منتخب کردہ کالم

’’مبینہ مقابلے‘‘…الیاس شاکر

’’مبینہ مقابلے‘‘

’’مبینہ مقابلے‘‘…الیاس شاکر

عالم اسلام کا سب سے بڑا شہر کراچی خبروں میں رہنا جانتا ہے… اِس شہر نے 1992ء دیکھا پھر 1995ء اور 1998ء بھی دیکھا اور اب 2018ء بھی دیکھ رہا ہے۔ اس شہر کی سڑکوں اور گلیوں نے بہت خون پیا ہے۔ کبھی دہشت گردی‘ کبھی ٹارگٹ کلنگ‘ کبھی بم دھماکے‘ کبھی خود کش حملے اور کبھی ذاتی دشمنی کے واقعات کا لہو بھی کراچی کی سڑکوں پر بہتا ہے۔ کراچی میں سب سے زیادہ ماورائے عدالت قتل ایم کیو ایم کے کارکنان کے ہوئے۔ سب سے زیادہ لوگ 1992ء میں مارے گئے‘ جس کی آواز آج بھی اٹھائی جاتی ہے‘ لیکن انصاف کہیں نہیں۔
2018ء کی شروعات ہی ”پولیس مقابلوں‘‘ سے ہوئی۔ ایک کے بعد ایک تین مقابلے ایسے ہوئے جن کے اصلی اور جعلی ہونے پر تحقیقات جاری ہیں۔ پہلا مقابلہ ڈیفنس میں ہوا جس میں 19 سالہ انتظار کو قتل کیا گیا۔ اس مقابلے میں مطلوب 9 میں سے 8 پولیس اہلکار اب تک گرفتار کئے جا چکے ہیں۔ ابھی انتظار قتل کیس کی تحقیقات جاری تھیں کہ ایس ایس پی ملیر رائو انوار نے ایک پولیس مقابلے میں چار دہشت گردوں کے مارنے کا اعلان کیا۔ ہر مقابلے کی طرح یہ بھی ”اصلی‘‘ ہو جاتا لیکن نقیب اللہ محسود کے سوشل میڈیا اکائونٹ نے اُسے گمنامی سے بچا لیا۔ سوشل میڈیا سے شروع ہونے والا احتجاج الیکٹرانک میڈیا تک پہنچا اور پھر ہر طرف جعلی مقابلوں کی ”گونج‘‘ سنائی دینے لگی۔ شارع فیصل پر بھی پولیس کی گولیوں نے پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی مقصود کو نشانہ بنا ڈالا یہ جنوری کا تیسرا مقابلہ تھا۔
انکائونٹر سپیشلسٹ کے ”درجے‘‘ پر فائز ایس ایس پی رائو انوار کا ”مقابلہ‘‘ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ رائو انوار کا یہ پہلا یا دوسرا مقابلہ نہیں تھا۔ راؤ انوار کے دہشت گردوں کے ساتھ مقابلوں کو ”چائنہ مقابلوں‘‘ کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ مقابلے کا آغاز اور اختتام چند ہی منٹوں پر محیط ہوتا ہے۔ حیران کن طور پر ان مقابلوں میں صرف دہشت گرد ہی مارے جاتے ہیں۔ جبکہ مارے جانے والے دہشت گرد ”نامی گرامی‘‘ اور ان کے پاس سے ملنے والا اسلحہ بھی انتہائی جدید ہوتا ہے لیکن کبھی کوئی پولیس اہلکار زخمی نہیں ہوتا۔
کراچی پولیس کے راؤ انوار واحد رینکر افسر ہیں جو کسی ضلع کی سربراہی کر رہے تھے۔ 1980ء کی دہائی میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہونے والے رائو انوار سب انسپکٹر بنتے ہی ایس ایچ او کے منصب پر پہنچ گئے۔ وہ زیادہ تر گڈاپ تھانے پر تعینات رہے۔1992ء میں جب ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو راؤ انوار بھی پیش پیش تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب ایم کیو ایم کو قومی دھارے میں شامل کیا گیا تو راؤ انوار ”چھٹیوں‘‘ پر چلے گئے اور دبئی میں مقیم ہو گئے۔ بعد میں بلوچستان واپس آئے اور کوئٹہ میں ایس ایچ او رہے۔ 2008ء میں جب پیپلز پارٹی سندھ میں برسر اقتدار آئی تو راؤ انوار نے دوبارہ کراچی کا رخ کیا۔ گزشتہ دس سال میں وہ زیادہ تر ایس ایس پی ملیر کے عہدے پر ہی فائز رہے ہیں۔ متعدد رہائشی منصوبے اسی حدود میں زیر تعمیر ہیں جبکہ ملیر کو ریتی بجری کی ”جنت‘‘ کہا جاتا ہے جو کروڑوں کا کاروبار ہے۔
