متفرقات…مفتی منیب الرحمٰن
جنابِ اطہر ہاشمی کا شکریہ:
حیدر علی آتش کا شعر ہے:
لگے منہ بھی چڑھانے، دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجے دہن بگڑا
اس شعر سے استفادہ کرتے ہوئے جنابِ اطہر ہاشمی نے ایک جریدے میں اپنے کالم کا عنوان باندھا ہے:”خبر لیجے زباں بگڑی‘‘، اس میں وہ زبان وبیان کی اصلاح کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔دورِ حاضر میں اردو زبان کے تحفظ کے لیے یہ وقت کی ضرورت ہے ،کاش کہ ہماری جامعات میں شعبۂ اردو کے اساتذہ وطلبہ اور صحافت سے وابستہ لوگ اس سے استفادہ کریں ۔ ”خبر لیجیے زباں بگڑی‘‘ میرا پسندیدہ کالم ہے اور جب بھی دستیاب ہوتا ہے، تو سب سے پہلے یہی کالم پڑھتا ہوں ،کیونکہ ہم طالبِ علم ہیں اور صاحبانِ علم سے جو بھی علمی توشہ ملے اُسے غنیمت سمجھتے ہیں اور اُن کے لیے دعا کرتے ہیں ، زبان وبیان کی اصلاح میرا بھی پسندیدہ موضوع ہے ،لیکن میں اس شعبے کا مبتدی ہوں ،مُتَخَصِّص نہیں ہوں، جبکہ جنابِ اطہر ہاشمی ماشاء اللہ! مُتَخَصِّص ہیں ، انہوں نے مجھے بھی قابلِ اصلاح سمجھا ،اُن کا بارِ دگر شکریہ ،وہ لکھتے ہیں:
”لیکن 2جولائی کو حضرتِ مفتی منیب الرحمن کا مضمون اردوان کی کامیابی پر شائع ہوا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں: ”ترکی میں تبدیلی کے آثار دیدہ کور کے علاوہ سب کو نظر آتے ہیں‘‘۔ حضرتِ علامہ کو اردو کیا، عربی، فارسی پر بھی کامل عبور ہے، انہیں یہ فرق ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے تھا۔ ان کے مذکورہ جملے کا مطلب ہے کہ دیدہ کور سمیت سب کو نظر آرہا ہے۔ اگر نظر آرہا ہے تو دیدہ کور یعنی اندھا کیسے ہوا؟ شاعر تو کہتا ہے کہ دیدہ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے۔ یہاں علاوہ کی جگہ سوا ہونا چاہیے تھا۔لیکن بڑے بڑے علماء کے سامنے ہماری کیا بساط،ایک مفتی تو سند ہوتا ہے‘‘۔
جنابِ اطہر ہاشمی کا تبصرہ درست ہے ،مجھے یوں لکھنا چاہیے تھا: ”ترکی میں تبدیلی کے آثار دیدۂ کور کے سوا سب کو نظر آتے ہیں‘‘۔بعض الفاظ شروع سے زبان پہ چڑھے ہوتے ہیں ،اس لیے معنی سے صرفِ نظر ہوجاتا ہے ،آئندہ اس کا خیال رکھیں گے۔ انہوں نے ایک اور شمارے میں مزید لکھا:”مفتی منیب الرحمن بلاشبہ بہت بڑے عالم ہیں اور اردو ہی کیا عربی، فارسی پر بھی کامل عبور ہے۔ ایک بڑے مدرسے کے پرنسپل ہونے کے ناتے پروفیسر بھی کہلاتے ہیں۔ ان کی تفہیم المسائل کے عنوان سے کئی جلدوں میں بڑی معرکہ آرا (معرکۃ الآرا نہیں)تصنیف ہے۔ ہم نے اس سے بہت استفادہ کیا ہے۔ تفہیم المسائل (جلد نمبر9) میں انہوں نے کئی جگہ” علائو الدین‘‘ لکھا ہے۔ اسے کمپوزنگ یا کتابت کی غلطی نہیں کہا جاسکتا۔ ویسے بھی ایسی علمی اور دینی کتابوں کی پروف ریڈنگ بہت احتیاط سے کی جاتی ہے۔ محترم مفتی منیب الرحمن رویتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں، ان کے فتوے پر ہم رمضان کا آغاز کرتے اور عید مناتے ہیں۔ اب اگر وہ علاء الدین کو علائو الدین لکھیں تو اسے فتویٰ سمجھ لینا چاہیے اور جن لوگوں پر ہم نے اعتراض کیا اُن سے معذرت کرلینی چاہیے۔لیکن ایک معاملہ اور ہے جس میں معذرت کی گنجائش نہیں۔