منتخب کردہ کالم

متفکر والدین کی فلاح کے واسطے…حسنین جمال

متفکر والدین کی فلاح کے واسطے

متفکر والدین کی فلاح کے واسطے…حسنین جمال

کون ماں ہے جو خواب دیکھے کہ میری اولاد بڑے ہو کے شاعر بنے گی، ادیب بنے گی، دانشور کہلائے گی، ہے کوئی ماں یا کوئی باپ جو یہ دعویٰ کر سکے؟ بہت مشکل ہے۔ پاکستان کے مشہور شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کے بچے دیکھ لیجیے، کتنے ہیں جو صرف دانشوری یا ادب کے میدان میں گھوڑے دوڑاتے ہوں اور روزی روٹی بنا لیتے ہوں؟ ساتھ میں کوئی نہ کوئی نوکری کرنی پڑتی ہے، نہیں کریں گے تو ساغر صدیقی ٹائپ کی شہرت کا فائدہ کیا ہے بھائی؟ کتنے محل کھڑے کر لیے اس شہرت نے یا اگلی کتنی نسلیں آرام سے بسر کر گئیں؟ زیادہ پڑھنا، ادب کا شوق ہونا، شاعری پسند کرنا، دانشوری بگھارنا میرے خیال میں سب دماغ کے چسکے ہیں جن کا حاصل وصول پکوڑوں کی ایک پلیٹ یا دو پیالی چائے سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا۔
ایک عام آدمی‘ جس کے دماغ میں دانشوری کا کیڑا نہیں ہوتا‘ کی زندگی بہت آسان ہوتی ہے۔ نہ وہ جانتا ہے کہ وہ نہیں جانتا، نہ وہ جانتا ہے کہ وہ کچھ جانتا ہے، اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ دنیا میں آنا زیادہ بڑا حادثہ تھا‘ یا ادھر سروائیو کرنا زیادہ بڑی جنگ ہے۔ وہ صبح چھ بجے اٹھتا ہے اور دن بھر گدھوں کی طرح محنت کر کے رات کو تھکا ہارا سو جاتا ہے۔ اسے ہرگز اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ زندگی مشینی ہو گئی ہے، اقدار بدلتی جا رہی ہیں، زمانہ فاسٹ ٹریک ہو رہا ہے، ڈیجیٹل طوفان اس کی زندگی میں کیسے ہر چیز تہس نہس کر رہا ہے، قسم بہ خدا اسے کوئی فکر نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ اس کے نزدیک یہ سب باتیں دماغی طور پہ فارغ لوگوں کی باتیں ہیں اور یہ فیکٹ ہے۔ دانشور عام زندگی میں زیرو ہوتا ہے۔ اسے ہر چیز میں فلاسفی سوجھتی ہے، سامنے پڑا ٹھنڈے پانی کا گلاس اٹھانے سے پہلے وہ سوچتا ہے کہ یار اس پہ موجود یہ قطرے کیسے خوبصورت لگ رہے ہیں، پھر کوئی گانا اس کے دماغ میں لپکتا ہے، سوچتے سوچتے وہ گلاس اٹھاتا ہے، اسے دیکھ دیکھ کے پانی پیتا ہے، عام آدمی اتنی دیر میں چکنے ہاتھوں سے پورا پانی پی کے گلاس یہ سائیڈ پہ مارتا ہے، لمبی سی ڈکار لے کے شکر الحمدللہ کہتا ہے اور انہی ہاتھوں سے ٹی وی ریموٹ اٹھا لیتا ہے۔
