منتخب کردہ کالم

مبارک باد….وقار خان

رسوماتِ جوتا

مبارک باد….وقار خان

یہ نہج البلاغہ کا خطبہ نمبر33 ہے۔ عبداللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ میں امیرالمومنینؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؓ اپنا جوتا مرمت کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کے پوچھا: اے ابن عباس! اس جوتے کی قیمت کیا ہو گی؟ میں نے کہا کہ اب تو کچھ بھی نہ ہو گی۔ تب آپؓ نے فرمایا ”اگر میرے پیش نظر حق کا قیام اور باطل کا مٹانا نہ ہو تو تم لوگوں پر حکومت کرنے سے یہ جوتا مجھے کہیں زیادہ عزیز ہے‘‘۔ ایک اور روایت کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ میں حکومت کو ان جوتوں سے بھی بدتر سمجھتا ہوں، ہاں مگر میں اس کے ذریعے عدل و انصاف قائم کرتا ہوں اور حق دار کو اس کا حق دلاتا ہوں۔ فرمایا، ذلیل و خوار میرے نزدیک عزیز ہے، یہاں تک کہ میں اس کا حق دلوا دوں اور قوی میرے نزدیک ضعیف و کمزور ہے، یہاں تک کہ میں اس سے دوسروں کا حق لے لوں۔
منبر کوفہ پہ بیٹھے تھے کہ پاس سے ایک چیونٹی گزری۔ ابن عباس کو مخاطب کیا، اس چیونٹی کے منہ میں خوراک کا ذرہ کتنا بڑا ہو گا؟ جواب میں انہوں نے عرض کیا کہ چیونٹی کے منہ کے ذرے کا حجم ماپنا ممکن نہیں۔ تب بابِ شہرِ علمؓ نے کہا، اگر مجھے زمین و آسمان کی حکومت اس شرط پر دی جائے کہ میں اس چیونٹی کے منہ سے خوراک کا یہ ذرہ چھین لوں تو بخدا میں یہ حکومت نہ لوں گا… گویا خدا کے نزدیک وہی حکومت معتبر ہے، جو عدل و انصاف قائم کرے اور غاصب سے چھین کر حق دار کو اس کا حق دلائے، اور جو حکومت عدل و انصاف قائم نہ کر سکے اور حقداروں کو ان کا حق دلانے میں ناکام رہے، وہ پرانے جوتوں سے بھی بدتر ہے، چاہے وہ پی ٹی آئی کی نومنتخب حکومت ہی کیوں نہ ہو، جسے پہلی مرتبہ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے پر مبارک باد دینے کے لیے یہ کالم لکھا جا رہا ہے۔
ملکِ عزیز کے نئے وزیر اعظم چودہ صدیاں قبل کی اسلامی ریاست کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔ اس ادنیٰ قلم کار نے اس ریاست کے طرز حکومت کا ایک رہنما اصول بیان کیا ہے، جس میں والیٔ ریاست فرات کے کنارے پیاس سے مرنے والے کتے کی موت کا ذمہ دار بھی خود کو سمجھتا ہے۔ یقیناً عمران خان کے ذہن میں چودہ سو سال پہلے کی اس اسلامی ریاست کی جدید شکل کے خدوخال واضح ہوں گے۔ وہ اس حرماں نصیب قوم کے حالات سے بھی پوری طرح باخبر ہیں اور ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کا بھی انہوں نے ضرور پلان بنا رکھا ہو گا کہ ان کے پارٹی منشور میں فوری انصاف کی فراہمی شامل ہے؛ تاہم قلم کا قرض ادا کرتے ہوئے قلم بردار عرض کر دے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری حصول انصاف کے لیے نسل در نسل کچہریوں میں رلتے ہیں۔ بہت سے تو انصاف کی خواہش دل ہی میں لیے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں میڈیا میں ایک ستم ظریف سا لطیفہ نما واقعہ گردش کرتا رہا کہ سپریم کورٹ کے احاطے میں ایک دیوانی مقدمے کے مدعیان نے اپنے کیس کی 100ویں سالگرہ منائی اور کیک کاٹا۔ تو جناب عالی، پہلی تبدیلی بوسیدہ اور زنگ آلود نظامِ انصاف چاہتا ہے، جو مدینے کی ریاست سے بالکل متضاد ہے۔ یہاں عام آدمی کے لیے انصاف اجنبی ہے، جو اسے خریدنے کی قوت نہیں رکھتا۔ ہم لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ آج کی جدید غیر مسلم ریاستوں نے ہمارے یہی اصول چرا کر ترقی کی ہے۔ بجا، مگر یہ چور ہیں بڑے شاطر کہ چرچل‘ ہٹلر کی فوج کا مقابلہ ہمارے اصول، مضبوط عدلیہ سے کرنے چلا تھا اور ریگن نے بھی اسی اصول کے تحت کہا ”جب تک امریکہ میں قانون اور انصاف کا احترام باقی رہے گا، امریکہ دنیا کی سپر پاور رہے گا‘‘… تو کیوں نہ تبدیلی کے دعویدار آج سے اپنے اس فراموش کردہ اصول کو دوبارہ اپنا کر ایک نئے سفر کا آغاز کریں، تاکہ ہمارے ایسے جمہوریت پسند انہیں بار بار مبارک باد اور خراج تحسین پیش کرتے رہیں۔
