمہوریت میں سندھ ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان مستقل” ٹھیکے‘‘ پر ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان وائسرائے کی مانند بیرون پنجاب دورے پر تشریف لے جاتے ہیں اور عموماً سورج غروب ہونے سے قبل اسلام آباد یا لاہور واپس پہنچ جاتے ہیں۔
سندھ کے بعد دوسرا لسانی معرکہ بلوچستان میں ہے ۔ جہاں افغانستان کے حاضراور غیر حاضر مہاجرین کی بھاری تعداد کے باعث بلوچ آبادی خود کو سیاسی ، سماجی اور لسانی اعتبار سے غیر محفوظ سمجھ رہی ہے ۔ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اختر مینگل نے مرد م شماری کو ایک اور کالا باغ ڈیم قرار دیتے ہوئے مخالفت کااعلان کر دیا ہے ۔ یہ درست ہے کہ افغان مہاجریں کو بلوچستان میں بعض بااثر ”ہم زبان‘‘ سیاستدانوں کی خصوصی سرپرستی حاصل ہے ۔ وفاق اس معاملے سے لاتعلق اور بے حس دکھائی دیتا ہے ۔ بلوچی اور پشتو کشمکش کے نتائج سیاسی ماحول کو مزید پراگندہ کر سکتے ہیں ۔
وطن عزیز کے معروضی حالات کا تقاضا ہے کہ پنجاب ، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں ”ماں بولی‘‘ کے نام پر سیاست کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔ مردم شماری میں شہری کے لسانی تعلق کا اندراج ہر قسم کے خوف و خطر سے آزاد ہو کر کیا جائے ۔ پاکستان میں رائج تمام زبانیں اوربولیاں ایک ہی گلدستے کا حصہ ہیں ۔ یہ ہمارے آباؤ اجداد کا قیمتی ورثہ ہیں۔ جن کی حفاظت مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ خطرہ یہ ہے کہ مردم شماری کے دوران اور اندراج کی تفصیلات کے اعلان کے بعد سیاسی سوداگر ‘‘ماں بولی” فیکٹر کو دوہزار اٹھارہ (2018ء )کے انتخابات تک اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے بھرپور استعمال کریں گے ۔