اگر آپ کا بچہ زیادہ پڑھنے کا شوقین ہے تو بہت اچھی بات ہے‘ لیکن اگر اس میں تھوڑے سے بھی جراثیم اس چیز کے ہیں‘ جسے جینئس ہونا کہتے ہیں تو یہ ایک خطرناک علامت ہو سکتی ہے۔ اس کا مستقبل کچھ زیادہ محفوظ نہیں ہو گا۔ کامیاب کاروبار یا اچھی نوکری دو جمع دو چار کرنے والا بندہ مانگتے ہیں۔ انہیں ضرورت سے زیادہ عقل مند یا بات بات پر سوال کرنے والے لوگ پسند نہیں ہوتے، ہونے بھی نہیں چاہئیں۔ کاروباری ذہانت ایک الگ چیز ہے جب کہ نستعلیق ہونے کا لپکا بالکل دوسری بیماری ہے۔ دماغ پہ زور ڈالیں اور سوچیں کہ آج تک کتنے مشہور شاعر، ادیب یا دانشور کامیابی سے نوکری کرتے ہوئے یا اپنا ذاتی کاروبار کرتے دیکھے گئے ہیں؟ ادب، ذہانت، جستجو اور کامیاب زندگی ایک پیکیج میں کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ ایک بالکل عام آدمی کی زندگی میں کامیاب ہونے کے چانسز ایک دانشور کی زندگی سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں اور اس کی وجہ صرف ایک ہے۔ وہ سِر سُٹ کے اپنا کام کرنا جانتا ہے جب کہ دانشور کا دماغ ایک ہی وقت میں کئی جگہ بھٹک رہا ہوتا ہے۔ وہ زندگی بھر کبھی کنسنٹریشن سے کوئی کام نہیں کر سکتا اور اپنی فرسٹریشن ادب میں نکالتا ہے۔ ‘کچھ عشق کیا کچھ کام کیا ہم جیتے جی مصروف رہے‘… کام ایسے نہیں ہوتا، کام پورا بندہ مانگتا ہے، سالم انسان، یا تو کام کر لو یا پھر اپنی مصنوعی دنیا میں غوطے کھاتے رہو۔
یہ بات گارنٹی سے کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت اس کالم کو جتنے بھی لوگ پڑھ رہے ہوں گے وہ ادب کی چیٹک میں گرفتار ہیں۔ دفتر، گھر، سفر، جہاں بھی موقع ملتا ہے کچھ نہ کچھ پڑھنے کو نکال لیتے ہیں‘ لیکن یہی حد سے زیادہ پڑھنا، ہر چیز پڑھ ڈالنا یہ آپ کے لیے نقصان دہ ہے۔ زیادہ پڑھنے والا آدمی اپنی اوریجنل خصلتیں کھو بیٹھتا ہے، اس پر تہذیب کا لبادہ چڑھ جاتا ہے، وہ کسی بھی کام میں اپنی مرضی کا ردِ عمل نہیں دے سکتا‘ اور آہستہ آہستہ یہ مصنوعی تمیز‘ یہ جعلی عادتیں اسے اپنا آپ بھلا دیتی ہیں۔ یار جس وقت آپ کا دل چاہے کہ آپ کسی خبیث انسان کو گالی دیں اور کتابوں سے حاصل شدہ علم آپ کا مکو ٹھپ دے تو ایسے علم کا کیا فائدہ؟ بندہ اپنی بھڑاس نہ نکال سکے اور ساری عمر وہ کوفت اندر ہی اندر پالتا رہے اس سے بہتر نہیں ہے کہ پڑھنے پڑھانے کو سات سلام کیے جائیں؟ دانشوری کا شوق، زیادہ جاننے کی جستجو، ہر معاملے پر معلومات کی خواہش آدمی کو ایک دم ٹھنڈا کر دیتی ہے، وہ ہاتھ پیر ہلانے کے بجائے بس پڑھتے رہنا پسند کرتا ہے اور اندر ہی اندر یہ سمجھتا ہے کہ استاد میں تو انٹلیکچوئل ہو گیا۔ ابے ہٹاؤ یار‘ سب دو نمبری ہے بھائی، علم وہی اچھا جو چار نوٹ کما کے دے سکے اور انٹلیکچوئل وہی اچھا جو مارکیٹ میں اپنی عقل کیش کروا سکے۔ اس کے علاوہ سب بے کار ہے، نری ذہنی عیاشی ہے بلکہ دماغ کی لسی ہے، پیتے جاؤ اور اونگھتے رہو۔
