متبادل قیادت۔متحدہ مجلس عمل….امیر العظیم
متحدہ مجلس عمل جب سے بحال ہوئی ہے بعض حلقوں میں پرانے اعتراضات پھر سے گردش کرنے لگے ہیں ۔ یہ اعتراضات اس تواترسے پھیلائے جارہے ہیں کہ ان کی حیثیت غلط العام کی سی ہوگئی ہے۔ پہلا اعتراض یہ ہے کہ دینی جماعتیں ویسے تو اکٹھی نہیں ہوتیں لیکن سیاست کیلئے اکٹھی ہوگئی ہیں حالانکہ پاکستان کی تاریخ شاہدہے کہ علماء اکرام با ر بار اکٹھے ہوتے رہے ہیں ۔ پاکستان بننے کے بعد انگریز کی تربیت یافتہ بیورو کریسی نے دستور پاکستان کے حوالے سے شوشہ چھوڑ ا کہ دستور تو دستور ہوتا ہے اسکا نظریہ سے کیا تعلق؟ دوسرا یہ کہ کونسا اسلام، شیعہ ، سنی ، بریلوی یادیوبندی اسلام؟ اس سازش کا توڑ کرنے کیلئے مشرقی اور مغربی پاکستان کے 36علماء اکرام اکٹھے ہوئے اور 22متفقہ نکات پر مشتمل قرار دادمقاصد تیار کردی ۔ جو آج بھی ہمارے دستور میںدیپابچہ کی صورت میں موجود ہے لیکن اس قرارداد کو فنکشنل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اسمبلی میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہوں جو اسلام سے مخلص ہوں جنکا ایمان پختہ ہواور جو اپنے حلقے کے عوام کو جوابدہ بھی ہوں ۔
اسی طرح قارئین کویاد ہوگا کہ عقیدہ ختم نبوت پرجب بھی کسی نے شب خون مارنے کی کوشش کی تودینی جماعتوں نے اکٹھے ہوکر اسکا مقابلہ کیا ۔ اس مقصد کیلئے سڑکوںپر اکٹھے رہے اور جیلوں میں اکٹھے گئے ۔سید ابوالاعلی
مودودی اور مولانا عبدالستار نیازی کو اکٹھے پھانسی کی سزا بھی سنائی گئی ۔
پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کیلئے ڈھاکہ میں بھارتی فوج کا مقابلہ کرنا پڑا، پرانے صوبہ سرحد میں سرخ سامراج کا راستہ روکنا پڑا یا کشمیری عوام کیلئے آواز اٹھانی پڑی تو دینی جماعتوں نے اپنی استعداد کی حد تک باہمی تعاون سے اپنا کام کیا۔ایوب خان کی آمریت عائلی قوانین ،قصاص و دیت کا قانون وویمن پروٹیکشن بل اسلامی دفعات کیساتھ چھیڑ چھاڑ کی کوشش اور سود کے حوالے سے آئینی و قانونی جنگ میں دینی جماعتیں بار بار مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرتی رہی ہیں ۔ایک اعتراض یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ دینی جماعتوں کے ساتھ چلنے والوں کو امور مملکت کا کیا پتہ ۔ یہ کار حکومت کہاں چلا سکیں گے۔ یہ اندیشہ دینی جماعتوں کے ظاہری حلیوں کو دیکھ کر پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرہ میں چند لوگ اپنے محلات، رنگ برنگی گاڑیوں امپورٹڈ سوٹوں ٹائیوں اور ہر ماہ دبئی۔ لندن اور امریکہ کے دوروں کی چمک دمک سے یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہم بڑے پڑھے لکھے اور با صلاحیت ہیں لیکن اگر ایسا ہوتا تو پاکستان کی صنعتیں بند نہ ہوتیں، قرضے نہ چڑھتے اور بیروز گاری کا جن بے قابو نہ ہوتا، در حقیقت پیسے کے بل بوتے پر بڑے بڑے فلیکس، اخباری سپلیمنٹ اور ٹیلیویژن کاکثیر وقت خریدکر پراپیگنڈا کا طوفان اٹھانے میں یہ اشتہاری سیاہ کو سفید کرنے کے ماہر ہیں۔اسکے مقابلے میں دینی جماعتوں کے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت وہ سارا کام کرتے ہیں جو حکومتوں کے کرنے کا ہوتاہے اسکول، کالج، اسپتال، بلڈبینک، دستکاری مراکز، واٹر فلٹر پلانٹ، سیلاب اور زلزلے پر امدادی سرگرمیاںحتیٰ کہ یہ جماعتیں کشمیر، افغانستان سمیت ہر معاملہ پر غیر ملکی حکومتوں کیساتھ مکالموں اور مذاکرات کی تاریخ بھی رکھتی ہیں ۔