6ستمبر کو حضرت مفتی صاحب کا ایک مضمون جدید فلاحی ریاست کے موسّس کے عنوان سے شائع ہوا ہے، اس میں وہ لکھتے ہیں:”ارشادِ رسولﷺ ہے:اے اللہ ازراہِ کرم ابوجہل بن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کو غلبہ، قوت اور طاقت عطا فرما‘‘۔ ان جملوں کو ارشادِ رسولﷺ کہا گیا ہے جو نہ صرف غلط ہے ،بلکہ رسول اکرم ﷺ نے اپنے سے کوئی غلط بات یا جملہ منسوب کرنے پر سرزنش فرمائی ہے۔ مفتی منیب سے زیادہ اور کون اس بات سے واقف ہوگا۔ انہوں نے عمر بن ہشام کا نام ہی بدل دیا۔ ابوجہل اس کا نام نہیں تھا، بلکہ اس کی جہالت کی وجہ سے اسے یہ لقب ملا تھا۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا تھا :عمر بن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے، یعنی دو عمر میں سے کسی ایک کو اسلام کے لیے باعثِ قوت بنا اور اللہ کریم نے عمر ؓبن خطاب کو یہ اعزاز عطا فرمایا۔ اسی لیے سیدنا عمرؓ کو دعائے رسولؐ بھی کہا جاتا ہے۔یاد رہے کہ ابوجہل یعنی جہل والا ان معنوں میں جاہل نہیں تھا جو عام ہیں، یعنی ناخواندہ۔ وہ قریش کے چند خواندہ لوگوں میں سے تھا اور ابوالحِکَم کہلاتا تھا۔ جَہالت (ج بالفتح)کا مطلب ناواقفیت، بے وقوفی، اجڈ پن بھی ہے۔ لغات کے مطابق جہل اور جاہل اس کو بھی کہتے ہیں جو جانتے ہوئے بھی سچ کا اقرار نہ کرے اور اپنی ضد پر اڑا رہے۔ ابوجہل کو خوب معلوم تھا کہ حق کیا ہے، لیکن اس کے تکبر نے اسے عمر بن ہشام سے ابوجہل بنادیا، اللہ تعالیٰ نے عمرؓبن خطاب کو فضیلت عطا کرنی تھی، سو وہ ایمان لے آئے‘‘۔
میرے لیے باعثِ حیرت ہے کہ کالم میں سنن ترمذی کی حدیث کا باقاعدہ حوالہ موجود ہے ،تو جنابِ ہاشمی نے کیسے کہہ دیا : ”(کہ یہ ایسی غلطی ہے )جس پر معذرت کی گنجائش نہیں ہے ‘‘، حضورِ والا! یہ غلطی نہیں ہے ، یہ سو فیصد درست ہے اور حدیثِ مبارک میں یہ کلمات موجود ہیں ،آپ نے اصل ماخذ کی طرف رجوع کیے بغیر اپنے حافظے پر اعتماد کرتے ہوئے اسے غلط کہہ دیا اور اس پر ایک طرح سے وعید کا حوالہ بھی دے دیا ،نہایت ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ آپ اس تبصرے سے رجوع فرمائیں۔
جنابِ اطہر ہاشمی کی خدمت میں گزارش ہے :” فقیر گوگیا پاشا قسم کا پروفیسر نہیں ہے ،بلکہ تدریس سے باقاعدہ وابستہ رہا ہے اور ”پروفیسر آف اسلامک سٹڈیز ‘‘کی حیثیت سے ریٹائر ہوا ہے، اگرچہ میں اپنے ادارے کا سربراہ بھی ہوں اور 1973ء سے دینی علوم کی تدریس سے بھی وابستہ ہوں اور گزشتہ تیس سال سے اِفتاء کا کام بھی کر رہا ہوںاورمیری کتب عام کالجوں اور ایل ایل بی میں شاملِ نصاب رہی ہیں ‘‘۔مجھے بہت بڑا عالم ہونے کا زعم کبھی نہیں رہا ، البتہ دین کا طالب علم ضرور ہوں اورنبی کریم ﷺ کی جانب اپنی وضع کی ہوئی حدیثیں منسوب کرنے کی بابت آپ ﷺ کی وعیدات ہمیشہ پیشِ نظر رہتی ہیں ،اس لیے کوشش کرتا ہوں کہ آیاتِ کریمہ و احادیثِ مبارکہ باحوالہ لکھوں، بعض اوقات کالم کی گنجائش مانع ہوجاتی ہے،وہ احادیثِ مبارکہ یہ ہیں :
