متفرقات…(2)،،،مفتی منیب الرحمٰن
علامہ غلام رسول سعیدی‘ ابوجہل کے بارے میں لکھتے ہیں: ”اُس کا نام عَمرو بِن ہِشَام تھا‘ رسول اللہ ﷺ نے اُس کو ابوجہل فرمایا‘ تو اب سب اس کو اُسی نام سے جانتے ہیں ‘اس کو حضرات مَعاذ بن عَمرو اورمَعاذ بن عَفراء (ان کو مُعَوَّذ بھی کہا جاتا ہے ‘ عَفراء ان کی والدہ کا نام تھا)نے قتل کیا تھا‘ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا اس کے پاس سے گزر ہوا تو یہ اوندھا پڑا تھا ‘وہ اس کا سر کاٹ کر رسول ﷺ کے پاس لے آئے‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ‘اے اللہ کے دشمن !جس نے تجھے رسوا کردیا ‘یہ شخص اس امت کا فرعون تھا اور ائمۂ کفر کا سردار تھا ‘پھر رسول اکرم ﷺ سجدے میں گر گئے ‘‘(نعمۃ الباری‘ ج:1 ص:704)۔
ہاشمی صاحب کی خدمت میں گزارش ہے : ”ابوجہل کا نام ”عُمَر بِن ہِشَام ‘‘نہیں بلکہ ”عَمَرو بِنْ ہِشَام‘‘تھااوریہ کہ میں نے حدیث صحیح نقل کی ہے اورسطورِ بالامیں صحیح البخاری اور سنن ترمذی کے علاوہ دیگرکتبِ احادیث کے حوالہ جات بھی درج کردیے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے اپنی دعا میں اصل نام (عَمَرو بن ہِشَام) کی بجائے اس کاذکر ابوجہل( لقب) کے ساتھ ہی فرمایا ‘‘۔
علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:”ابوالحِکَم ‘ابوجہل کی کنیت تھی اور نبی ﷺ نے اُسے ”ابوجہل ‘‘لقب دیا تھا‘ (التوشیح شرح بخاری‘ ج:6ص:2484)‘‘۔ابوالحِکم کے مرادی معنی مردِ دانا کے ہوسکتے ہیں ‘لیکن یہ دانائی اور فراست کفر کے حق میں اور اسلام کے خلاف استعمال ہوئی ‘ اُس کے کسی کام نہ آئی اور اُسے اسلام قبول کرنے کی سعادت نصیب نہ ہوئی ‘ لہٰذا یہ ایسی فراست تھی ‘جس کا جوہر کفر وضلالت سے کشید ہ تھا۔
جنابِ اطہر ہاشمی نے درست لکھا ہے : ”جہالت کے معنی ناواقفیت‘ بے وقوفی‘ اجڈ پن کے ہیں ‘‘اور اس کا معنی بے علمی بھی ہے ۔سورۃُ الحجرات :6میں ”جہالت ‘‘کا کلمہ بے خبری کے معنی میں آیا ہے ؛البتہ قرآنِ کریم میں چار مقامات پر جاہلیت کا لفظ ”ظَنُّ الْجَاھِلِیَّۃ‘‘‘”حُکْمُ الْجَاھِلِیَّۃ‘‘‘”تَبَرُّجُ الْجَاھِلِیَّۃ‘‘اور ”حَمِیَّۃُ الْجَاھِلِیَّۃ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ بالترتیب آل عمران:154المائدہ:50الاحزاب:23اور الفتح:26میں آیا ہے۔ ان سے شعارِ جاہلیت مراد ہے ‘یعنی عہدِ جاہلیت کی گمراہی پر مبنی اَقدارو روایات ‘ ہمارے ہاں اسے Status Quo‘یعنی کسی شے کو ”علیٰ حَالِہٖ‘‘ قائم رکھنے سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ہر دور کے کفاراپنے عہد کے انبیائے کرام علیہم السلام کے پیغامِ حق کو رد کرنے کے لیے یہی دلیل پیش کرتے رہے ہیں ‘قرآنِ کریم میں ہے: (1)”انہوں نے کہا: بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے ہوئے پایا ہے ‘‘(الشعرائ:74)۔(2)”بے شک ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک دین پر پایا اور ہم انہی کے نقشِ قدم کی پیروی کرنے والے ہیں ‘‘(الزخرف:23)۔
جہاں تک ”علاء الدین‘‘ کے رسم الخط کا تعلق ہے ‘جنابِ اطہر ہاشمی کا موقف درست ہے ‘ لفظِ علاء کا اصل ”عُلُوّ‘‘ ہے اور اس کا مصدر ”عُلُوًّا ‘‘اور” عَلَائ‘‘ آتا ہے ۔ ”عَلَائ‘‘ میں عربی زبان کے قاعدۂ تعلیل کے تحت وائو منقلب ہوکر ہمزہ بنی ہے اور ہمارے خطے میں ”ؤ‘‘لکھنے کا طریقہ رائج رہا‘تاکہ اس تعلیل کی طرف اشارہ ہوجائے اور معلوم ہو کہ ہمزہ اصلی نہیں‘ بلکہ ” مُعَلَّل‘‘ ہے ‘ اصل حرف ”و ‘‘ہے اور ”و‘‘تلفظ میں نہیں آتی ‘تاہم میں نے ایک عرصے سے ”ؤ‘‘کو ترک کردیا ہے اور ”علائ‘‘ ہی لکھتا ہوں ‘ماضی میں تفہیم المسائل کی مجلّدات میں جہاں جہاں ”ؤ‘‘ آیا ہے‘ اسے ہم ہمزے سے تبدیل کر رہے ہیں ‘ آپ نے نشاندہی فرمائی ‘آپ کا بے حد شکریہ۔ وکی پیڈیا میں دیکھا تو ”ؤ‘‘ کی مثالیں بکثرت موجود ہیں ‘ لیکن کئی افراد کی غلطی کو دلیلِ جواز نہیں بنایا جاسکتا‘ ماہرینِ لسان غلط العام کو استعمال کرنے کی رعایت دیتے ہیں ‘لیکن جنابِ اطہر ہاشمی چونکہ خواص میں سے ہیں ‘ اس لیے انہیں گرفت کا حق حاصل ہے۔
جنابِ اطہر ہاشمی سے گزارش ہے:”خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے ‘‘‘ فارسی میں کہتے ہیں: ”ایں گنا ہیست کہ در شہر شما نیز کنند‘‘(اسے بعض اہلِ قلم ”گناہ ہیست‘‘ اور بعض ایک ”ہ‘‘ پر اکتفا کر کے ”گناہیست ‘‘ لکھتے ہیں)‘یعنی ہم توزبان کے غلط استعمال کے گناہگار ہیں ہی‘لیکن کبھی کبھی آپ جیسے پارسا لوگوں سے بھی ایسی غلطی سرزد ہوجاتی ہے‘ عربی میں کہتے ہیں: ”ذٰلِکَ بِذٰلِکَ‘‘‘اپنی غلطی کے کفارے کے طور پر ہماری غلطی پر متوجہ فرمانے کے ساتھ ہمارے حق میں صحتِ زبان وبیان کی دعا فرمائیے!