ایک نظر اپنی ذاتی زندگی پہ ڈالیں، کیا آپ عجیب و غریب سے آدمی نہیں ہیں؟ کیا معاشرے کی طرف سے ڈیفائنڈ ہر رول پہ آپ پورے اترتے ہیں؟ کیا آپ گارنٹی سے کہہ سکیں گے کہ ہاں میری زندگی ایب نارمل نہیں ہے؟ میں ایک کامیاب بیٹا/بیٹی ہوں، میں ایک اچھا والد/والدہ ہوں، میں ایک آئیڈیل شوہر/بیوی ہوں، میرے بہن بھائی مجھے ایک کامیاب انسان سمجھتے ہیں؟ ایسا نہیں ہے بابو، جس جس کی نظریں کاغذ پر سے لفظ اٹھانے کی عادی ہو جائیں وہ پھر کچھ خاص کام کا نہیں رہتا۔ موبائل پہ پڑھنا کسے پسند ہوتا ہے؟ اسی آدمی کو جو دانشوری کی سستی تفریح میں مبتلا ہے ورنہ ایک کامیاب نوکری پیشہ برخوردار ہمیشہ موبائل کھولتے ہی فیس بک پہ جائے گا یا واٹس ایپ کا رخ کرے گا، بہت ہوا تو گانے وانے سن لیے، پڑھتا کون ہے بھائی؟؟ صرف آپ جیسے!
مان جائیے کہ پرانے زمانے میں بزرگ اچھا کرتے تھے جو شاعری اور ناول وغیرہ برآمد ہونے پہ جوتوں سے مارتے تھے۔ سب آپ کی واہ واہ کرتے ہیں، آپ تہذیب یافتہ سمجھے جاتے ہیں، آس پاس کے لوگ آپ کو ذہانت کے اونچے چبوترے پہ بٹھاتے ہیں او کے فائن، اس کے علاوہ زندگی بھر پڑھتے رہنے کا آپ کو کیا فائدہ ہوا؟ آپ اچھے آدمی بن گئے؟ بصد معذرت اسے اچھائی نہیں کہتے بے وقوفی کہتے ہیں‘ جس کا شکار ہر ادب پسند ہوتا ہے۔ تھوڑی مشکل زبان میں بات کی جائے تو یہ نرگسیت کی ہی ایک سیڑھی ہے جس پہ ایک ادب افیمچی دوسرے کی بہہ جا بہہ جا کر رہا ہوتا ہے۔ بچوں کو اس خرافات سے دور رکھیں۔
واللہ اتنی طویل گھسیٹا کاری میں سبق صرف یہی ہے کہ عام آدمی جسے پڑھنے کا شوق نہ ہو، جو کالموں والے صفحے پہ نہ آتا ہو، جو ڈھونڈ ڈھونڈ کے موبائل پر بھی یہی لفظوں کی ٹھرک پوری نہ کرتا ہو اس کی زندگی بہت اعلیٰ ہوتی ہے۔ نہ اسے حقوق کا احساس ہوتا ہے نہ فرائض کا کوئی خاص ڈنڈا، نائن ٹو فائیو کام، لنچ میں کڑاہی گوشت اور رات کو آلو کا پراٹھا کھاتے کھاتے ٹی وی کے آگے سو جانے سے بہتر کچھ بھی نہیں ہے۔ تو اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے ایک اچھی زندگی گزاریں، ایویں مفت کی پریشانیاں نہ پالیں، نفسیاتی مسائل کا شکار نہ ہوں، دھنیا پیے ہوئے نوجوان نہ بنیں، زندگی کی ہر دوڑ میں چیتے کی طرح لپکیں تو قسم ہے پیدا کرنے والے کی، انہیں بہت زیادہ کتابوں کے پاس نہ پھٹکنے دیں!
براہ مہربانی اس کالم کو طنز نہ سمجھا جائے۔ نہ ہی یہ کوئی غیر سنجیدہ تحریر ہے۔ بقائمیٔ ہوش و حواس، بہ حالت عین مسرت و شادمانی، بوقت مغربین، سنیچر اکتیس مارچ کو لکھا گیا یہ نوشتہ متفکر والدین کی فلاح کے واسطے تحریر کیا گیا ہے۔ دستخط، حسنین جمال، بقلم خود۔