ایم کیو ایم کے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد راؤ انوار ایم کیو ایم پر وار کرتے رہے۔ 2015ء میں انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ پر بھارتی خفیہ ادارے ”را‘‘ سے روابط رکھنے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے ایس ایس پی کی حیثیت سے ایک پریس کانفرنس بھی کر ڈالی‘ اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایم کیو ایم پر پابندی عائد کی جائے۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے ان الزامات پر ناراضگی کا اظہار کیا اور راؤ انوار کو عہدے سے ہٹا دیا گیا‘ لیکن یہ معطلی عارضی رہی۔ 2016ء میں راؤ انوار کو آخری بار اس وقت معطل کیا گیا تھا‘ جب انہوں نے ایم کیو ایم کے پارلیمانی رہنما خواجہ اظہارالحسن کو گرفتار کیا… جس پر وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے انہیں معطل کیا؛ تاہم چند ماہ بعد ہی وہ پھر اپنی کرسی پر جھولتے نظر آئے۔ میئرکراچی وسیم اختر کو بھی راؤ انوار نے ہی گرفتار کیا اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ متعدد مقدمات میں مطلوب ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار انہیں پیپلز پارٹی کی قیادت کا خاص الخاص قرار دے چکے ہیں‘ جبکہ مسلم لیگ ن کے رہنما نہال ہاشمی نے بلدیاتی انتخابات میں الزام عائد کیا تھا کہ راؤ انوار نے ان کے لوگوں کو منحرف کرکے پیپلز پارٹی کے ضلعی چیئرمین کو ووٹ ڈلوائے۔
2015 میں عیدالضحیٰ کے موقع پر ایک نجی چینل پر خبر نشر ہوئی کہ ”راؤ انوار نے زرداری ہاؤس میں سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ نماز عید ادا کی‘‘… اور پھر سب کو عارضی معطلی اور بحالی کی وجہ بھی سمجھ آ گئی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر رائو انوار گرفتار ہوئے تو وہ بہت سے لوگوں کے راز فاش کر دیں گے۔ کئی برسوں سے وہ کس کی پشت پناہی پر جعلی پولیس مقابلے اور زمینوں پر قبضے کرتے آئے ہیں… یہ سب راز سامنے آجائیں گے۔ اُن کی گرفتاری عزیر بلوچ سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ دعویٰ بھی سامنے آرہا ہے کہ رائو انوار کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل بھی کروایا جا سکتا ہے تاکہ ان کے سینے میں دفن راز باہر نہ آ سکیں اور ان کی پشت پناہی کرنے والے بے نقاب نہ ہو جائیں۔
