وضاحت:ہمارے ایک کرم فرما معتبر ومستند صحافی وکالم نگار جناب سہیل وڑائچ نے لکھا :”محترمہ بشریٰ بی بی نے جناب عمران خان سے مفتی منیب الرحمن کی ملاقات کرائی‘ جو تین گھنٹے جاری رہی ‘‘بعد میں یہی بات جنابِ جنرل (ر) اسلم بیگ نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھی۔یہ دونوں حضرات نہایت ثقہ ہیں ‘ ہوسکتا ہے جس کے ذریعے اُن تک یہ خبرپہنچی ہے‘ وہ ثقہ نہ ہو ‘لوگ اپنی خواہشات پر مبنی خبریں بھی بنا لیتے ہیں ۔ان دونوں حضرات سے معذرت کے ساتھ حقیقت یہ ہے کہ یہ خبر درست نہیں ہے۔جنابِ عمران خان کی شادی کے بعد اور پوری انتخابی مہم کے دوران میری اُن سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ایک بالواسطہ پیغام ملا تھا کہ میں تحریکِ لبیک پاکستان کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی اور امیر دعوت اسلامی مولانا محمد الیاس قادری عطاری سے اُن کی ملاقات کا اہتمام کروں ‘ لیکن میں نے معذرت کردی‘ کیونکہ یہ دونوں حضرات بالترتیب لاہور اور کراچی میں رہائش پذیر ہیں اور دونوں مقامات پر پی ٹی آئی کی مؤثر تنظیم موجود ہے‘لہٰذا پی ٹی آئی کی مقامی تنظیم کابراہِ راست ان حضرات سے رابطہ کرنا مفید ہے۔مزید یہ کہ تحریکِ لبیک پاکستان اور دعوتِ اسلامی کے تنظیمی معاملات سے میراکوئی تعلق نہیں۔میں نے خود بھی ملاقات سے اس لیے معذرت کی کہ انتخابی مہم کی گہما گہمی میں سنجیدہ تبادلہ خیال کرنے کا موقع نہیں ہوتا۔میرا گمان ہے کہ جناب عمران خان نے‘ اُن صاحب کو مجھ سے رابطے کے لیے نہیں کہا ہوگا‘ بعض حضرات اپنے ممدوح کی خیرخواہی کے لیے ازخوداس طرح کے اقدامات کرتے رہتے ہیں۔میں اتنا اہم آدمی نہیں ہوں کہ جنابِ عمران خان اپنی بھرپور انتخابی مہم کے دوران مجھ سے ملاقات کے لیے وقت نکال سکیں۔
میرا کام اپنی ذاتی حیثیت میں ان حضرات کے ہر اچھے کام کی حوصلہ افزائی اورغلطیوں کی نشاندہی کرنا ہے‘سواس کارِ خیر کے لیے بالمشافہ ملاقاتیں یا براہِ راست ٹیلی فونک رابطے ضروری نہیں ہیں۔میں اپنی رائے کالم میں لکھ دیتا ہوں ‘ اس پر توجہ دینا اورردّو قبول اُن کی اپنی صوابدید ہے۔میں نہ تو مشورہ قبول کرنے پر عُجبِ نفس میں مبتلا ہوتا ہوں اور نہ رد کرنے پرُ ملال ہوتا ہے‘ امام احمد رضا قادری نے لکھا ہے:
نہ مرا گوش بمدحے نہ مرا ہوش ذَمے
جزمن و چند کتابے و دوات و قلمے
ترجمہ:” میں نہ تو اپنی تعریف کرنے والوں کی ستائش کی پرواہ کرتا ہوںاورنہ مجھے کسی کے طعن سے رنج ہوتا ہے‘ نہ میں اپنی مدح وستائش پر توجہ دیتا ہوںاورنہ ہی مجھے کسی کی مذمت کی فکر ہے ‘میں ہوں اور گوشۂ تنہائی ہے کہ اُس میں میرے علاوہ چند کتابوں اور دوات وقلم کے سوا کسی اور کی گنجائش ہی نہیں ہے ‘‘۔
ہمارے مشورے دیگر کالم نگاروں کی طرح بن مانگے کے ہوتے ہیں ‘لیکن اگر کوئی مشورہ مانگ لے تو مُستشار (جس سے مشورہ مانگا جائے)کی شرعی واخلاقی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ دیانت واخلاص پر مبنی مشورہ دے تاکہ مشورہ مانگنے والے فریق کو کوئی نقصان نہ پہنچے‘ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جس سے مشورہ مانگا جائے ‘وہ امین ہوتا ہے‘(سنن ترمذی:2822)‘‘اورمشورہ مانگنے والے پر لازم نہیں ہوتا کہ وہ مشورے پر عمل کرے ‘مشورے کو قبول کرنا اُس کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے۔حضرت بَرِیرہ ‘باندی تھیں اور اُن کے شوہر مُغِیث غلام تھے ‘یہ دونوں رشتۂ ازدواج میں منسلک تھے کہ حضرت بریرہ کو آزادی مل گئی اور انہوں نے ”خیارِ عتق‘‘ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو مُغیث کے نکاح سے آزاد کردیا ۔