منتخب کردہ کالم

متبادل بیانئے کی تشکیل کیسے ہو؟ (ترازو) محمد بلال غوری

ہمارے ہاں جہاد کے نام پر فساد پھیلانے والوں کے ہاں بیانیوں کی اس قدر فراوانی اور بہتات ہے کہ وہ ہر سال ایک نیا بیانیہ متعارف کرواتے ہیں مگر ریاست اس قدر تنگدست اور مفلوک الحال ہے کہ سالہا سال کی تگ و تاز کے باوجود متبادل بیانیہ تشکیل دینے سے قاصر ہے۔ مثال کے طور پر پرویز مشرف کے دور حکومت سے اب تک پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں اور ان کے ہمدردوں نے کئی بیانئے پیش کیے اور وہ یوں ہاتھوں ہاتھ خرید لیے گئے جیسے بس میں پھکی بیچنے والا چکنی چپڑی باتوں سے لوگوں کو قائل کر لیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک دور میں ڈرون حملوں کو دہشتگردی کے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ چونکہ امریکی ڈرون حملوں میں بے گناہ قبائلی مارے جاتے ہیں اس لیے انتقام اور بدلے کی آگ ملک کو جلا کر خاکستر کیے دیتی ہے۔ جماعت اسلامی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج میں پیش پیش ہوا کرتی تھی، تحریک انصاف نے پشاور میں دھرنا دیا اور نیٹو سپلائی بند کرنے کی کوشش کی۔ رفتہ رفتہ یہ بیانیہ داخل دفتر ہو گیا اور اب یہ عالم ہے کہ چند ہفتے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں پہلا ڈرون حملہ ہوا تو دفتر خارجہ نے رسماً مذمت کرنے کا تکلف بھی گوارہ نہ کیا۔ پھر ایک نیا بیانیہ متعارف کروایا گیا کہ افغانستان میں امریکی مداخلت پاکستان میں خود کش حملوں اور بم دھماکوں کا باعث ہے‘ جب تک امریکی قابض فوج کابل سے نہیں چلی جاتی یہ سلسلہ نہیں تھمے گا۔ کسی دور میں یہ چورن بھی بیچا گیا کہ لال مسجد آپریشن کے دوران جن بچیوں کو مبینہ طور پر جلایا گیا ان کے ورثاء (حالانکہ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ یہ لاوارث بچیاں تھیں) نے ہتھیار اٹھا لیے ہیں اس لیے دہشتگردی عروج پر ہے۔ پھر ایک دور میں معجون بلیک واٹر متعارف کروائی گئی جس نے فروخت کے سابقہ ریکارڈز توڑ دیئے اور بدقسمتی سے میں بھی اس معجون کے خریداروں میں شامل ہو گیا۔ پورے وثوق کے ساتھ کہا جاتا کہ یہ جو دہشتگردی ہے، بلیک واٹر کے کمانڈوز کر رہے ہیں کسی مسلمان کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں۔ ثبوت کے طور پر خیبر پختونخوا میں مارے گئے وہ دہشتگرد پیش کیے جاتے جن کی گردن اور پشت پر ٹیٹو بنے ہوئے تھے یا پھر جن کے ختنے نہیں ہوئے تھے۔ وہ تو بھلا ہو وزیرستان میں خدمات سرانجام دینے والے ایک جرنیل کا جس نے بتایا کہ وہاں بعض قبائل ختنے کا تردد نہیں کرتے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ غیر ملکی یا غیر مسلم ہیں۔ آج بھی جب کسی بم دھماکے کے بعد رہنمائوں کی جانب سے مذمتی بیانات جاری ہوتے ہیں اور تان یہاں آ کر ٹوٹتی ہے کہ دہشتگردوں کا کوئی مذہب یا مسلک نہیں‘ کوئی مسلمان اس قدر گھنائونی حرکت کا سوچ بھی نہیں سکتا، تو میرا ہاسا نکل جاتا ہے۔ ان مذہبی رہنمائوں کی سادگی کے برعکس کڑوا سچ یہ ہے کہ دہشتگردوں کا مذہب بھی ہے اور مسلک بھی۔ بلکہ پوری بات کہی جائے تو طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ یہ دہشتگرد وہ لوگ ہیں جو نہ صرف نام نہاد مسلمان ہیں بلکہ اپنے علاوہ کسی کو مسلمان تسلیم نہیں کرتے۔