(1)” نبی ﷺ نے فرمایا: مجھ پر جھوٹ بولنا کسی عام آدمی پر جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے ،جو مجھ پر دانستہ جھوٹ بولے گا،تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے، (بخاری:1291)‘‘، (2)نبی ﷺ نے فرمایا:” میری طرف منسوب کر کے حدیث بیان کرنے سے بچے رہو ، سوائے ایسی احادیث کے کہ جن کا تمہیں علم ہو، سو جو کوئی میری طرف دانستہ جھوٹی بات منسوب کرے گاتووہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے اور جو قرآن میں اپنی رائے پر کوئی بات کرے ، تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے، (سنن ترمذی:2951)‘‘۔
لیکن جو حدیث میں نے ”جدید فلاحی ریاست کے موسّس‘‘کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھی ہے ،اس پر جنابِ اطہر ہاشمی کی گرفت درست نہیں ہے ، وہ حدیث کتبِ احادیث میں موجود ہے، حوالہ جات درج ذیل ہیں:(1)عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں:نبی ﷺ نے (اللہ تعالیٰ کے حضور)دعا کی: اے اللہ! تو ابوجہل بن ہشام یا عمر بن خطاب (میں سے کسی ایک)کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما، راوی بیان کرتے ہیں: (اگلے دن) جب صبح ہوئی تو عمر رسول اللہ ﷺکی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا،(سنن ترمذی:3683،فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل:311،الشریعہ للآجری:1345 )‘‘۔
(2)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبیﷺ بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے،ابوجہل اور اس کے ساتھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے، اس وقت انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: تم میں سے کون ایسا کرسکتا ہے کہ (قبیلے کا نام لے کرکہا:)بنو فلاں کے ہاں جو اونٹنی ذبح ہوئی ہے ،اس کے بچہ دان کو لے کر آئے اور جب (سیدنا) محمد(ﷺ) سجدہ کریں تو وہ ان کی پشت پر رکھ دے، تو قوم کا سب سے بدبخت شخص اٹھا، وہ اس بچہ دان کو لے کر آیا، پھر وہ انتظار کرتا رہا، حتیٰ کہ جب نبیﷺ سجدے میں گئے تو اس نے اس بچہ دان کو آپ کی پشت کے اوپر آپ کے کندھوں کے درمیان رکھ دیا ،(حضرت عبداللہ بن مسعود )بیان کرتے ہیں:میں (بے بسی کے عالم میں )یہ منظر دیکھ رہا تھا ،لیکن آپ کے کسی کام نہیں آسکتا تھا ، کاش!(کہ اس وقت) میرے کوئی مدد گار ہوتے، انہوں نے کہا: مشرکین ہنسی سے لوٹ پوٹ ہونے کے سبب ایک دوسرے پر گرے جارہے تھے اور رسول اللہ ﷺ سجدے میں تھے اور اپنا سر نہیں اٹھارہے تھے حتیٰ کہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیںاور انہوں نے اس بچہ دان کو آپ کی پشت سے اٹھاکر پھینک دیا ،پھر آپﷺنے اپنا سرِ اقدس اٹھایااور بارگاہِ الٰہی میں تین مرتبہ التجا کی : ”اے اللہ! قریش کی گرفت فرما‘‘، قریش پر آپ کی دعائے ضرر ناگوار گزری ، راوی کا بیان ہے:”وہ جانتے تھے کہ اس شہر میں دعا قبول ہوتی ہے‘‘ ،پھر آپ ﷺنے نام لے کر ان کے خلاف دعا کی :” اے اللہ! ابوجہل کی گرفت فرما، عُتبہ بن ربیعہ ، شَیبہ بن ربیعہ، ولید بن عُتبہ، اُمیَّہ بن خَلَف اور عُقبہ بن ابی مُعَیط کی گرفت فرما اور آپ ﷺنے ساتویں شخص کا نام بھی لیاجو راوی کو یاد نہ رہا، عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، رسول اللہ ﷺ نے (دعائے ضرر کے وقت )جن اشخاص کا نام لیا تھا،میں نے ان سب کو بدر کے کنویں میں اوندھے منہ پڑے ہوئے دیکھا، (صحیح البخاری:240)‘‘۔(جاری ہے)