حضرت مُغیث اُن کی محبت میں فریفتہ تھے ‘اُن کے پیچھے پھرتے اور روتے رہتے ‘ اُن کے ڈاڑھی آنسو سے تر رہتی ۔نبی کریم ﷺ نے حضرت عباسؓ سے فرمایا: ” اے عباس! کیا تمہیں مُغیث کی بَریرہ سے محبت اوربَریرہ کی مُغیث سے نفرت پر تعجب نہیں ہوتا‘‘پھر نبی ﷺ نے (بَریرہ سے)فرمایا: ”کاش تم اُس سے رجوع کرلیتیں ‘‘بَریرہ نے عرض کیا: ”یارسول اللہ!کیا آپ مجھے حکم فرمارہے ہیں ؟‘‘۔آپ ﷺ نے فرمایا:” میں تو صرف سفارش کر رہا ہوں‘‘۔ حضرت بَریرہ نے عرض کیا:”مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں ‘‘ (صحیح البخاری:5283)۔اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ جسے حکم دینے کا اختیار ہو‘اُس کے حکم پر عمل کرنا ضروری ہے ‘لیکن اُس کے مشورے کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرناہرحال میں ضروری نہیں ہے ‘ یہ مشورہ لینے والے کی صوابدید پر منحصر ہے ‘کیونکہ مشورے پر عمل کرنے کی صورت میں اچھے یا برے نتائج کا اُسی کوسامنا کرنا ہوتا ہے۔الغرض ‘نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کے لیے آسانیاں پیدا فرمائی ہیں۔
میری جناب عمران خان سے اگست 2016ء میں صرف ایک ملاقات ہوئی تھی ‘جس میں ہمارے دو مشترکہ دوست اور جناب شاہ محمود قریشی موجود تھے ‘بعض سیاسی امور پر بات ہوئی اور جنابِ خان نے توجہ سے سنی ‘لیکن نفی یا اثبات میں کوئی ردِ عمل نہیں دیا۔ اس ملاقات کے محرک بھی ہمارے ایک مشترکہ دوست تھے اور یہ خیرخواہی پر مبنی تھی ‘ تشہیر کے لیے نہیں تھی ‘ اس لیے میں نے گزارش کی تھی کہ اسے پس ِ پردہ رکھا جائے۔اب جنابِ عمران خان چند روز میں وزیر اعظم کا حلف اٹھانے والے ہیں ‘یہ اُن کی اپنی طویل سیاسی جدوجہد کا ثمر ہے۔‘ اس میں اُن کی طویل جدوجہد‘بوجوہ حالات کی سازگاری اور اُن کے مخالفین کی اپنی بے تدبیریوں اور کمزوریوں کا عنصر بھی شامل ہے ۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اچھی بصیرت اوراچھے فیصلے کرنے کی اہلیت نصیب فرمائے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق سے نوازے‘ تاکہ ہمارا وطن ِ عزیز سیاسی و معاشی عدمِ استحکام اور انتشار کی فضا سے نکلے ‘ اغیار پر انحصارختم ہو اور ملک خود کفالت کی راہ پر چل پڑے ۔ کرپشن کے خلاف بے لاگ اور شفاف احتساب لمحہ موجودمیں ملک وقوم کی ضرورت ہے‘ لیکن انتقام اور احتساب میں فرق واضح نظر آنا چاہیے ۔ بعض لوگوں نے مشورہ دیا ہے کہ جنوبی افریقا کے رہنما نیلسن منڈیلا کی طرز پر عفوعام اور غلطیوں کے اعتراف کے ساتھ نئی شروعات ہونی چاہئیں ۔پی ٹی آئی کے ساتھی و ترجمان شیخ رشید صاحب نے کہا ہے کہ کوئی این آر او نہیں ہوگا‘یہ اچھی بات ہے‘لیکن احتساب وانصاف ایسا شفاف ہوکہ کوئی اس پر انگلی نہ اٹھائے‘اب تک جو ہوا ہے ‘اس میں بظاہرسب کے ساتھ یکساں برتائو ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔باقی ‘حقیقت ِحال تو صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔
خان صاحب کا اپنا وژن ہے ‘اُن کی اپنی جماعت ہے اور ماہرین کی خدمات بھی یقینا انہیں دستیاب ہوں گی ۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ میں سوشل میڈیا استعمال نہیں کرتا ‘لیکن لوگ بتاتے ہیں کہ اُن کے بعض قابل اعتراض جملے سوشل میڈیا پر موجود ہیں ‘ اگر ان جملوں کا ان کی طرف انتساب غلط ہے ‘تو یہ بہتان والزام ہے اور وہ اس سے بری ہیں ‘لیکن اگر یہ انتساب درست ہے‘ تو اپنی حُسن ِعاقبت کے لیے انہیں ان جملوں پر اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنی چاہیے ‘اُن کے مقرّبین اور ہم نشین ‘انہیں اس جانب متوجہ کریں ‘تو یہ اُن کی حقیقی خیرخواہی ہوگی۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جنابِ شاہ محمود قریشی کے منہ سے بے احتیاطی میں کچھ جملے نکلے ‘ لیکن انہوں نے متوجہ کرنے پر فوراً توبہ کرلی اور معاملہ وہیں ختم ہوگیا‘جن حضرات نے اس جانب متوجہ کیا ‘وہ بھی عند اللہ اجر کے حق دار ہیں ۔
مسلم ممالک میں اضطراب:گزشتہ کچھ عرصے سے مسلم ممالک میں عوامی اضطراب کی لہر اٹھ رہی ہے۔کئی دن تک عراق کے شہروں بصرہ اور نجف میں مظاہرے ہوتے رہے ‘ہوائی اڈے بند رہے اور پروازیں معطل رہیں ‘اسی طرح ایران میں بھی وقفے وقفے سے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے ‘اس کے نتیجے میں نظام پر جو تقدیس کا ہالہ تھا‘اس کی چمک ماند پڑ رہی ہے ‘لوگ خوف کی کیفیت سے نکل رہے ہیں ۔مسلسل جنگوں کے سبب ان ممالک کی معیشت کمزور ہورہی ہے ‘ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے‘ایک امریکی ڈالر کے عوض تینتالیس ہزار ایرانی تومان مل رہے ہیں ۔مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب اورایران میں حلقۂ اثر کے پھیلائو کی سرد جنگ جاری ہے۔قطر بھی حصار میں ہے ‘لیکن بحیثیت مجموعی عوام کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے ۔ہمارے میڈیا میں کبھی کوئی ٹِکر چل جاتا ہے‘لیکن حالات کے بارے میں پوری رپورٹنگ نہیں ہورہی‘سعودی عرب میں بھی زیر زمیں ارتعاش موجود ہے۔حال ہی میں سعودی حکومت نے حقوقِ انسانی کے کارندوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع کی ہیں ‘ امریکہ سعودی اقدام کی پشت پناہی حوصلہ افزائی کر رہا ہے ۔ سعودی عرب میں متعین کینیڈین سفیر نے مذمتی بیان جاری کیا ‘تو سعودی حکومت نے چوبیس گھنٹے میں اُسے ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ‘ پھروینکورمیں کینیڈین وزیر خارجہ نے کہا: ”ہم حقوقِ انسانی اور حقوقِ نسواں کے فعال کارکنوں کی حوصلہ افزائی اوراُن کے خلاف اِقدامات کی مذمت کرتے رہیں گے‘‘۔اس کے جواب میں سعودی عرب نے اعلان کیا کہ سرکاری وظائف پر کینیڈا کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات اور ان کے خاندانوں کے سات ہزار افراد کو ہم واپس بلا کربرطانیہ اور امریکہ کے تعلیمی اداروں میں داخل کریں گے۔سعودی حکام نے کینیڈا کے ساتھ فضائی پروازوں کو بھی معطل کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ صدر ٹرمپ‘ کنیڈین وزیر اعظم سے خوش نہیں ہیں‘ اس لیے انہوں نے کہا:ہم سعودی کنیڈین تعلقات بہتر بنانے میں کردار ادا نہیں کریں گے ‘وہ خود اپنے معاملات کو بہتر بنائیں ۔ سعودی کنیڈین تجارت کا حجم تیرہ ارب ریال بتایا جاتا ہے۔‘سعودیہ میں کنیڈا کی سرمایہ کاری بھی ہے اوردفاعی سامان کی خریداری کے معاہدات بھی ہیں۔ گزشتہ دنوں معلوم ہوا کہ کنیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو معاملات کو سلجھانا چاہتے ہیں اور سعودیہ کے ساتھ ان کا مکالمہ شروع ہوچکا ہے‘لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ حقوقِ انسانی اور حقوقِ نسواں کے حوالے سے وہ اپنی پالیسی پر قائم رہیں گے‘ یعنی سعودیہ کے آگے سر نگوں نہیں ہوں گے‘ جبکہ سعودی حکام نے بتایا کہ وہ کینیڈا کو تیل کی سپلائی جاری رکھیں گے۔سعودی عرب اپنے معاشی استحکام کے باوجود پہلی بار مشکلات میں گھرا ہے