ہمارا قومی المیہ تو یہ ہے کہ جب امریکہ کی محبت میں گھائل تھے تو فوجی آپریشنز کے نام انگریزی نوعیت کے ہوا کرتے تھے جیسا کہ آپریشن جبرالٹر، آپریشن فیئر پلے، آپریشن مڈ نائٹ جیکالز۔ اب ہم عرب ممالک کے زیر اثرہیں تو فوجی آپریشن بھی ضرب عضب، آپریشن ردالفساد جیسے ناموں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ کیا خبر چند برس بعد فوجی آپریشنز کے نام بھی چینی زبان سے مستعار لیے جائیں۔ لیکن ہم اپنے ان دوستوں سے یہ کیوں نہیں سیکھتے کہ ریاستیں کیسے اپنا بیانیہ تشکیل دیا کرتی ہیں؟ دہشتگردوں کے ہمدرد ان دنوں ایک نیا بیانیہ تشکیل دینے میں مصروف ہیں کہ منبر و محراب سے ریاست کا کوئی لینا دینا نہیں‘ حالانکہ لائوڈ اسپیکرغیر ریاستی اور غیر ذمہ دار عناصر کے حوالے کرنا بندر کے ہاتھ استرا پکڑانے والی بات ہے اور اسی غلطی کا خمیازہ ہم دہشتگردی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ آپ اسلام کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، روز اول سے مساجد ریاست کے زیر انتظام رہیں۔ خلفا، گورنر اور دیگر حکومتی ذمہ داران ہی منبر سے ریاستی پالیسیاں اور ریاستی بیانیہ جاری کیا کرتے تھے۔ جب آبادی بڑھی، ریاستی ڈھانچے نے وسعت اختیار کی اور کاروبارِ حکومت کے باعث مساجد کا انتظام براہ راست چلانا ممکن نہ رہا تو حکومت کی طرف سے آئمہ کا تقرر کیا جاتا اور انہیں سرکاری خزانے سے وظیفہ دیا جاتا۔ جو بھی شخص خلافت کے منصب پر سرفراز ہوتا اس کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا۔ آج بھی تمام عرب ممالک میں یہی نظام رائج ہے۔ یہاں تک کہ امام کعبہ بھی سعودی حکومت کا تنخواہ دار ملازم ہوتا ہے اور خطبہ حج میں کوئی ایسی بات نہیں کہی جا سکتی جو ریاستی پالیسی سے متصادم ہو۔ تمام عرب ممالک میں موذن اور امام مسجد کا تقرر حکومت کرتی ہے اور وزارت مذہبی امور کی طرف سے منظوری کے بغیر کوئی خطبہ یا وعظ نہیں دیا جا سکتا۔ مگر ہمارے ہاں کروڑوں مساجد اور لاکھوں مدارس میں مسالک کے علمبرداروں کو اپنی مرضی کے بیانئے کا پرچار کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ فتوے جاری کرنے اور نفرتیں پھیلانے پر کوئی قدغن نہیں۔ انتہا پسندی کا درس دینے پر کوئی پابندی نہیں تو مذہب کی آڑ میں جہاد کے نام پر فساد پھیلانے والوں پر تعجب کیسا؟ یہی وجہ ہے کہ شرار بولہبی چراغ مصطفویﷺ لے کر زمانے بھر میں آگ لگاتی پھرتی ہے اور اسلام جو امن و آشتی کا مذہب ہے‘ مگر ان نام نہاد مذہبی جہادیوں کی وجہ سے اسے دہشتگردی کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔
سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر چند روز قبل وزیر اعظم نواز شریف نے متبادل بیانئے سے متعلق جس جرات مندی اور بیباکی سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا ،اس کی داد نہ دینا بددیانتی ہو گی۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ دہشتگردی اسی انتہا پسندی کی کوکھ سے جنم لے رہی ہے جو ہمارے معاشرے میں جابجا موجود ہے۔ ہماری دینی درسگاہیں اسلام کے علمبردار نہیں بلکہ مسالک کے ٹھیکیدار پیدا کر رہی ہیں۔ دہشتگردوں کا مذہب بھی اور مسلک بھی۔ یہ کہنا کہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ایسا ہی ہے جیسے کوئی قاتل درندگی کی سب حدیں پار کرتے ہوئے مقولین کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے اور ہم یہ کہ کر اس کے جرم کی سنگینی کم کرنے کی کوشش کریں کہ وہ توکوئی نفسیاتی مریض ہے ورنہ کوئی صحیح الدماغ شخص ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ دہشگردوں کے بیانئے کو جھٹلانا ہے اور اسلام کا حقیقی بیانیہ سامنے لانا ہے تو ان فتویٰ بازوں سے مائیک واپس لینا ہو گا۔ جب تک ملکی دفاع اور مذہب کی تشریح و تعبیر کی نجکاری کا سلسلہ ترک نہیں کیا جاتا، ریاست متبادل بیانیہ متشکل نہیں کر پائے گی۔