جنابِ اطہرہاشمی نے ”مُستزاد‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے‘ آپ لکھتے ہیں:”زبان وبیان کی غلطیاں اُس پر” مستزاد ‘‘ہیں‘‘(فرائیڈے سپیشل‘ 15جون2018ئ)ایک اور کالم میںآپ لکھتے ہیں:” اس پر ”مستزاد‘‘” کے ساتھ‘‘‘ جب کہ بمع یا مع کا مطلب ہی ”کے ساتھ‘‘ ہے‘ زبان کی ایسی غلطیاں اگر سی پی این ای کی طرف سے وارد ہوں تو افسوس کی بات ہے‘‘(فرائیڈے سپیشل‘ 27جولائی2018ئ)جنابِ ہاشمی کا یہ کہنا بجا ہے کہ بعض لوگ لفظِ ”مع‘‘ کے بجائے کبھی ”بمع ‘‘ اور کبھی ”بمعہ ‘‘ لکھ دیتے ہیں ‘یہ دونوں غلط ہیں ‘کیونکہ ”کے ساتھ‘‘ کی بجائے ”مع‘‘ لکھنا کافی ہے اور جب مع مابعد لفظ کی طرف مضاف ہو تو اضافت کے سبب ”کے ساتھ‘‘ کے معنی خود پیدا ہوجاتے ہیں ۔
لفظِ”مُستَزاد ‘‘ کی جگہ آپ کو ما سبق پرزیادتی کے معنی میں”مزید‘‘(مصدر میمی )کا لفظ استعمال کرنا چاہیے۔ بابِ استفعال میں ”س‘‘ اور”ت‘‘ کا اضافہ طلب کے معنی میں آتا ہے ؛ اگرچہ زیادتیِ حروف بعض اوقات معنی میں شدت پیدا کرنے کے لیے بھی ہوتی ہے ‘ لیکن جنابِ ہاشمی صاحب ایسے صاحبِ علم کو لفظِ ”مزید‘‘استعمال کرناچاہیے‘ کیونکہ لوگ اُن کو زبان پر حجت سمجھتے ہیں اور ہمارے لیے یہ خوشی کی بات ہے کہ وہ عربی میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ ان سے میری گزارش ہے کہ لفظِ ”مُسترد‘‘ کے استعمال کے خلاف بھی قلمی تحریک برپا کریں ‘یہ بھی بابِ استفعال ہے ‘اس کے بجائے اہلِ علم کوصحیح لفظ ”رَدّ‘‘ استعمال کرنا چاہیے۔ میں ”زبان وبیان‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں اس جانب متوجہ کرچکا ‘ لیکن ”نقار خانے میں تُوتی کی آواز کون سنتا ہے‘‘ میں نے جنابِ اشفاق احمد خان کے ایصالِ ثواب کے لیے ط کے بجائے ت استعمال کر کے توتی لکھا ہے‘ کیونکہ سب سے پہلے پی ٹی وی پر اُن کے ڈرامے ”توتا کہانی‘‘ کے عنوان سے ہمیں اس پر آگاہی ہوئی تھی ۔
آپ کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ پہلے زمانے میں کاتب ہوتے تھے ‘ آج کل کمپوزر ہیں ‘یہ لوگ لغت کے اچھے خاصے متجدّد ہوتے ہیں اور ایجادِ بندہ کے طور پر کچھ نہ کچھ اجتہاداتِ باطلہ کرتے رہتے ہیں ‘ مولانا احتشام الحق تھانوی ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے: ایک بزرگ نے ایک کاتب کو قرآنِ کریم کی کتابت پر مامور کیا اور سختی سے ہدایت کی کہ خبردار! جیسا ہے‘ ویسا ہی لکھنا ‘اپنی طرف سے کوئی تصرف نہ کرنا ‘جب وہ لکھ کر لائے تو بزرگ نے پوچھا: ”تم نے کوئی ردّوبدل تو نہیں کیا‘‘ ‘اُس نے کہا:کچھ نہیں‘ بس ایک دو غلطیاں تھیں‘ اُن کی میں نے تصحیح کردی ‘ پوچھا: وہ کیا؟‘ اس نے بتایا: لکھا ہوا تھا:”وَخَرَّ مُوسٰی صَعِقاً ‘(الاعراف:143)‘‘ ‘ خرِ موسیٰ نہیں ہوتا‘ خرِ عیسیٰ ہوتا ہے (فارسی محاورہ ہے :خرِ عیسیٰ اگر بمکہ روَد‘چوں بیاید ہنوز خر باشد)‘پس (العیاذ باللہ!) میں نے موسیٰ کی جگہ عیسیٰ لکھ دیا ہے ‘ نیز جگہ جگہ ابلیس لکھا ہوا تھا ‘قرآن ایسی مقدس کتاب میں ”ابلیس‘‘ کا لفظ نہیں آنا چاہیے ‘میں نے ایسے تمام مقامات پرابلیس کی جگہ آپ کے والد صاحب کا نام لکھ دیا ہے ۔