یہاں نصف سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گھسیٹ رہی ہے۔ شہریوں کو پینے کے لیے صاف پانی تک میسر نہیں۔ تھر میں قحط کا راج ہے اور بھوک سے مرنے والے حالیہ آٹھ بچوں کی ہلاکت کے بعد رواں سال کے دوران ہلاکتوں کی تعداد چار سو ہو گئی ہے۔ یہ سب فرات کے کنارے مرنے والے جانور نہیں، معروف معنوں میں پسماندہ اور بے آب و گیاہ تھر کے اشرف المخلوق کہلاتے تھے۔ یہاں لوگوں کو خالص اشیائے خورونوش دستیاب نہیں۔ دوائیں تک اصلی نہیں ملتیں۔ آبادی کا عفریب محدود وسائل کو مسلسل نگلے جا رہا ہے۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی جہالت، تنگ نظری اور انتہا پسندی نے پُرامن شہریوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ دہشت گردی کے خوف نے لوگوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ پولیس گردی کا چلن عام ہے۔ سرکاری دفاتر میں محکمانہ غنڈہ گردی اپنے جوبن پر ہے۔ وہاں نہ صرف سائلان کا کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا، بلکہ حتی الوسع ان کی عزت نفس بھی مجروح کی جاتی ہے۔ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والی بیوروکریسی اور اہلکار خود کو خادم کی بجائے حاکم سمجھتے ہیں۔ جائز کاموں کے لیے ممبران اسمبلی کی محتاجی بھی ختم ہونا ضروری ہے۔ جو سسٹم خان صاحب تبدیل کرنا چاہتے ہیں، اس میں لوگوں کو اپنے ہر چھوٹے بڑے سرکاری کام کے لیے ممبران اسمبلی کا محتاج بنایا گیا ہے۔ یقیناً پی ٹی آئی کی حکومت ان معاملات میں شہریوں کو ریلیف دے کر ان کی دعائیں لے گی۔
عوام کے ٹیکسوں پر بھاری بوجھ وی آئی پی کلچر ایک اور بڑی لعنت ہے۔ وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں پرتعیش محلات اور پروٹوکول کے بے پناہ اخراجات قومی خزانے پر وہ بوجھ ہیں، جن سے باآسانی جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ عمران خان وی آئی پی کلچر کے مخالف ہیں اور اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ خود بے جا پروٹوکول لیں گے، نہ کسی کو لینے دیں گے۔ انہوں نے وزیر اعظم ہائوس میں رہنے سے بھی انکار کر دیا ہے؛ تاہم ان کو ملنے والی اربوں کی سرکاری لگژری گاڑیاں ان کے اس عزم پر سوالیہ نشان ہیں۔ اگر وہ اپنے پیشرو حضرات کی ایسی شاہانہ روایات برقرار رکھیں گے تو ان کے وزراء اور افسران کب پیچھے رہیں گے؟ بصد معذرت، ایسے میں تو تبدیلی خواب بن کر رہ جائے گی۔ مدینے کی ریاست میں تو حکمران کو مال غنیمت میں ملنے والی اضافی چادر کا بھی حساب دینا پڑتا تھا، بیت المال پر اتنے بوجھ کا وہ کیسے حساب دیں گے؟ لوگ بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ عمران خان یہ لگژری گاڑیاں واپس کرتے ہوئے اس غلیظ وی آئی پی کلچر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گے۔
معاشرے میں کینسر کی طرح پھیلی کرپشن ایک اور بڑا ناسور ہے۔ یہاں اوپر سے لے کرنیچے تک ہر کوئی مقدور بھر ہاتھ مارتا ہے۔ عمران خان کرپشن سے پاک معاشرے کی تشکیل کا وعدہ کرکے اقتدار میں آئے ہیں۔ انہیں یہ وعدہ بھی پورا کرنا ہو گا۔ ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ لگ بھگ سو ارب ڈالر کے قرضوں تلے دبے ملک کی معیشت کو سہارا دینے کی خاطر ہنگامی بنیادوں پرکام کرنے کی ضرورت ہے۔ آئندہ پانچ سال کے دوران پی ٹی آئی کی حکومت کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور تجارتی خسارہ پورا کرنے کے لیے 217 ارب ڈالر درکار ہیں۔ امید ہے کہ وہ ملک کو آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد کرانے کی ہر ممکن سعی کریں گے۔ سوئس بینکوں میں پڑے پاکستانیو ں کے دو سو ارب ڈالر کا بڑا غوغا ہے۔ ملکی دولت سے بیرون ملک بنائی گئی جائیدادوں کے سکینڈل بھی عام ہیں۔ توقع ہے کہ خان صاحب عوام پر ٹیکسوں کابوجھ بڑھانے کی بجائے حسب وعدہ لوٹی گئی دولت واپس لاکر، سرکاری اخراجات میں کمی کرکے اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دے کر ملکی معیشت کو سہارا دیں گے۔ نیز ٹیکس چور اشرافیہ کو ٹیکس کے دھارے میں لائیں گے۔
یہ گزارشات اس لیے پیش کی گئی ہیں کہ پی ٹی آئی تبدیلی کا نعرہ لے کر اقتدار میں آئی ہے۔ یاد رہے کہ تبدیلی وہ ہے، جو عام آدمی کو نظر آئے۔ نئی منتخب حکومت کو گزشتہ حکمرانوںکی طرح اپنے کارناموں کے اشتہارات پر سرکاری خزانہ لٹانے کی ضرورت نہیں۔ جب عوام کو ریلیف ملے گا تو وہ خود اس کی گواہی دیں گے۔ ہم نیک خواہشات اور توقعات کے ساتھ پی ٹی آئی کی نومنتخب حکومت کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ امید ہے کہ وہ عدل و انصاف قائم کرنے اور حقداروں کو ان کا حق دلانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی۔