عشرت چوہدری
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ ایک دوسرے کی جارح حریف سمجھی جانے والی سیاسی جماعتوں کے قائد قومی استحکام اور ملکی دفاع کے لیے وزیراعظم میاں نواز شریف کی دعوت پر اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قومی یکجہتی کی منزل کی جانب گامزن ہوں۔ یقیناًیہ جمہوریت کا ثمرہ ہے۔ جمہوریت میں مکالمے اور مزاکرات کا در کسی طور بند نہیں ہوتا۔ اختلافات کی دیوار یں کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو جائیں مکالمے کا دریچہ وارہتا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے جاری پاک بھارت کشیدگی اور کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال نے پاکستانی سیاسی جماعتوں کو متحد کر دیا۔ بھارتی جارحیت کا ایک طرف تو پاکستان آرمی نے منہ توڑ جواب دیا اور دوسری جانب سیاسی جماعتوں کا اتحاد دراصل بھارت کے لیے مُکے کی حیثیت رکھتا ہے۔ پیر کے روز اسلام آباد میں وزیراعظم کی دعوت پر پارلیمانی رہنماؤں کی اے پی سی کا نعقاد ہوا۔ حالیہ پاک بھارت کشیدی سے کچھ عرصہ قبل حکومتی اور اپوزیشن کیمپوں سے ایک دوسرے کے خلاف بیان جاری کا گرما گرم سلسلہ جاری تھا ۔ لیکن ملکی دفاع کی خاطر حکومت کا تمام پارلیمانی رہنماؤں کو دعوت دینا اور اس کے جواب میں رہنماؤں کا دعوت قبول کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ ملکی دفاع اور وقار کی خاطر ہم سب ایک ہیں ہماری باہمی اختلافات کی ملکی سلامتی کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ کوئی ہمارے وطن کی جانب میلی آنکھ سے دیکھے۔
وزیراعظم پاکستان نے اجلاس سے قبل خود تمام پارلیمانی رہنماؤں کا استقبال کیا ان سے مصاحفہ کیا اور پھر تمام رہنماؤں نے ملکر ملکی سلامتی، دفاع اور کشمیر میں جاری بھارتی جارحیت پر بات چیت کی۔ وزیراعظم نواز شریف نے جلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے معاملے پر قوم متحد ہے۔
برہان والی کی شہادت کے بعد مسئلہ کشمیر فلیش پوائنٹ بن گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ آج کے اجلاس سے ملکی سیاسی قیادت کی جانب سے واضح پیغام جانے جائے گا، وقت آگیا ہے اقوام عالم مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرے۔ پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت متحد ہے۔ اجلاس میں شریک سیاسی قیادت مسئلہ کشمیر پر ایک صفحے پر نظر آئی اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظام ، کنڑول لائن پر بھارتی جارحیت اور پاک بھارت کشیدگی پر حکمت عملی بنانے پر غور کیا گیا۔
اجلاس کے اختتام پر تمام جماعتوں کے اتفاق رائے سے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں نہ صرف کشمیری اعوام کے جودجہد آزادی کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا بلکہ یہ بھی طے کیا گیا کہ عالمی سطحپر کشمیری ، عوام کے برحق موقف کو واضح کرنے میں سفارتی سرگرمیاں کو ذیادہ زوروشور کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا۔
تین صفحوں پر مشتمل اعلامیے میں بھارت کے اس دعوے کی سختی سے تردید کی گئی کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے۔ قوم اتحاد کے جذبے اور شعور کا بھر پور اظہار کرتے ہوئے کیا گیا کہ تمام سیاسی جماعتیں اور فوج کشمیری اعوام کے حق خودارادی کے لیے متحد ہیں۔ اور یہ کہ ہم بھارتی سرجیکل سٹرائک کے بھارتی دعوے مسترد کرتے ہیں۔ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کی سختی سے مذمت کی گئی۔ بلوچستان کا کشمیر کے ستھ کوئی موزنہ نہیں۔ اور بھارت کو خبردار کیا گیا کہ سندھ طاس منصوبے کی خلاف ورزی اعلان جنگ متصور ہوگی۔ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے بھارتی ہتھکنڈے کی مذمت کی گئی۔ اعلامیے میں اہم فیصلہ یہ کیا گیا کہ پارلیمنٹ کی قومی سلامتی یا نگران کمیٹی دوبارہ وجود میں لائی جائے گی۔
اجلاس کے شرکانے بلوشستان میں بھارتی مداخلت کی مذمت کی اور کہا کہ بلوچستان خود مختار
ٍ پاکستان کا حصہ ہے پاکستان میں بھارت کی جانب سے سارک کانفرس میں شرکت نہ کرنا افسوس ناک ہے۔
مشترکہ اعلامیہ درحقیت اعوامی اُمنگوں کا عکس ہے۔ پاکستانی اعوام نے ہر شہر میں بھارتی جارحیت کے خلاف مظاہرے کرکے ثابت کر دیا کہ ہم اپنے وطن کی حفاظت کے لیے متحد ہیں۔ سیاسی و ملٹری رہنما اس سلسلے میں ایک صفحے پر ہیں۔ باہمی اختلافات کسی صورت بھی دفاع کے آڑے نہیں آ سکتے ۔
وزریراعظم نواز شریف نے اے پی سی کا اجلاس بُلا کر بڑی فہم و فراست کا مظاہرہ کیا اور اپنی وسیع انظری سے دشمن پر ثابت کر دیا کہ پاکستانی قوم متحدہے۔ سیاسی رہنماؤں کا اجلاس میں تبادلہ خیال بھی اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ سیاسی اختلافات کسی بھی ملکی دفاع کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتے۔ اب جبکہ ہم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو چکے ہیں تو ہمیں چائیے کہ اس اتحاد کو قائم رکھا جانے اور اعلامیے میں جاری تمام عزائم کو عملی جامہ پہنایا جانے اسی صورت میں ہی دشمن کے حوصلے پست ہو سکیں گے۔
اس کے علاوہ ہمیں سفارتی سطح پر مزید جدوجہد کی ضرورت ہے جس کے زریعے مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کیا جاسکتا ہے اور بھارت کا گھناؤنا روپ پورے عالم پر آشکار کیا جاسکتا ہے۔ سفارتی محاز پر بھی تمام سیاسی رہنماؤں کو یکجا ہوکر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