جنابِ ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی نے ”فرائیڈے سپیشل‘‘ میں لکھا ہے :”اعلیٰ ‘ادنیٰ ‘اولیٰ وغیرہ کلمات کو اُردو میں الف کے ساتھ اعلا‘ادنااوراولا لکھنا چاہیے ‘‘‘جنابِ اطہرہاشمی نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور ہمیں اُن سے مکمل اتفاق ہے ‘ عربی کلمات کو اپنی اصل کے مطابق لکھنا بہتر ہے ‘یہ تبدیلی ذوقِ سلیم پر گراں گزرتی ہے ‘ ورنہ بقولِ جنابِ ہاشمی لوگ مُوسیٰ وعیسیٰ ایسے اَعلام کو بھی الف کے ساتھ لکھنا شروع کردیں گے ۔
میں ماضی میں زبان وبیان کے عنوان سے اپنے ایک کالم میں لکھ چکا ہوں کہ کئی الفاظ کا تلفظ اہلِ پنجاب اور اُردو کے اہلِ زبان مختلف انداز میں کرتے ہیں ‘مثلاًاہلِ پنجاب کہتے ہیں:” اس بارَہ میں میری رائے یہ ہے ‘ اس سلسَلہ میں میرا موقف یہ ہے ‘ وغیرہ‘‘‘ جبکہ اُردو کے اہلِ زبان اِمالہ کے ساتھ (یعنی ے کی طرف جھکاتے ہوئے بارے اور سلسلے)بولتے ہیں ‘ لیکن لکھتے ”بارہ ‘‘اور ”سلسلہ‘‘ ہی ہیں ‘اس سلسلے میں ایک اصول یہ ہے :”اَنْ تُکْتَبْ کَمَا تُقْرَأ‘‘یعنی جیسے پڑھا جائے ‘ ویسے ہی لکھا جائے ‘ پس یوں لکھنا چاہیے: ”اس بارے میں میری رائے یہ ہے ‘اس سلسلے میں میرا موقف یہ ہے ‘‘‘یعنی ”ہ‘‘ کو ”ے‘‘ سے بدل دینا چاہیے‘ جنابِ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے اور مجھے ان سے مکمل اتفاق ہے ۔
میں یہ بھی لکھ چکا ہوں کہ ” اگر اللہ چاہے ‘‘کے معنی میں ”اِنْ شَائَ اللّٰہ ‘‘( اِنْ حرفِ شرط کو جداکر کے ) لکھنا چاہیے اور ”انشاء اللہ خان انشائ‘‘ کا نام ”انشائ‘‘ہی لکھنا چاہیے ‘کیونکہ یہ ایک ہی لفظ ہے اور ”انشائ‘‘ کے من جملہ معانی میں سے : پیدا کرنا‘ پالنا اور پرورش کرنا ہیں‘ تو اس کے معنی ہوں گے: ”اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ یااللہ تعالیٰ کاپروَردہ ‘‘۔
میری تمام اہلِ علم سے اپیل ہے کہ ہمارے ہاں یہ طریقہ رائج ہوگیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے نام ِ مبارک پرپورے صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے مخفَّف کر کے ”صلعم‘‘ یا” ؐ ‘‘ ‘ رضی اللہ عنہ کے بجائے ” ؓ ‘‘ اور رحمہ اللہ تعالیٰ کے بجائے ‘ ‘ ؒ ‘‘ لکھ دیتے ہیں‘ یہ شعار درست نہیں ہے ‘اہلِ عرب میں یہ طریقہ رائج نہیں ہے ‘احادیثِ مبارکہ کی تمام کتابوں میں نبی کریم کا ہزاروں مرتبہ نام آنے پربھی پورا ”صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ لکھا جاتا ہے ‘ ۔اسی طرح اب ”جَلّ جلالُہٗ‘‘ کی جگہ ”ج‘‘لکھا جانے لگا ہے ‘اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ گویائی اور کتابت کی نعمت کا تقاضا ہے کہ ہم اللہ کے اسمِ جلالت اور اس کے پیارے نبی کے اسمِ مبارک کے ساتھ بالترتیب ”جَلّ جلالُہٗ‘‘اور ”صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ لکھیں‘یہ شِعار صرف ہمارے خطے میں رائج ہوا‘اسے ترک کردینا چاہیے۔