پولیس کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ رائو انوار کے پولیس افسران سے مراسم بھی قابل ذکر نہیں ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی ثناء اللہ عباسی کو وہ ”لفٹ‘‘ ہی نہیں کراتے تھے۔ وہ ان کا فون بھی اٹینڈ نہیں کرتے تھے۔ کئی بار ثنا اللہ عباسی نے انہیں طلب کیا تو رائو انوار نے انہیں ہی ”طلب‘‘ کر لیا کہ میرے دفتر آجائیں… اور اب وہی ثنا اللہ عباسی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ یہی صورتحال ہر آنے والے آئی جی سندھ کے ساتھ رہی۔ سی ایس پی افسران کیلئے ایک میٹرک پاس افسر کا ایسا برتائو ناقابل قبول تھا‘ لیکن وہ کڑوے گھونٹ پیتے رہے۔ رائو انوار نے ضلع ملیر میں تمام ایس ایچ اوز اور چوکی انچارجز اپنی پسند اور بھروسے کے افسران کو ہی تعینات کر رکھا تھا۔ اور ان کے آرڈرز بھی آئی جی سندھ کی خواہش کے برخلاف جاری کئے جاتے تھے۔
رائو انوار کے خلاف ماضی کی انکوائریاں اس بات کی گواہ ہیں کہ معاملہ اس وقت تک ہی ”گرم‘‘ رہا جب تک میڈیا نے اسے ٹاک شوز اور بُلیٹنز کی زینت بنائے رکھا۔ میڈیا سے خبریں ”آئوٹ‘‘ ہوتیں اور رائو انوار ”اِن‘‘ ہو جاتے تھے۔ لیکن اس بار کچھ تبدیلیاں نظر آرہی ہیں۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ سندھ کی انتہائی اہم شخصیت سے رائو انوار کے تعلقات کشیدہ ہو چکے تھے اور نقیب اللہ مقابلے کے فوری بعد جب رائو انوار نے مذکورہ شخصیت سے فون پر رابطہ کیا تو دوسری جانب سے کال اٹینڈ نہیں کی گئی۔ پھر مذکورہ شخصیت کے معتمد خاص سے رابطہ ہوا تو انہوں نے معاملہ خود سلجھانے کا مشورہ دیا۔ اختلافات کی وجہ ایک بہت بڑا پروجیکٹ بتائی جا رہی ہے‘ جہاں رائو انوار نے براہ راست مراسم بنا لئے تھے‘ لیکن موجودہ صورتحال کا اندازہ رائو انوار کو بھی بخوبی ہو گیا تھا‘ اس لئے انہوں نے اپنے ”دست راست‘‘ ہیڈ کانسٹیبل کو بھی بتا دیا تھا کہ ”اب معاملہ زیادہ بگڑ چکا ہے آپ لوگ نکل جائیں‘‘۔ مذکورہ ہیڈ کانسٹیبل کوچ کی سیٹ نہ ملنے پر رات گئے خیبر میل ٹرین کے ذریعے لانڈھی سٹیشن سے گھوٹکی روانہ ہوا۔ اسی طرح ملیر کے تمام تھانوں میں تعینات رائو انوار کے خاص پولیس افسران و اہلکاروں کو بھی موبائل فون بند کرنے اور منظرنامے سے ہٹنے کی ہدایات جاری کی گئیں۔ اس وقت ملیر پولیس انتہائی غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ کیا ہونے والا ہے۔ اور سب سے اہم بات کہ تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ ثناء اللہ عباسی ہیں جن کی ایمانداری کی شہرت اسلام آباد تک ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر رائو انوار ایک بار پھر ”کلین چٹ‘‘ لینے میں کامیاب ہو گئے تو پھر کراچی پولیس واضح طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ ایک دھڑا کراچی پولیس اور دوسرا ملیر پولیس کہلائے گا۔ اس کے بعد مقابلے بھی بڑھیں گے اور ”ریٹ‘‘ بھی۔ لیکن اگر کارروائی ہوئی تو پھر نیب بھی حرکت میں آئے گا اور ایک ایس ایس پی کی تنخواہ کا ”پوسٹ مارٹم‘‘ بھی ہو گا۔ اورآمدن سے زیادہ اثاثے بنانے کا مقدمہ بھی درج ہو سکتا ہے۔