راقم الحروف کو گزشتہ تین عشروں سے دینی قیادتوں کے ساتھ کام کا موقع ملا ہے ۔راقم نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا اور کوٹ لکھپت جیل سے ایم اے پولیٹیکل سائنس ۔ان قائدین کے قریب ہوا تو انکشاف ہوا کہ ایم ایم اے کے پہلے صدر مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم درس نظامی کے علاوہ الہ آباد یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں ۔ وہ عربی، فارسی، انگریزی، سواحلی اور فرانسیسی زبانیں بڑی روانی سے بولتے تھے ۔ انہوں نے سادہ سے فلیٹ میں ساری زندگی گزاردی ۔ ایم ایم اے کے دوسرے صدر قاضی حسین احمد جغرافیہ میں ایم ایس سی تھے ۔ پٹھان ہوتے ہوئے اردواس طرح بولتے کہ کراچی والے بھی حیران ہوتے ۔ انگریزی اور فارسی میں تقاریربڑی آسانی سے کرلیتے ۔ چیمبر آف کامرس صوبہ سرحد کے نائب صدر بھی منتخب ہوئے معیشت اور بین الااقوامی امورکے ماہرین میں سے تھے ۔ ایم ایم اے کے موجودہ صدرمولانا فصل الرحمن زیرک سیاستدان ہیں ۔ ایک بڑے حلقے میں انہیں متنازعہ بنانے کی بھر پور کوشش کی گئی جو اب بھی جاری ہے ۔ ان کیخلاف پروپیگنڈہ اس وقت سے شروع ہوا جب وہ وزیراعظم کے امیدوار بنے اورکچھ ووٹ سے رہ گئے۔ اگر مولانا کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو شاید انہیں بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ 1980ءمیں انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تو اسی سال بلوچستان سے مارشل لاء کے تحت صوبہ بدر ہوئے ۔1981ءمیں گرفتار ہوئے، 1982ءمیں 3ماہ کیلئے گھر پر نظر بند ہوئے ، 1984ء میں پھر گرفتار ہوئے۔ 1985ءمیں غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔جنرل ضیاالحق کیخلاف ایم آر ڈی کا ساتھ دیا۔ 1988ء کے الیکشن میں کامیاب ہوئے۔ بینظیر بھٹو سے مذاکرات کے بعد نوابزدہ نصراللہ خان کو صدر بنانے کی کوشش میں انکے تجویر کنندہ بن گئے لیکن بے نظیر نے یو ٹرن لیکر غلام اسحاق خان کو صدر بنا لیا اور نوابزدہ نصر اللہ خان اور ان کے تجویز اور تائید کنند گان کو شرمندہ کر دیا ۔
اسی طرح کا ایک یو ٹرن میاں نواز شریف نے بھی لیا تھا جسکے باعث ایم ایم اے منجمند ہو گیا تھا۔ اپوزیشن نے اعلان کیا کہ جنرل مشرف جانے والی اسمبلیوں سے غیر آئینی طور پر پانچ سال کیلئے صدر بننے کا اعلان کرا چکے ہیں ہم اس الیکشن کو نہیں مانتے لہٰذا بائیکاٹ کر دیا گیا۔ رائے عامہ کے جائزوں ، ٹیلیویژن اور اخبارات کی کوریج کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ 25جولائی کو کتاب ایک متبادل قوت کے طور پر ابھر رہی ہے۔ بلوچستان اور کے پی میں کتاب کے بغیر کوئی حکومت نہیں بن سکے گی۔قومی اسمبلی میں کوئی ترمیم اور قانون سازی کتاب کے بغیر نہیں ہو سکے گی۔ انتخابات کے بعد سب کا احتساب کرناہو گا۔ پاکستان کی سیاست سے سارے کرپٹ اور اشتہاری لوگوں کو نکالنا پڑیگا۔ ملک کا بڑا وقت ضائع ہو چکا ہے۔ان حالات میں با کردار قیاد ت اور اسلامی پاکستان ہی ہمارے خوشحال مستقبل کی ضمانت ہیں۔