متنازعہ انٹرویو اور انتخابات میں تاخیر…کنور دلشاد
نواز شریف نے ملتان میں ایک رپورٹر کو متنازعہ انٹرویو دیا تو پورے ملک میں اس کے خلاف ایک رد عمل سامنے آیا‘ جس نے مسلم لیگ کے حلقوں کو ہلا کے رکھ دیا۔ اس کی وجہ سے بعد ازاں خود مسلم لیگ ن کو انتہائی مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ شنید ہے کہ ایئر پورٹ پر انٹرویو لینے والے رپورٹر کو خصوصی اجازت نامہ جاری ہوا، مگر عین وقت پر یہ فیصلہ ہوا کہ انٹرویو ایئر پورٹ کے لائونج میں کرنے کے بجائے کسی خفیہ مقام پر کیا جائے۔ اس انٹرویو میں نواز شریف نے جان بوجھ کر ایسی باتیں شامل کر دیں جو غیر ملکی ایجنڈے کے عین مطابق تھیں، جو بعد میں ایک بڑے تنازع کا باعث بن گئیں۔ نواز شریف نے اپنی خواہش اور منشا کے مطابق اس انٹرویو کا اہتمام کیا اور ایسا بیانیہ جاری کیا جو ملک میں فوج پر بیرونی دبائو کا باعث بن سکے‘ اور جب حالات ان کے مطابق بگڑتے چلے گئے‘ تو نواز شریف نے ایک مخصوص پلاننگ کے تحت قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ اس اعلامیے کو جاری کرتے وقت خود ان کے نامزد کردہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سمیت ان کے نمائندے اور عسکری قیادت بھی موجود تھی اور تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف‘ جنہیں سپریم کورٹ اور احتساب عدالت میں بد عنوانی ، دروغ گوئی ، قومی دولت اور وسائل کے غلط استعمال سمیت مختلف الزامات کا سامنا ہے، کے جارحانہ طرز عمل سے ان کی جماعت کے لئے جو مسائل ، مصائب اور مشکلات پیدا ہوئی ہیں، نواز شریف کو اس کا ادراک ہی نہیں۔ وہ بیرونی ایجنڈے پر چلتے ہوئے اپنی کشتیاں جلا چکے ہیں اور انہوں نے اپنی جماعت کے رفقاء و کارکنان کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ اب مسلم لیگ ن سے وابستہ ارکان اسمبلی کے لئے مسلم لیگ ن کے ساتھ رہنا نا ممکن ہو رہا ہے اور نواز شریف کے پاکستان مخالف بیانیہ کی وجہ سے ان کے لئے اپنے حلقوں میں ن لیگ کے ٹکٹ پر انتخابی مہم چلانا بھی آسان کام نہیں ہو گا۔ بالخصوص جنوبی پنجاب کے عوام‘ جو 1947ء میں مشرقی پنجاب سے آگ اور خون کا دریا پار کر کے پاکستان آئے تھے‘ ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔31 مئی کو حکومتوں کی مدت مکمل ہونے پر پورا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہو جائے گا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ شہباز شریف کے لئے نواز شریف کی بھارت نواز سوچ کی وجہ سے پارٹی کو متحد رکھنا آسان نہیں ہو گا۔ نواز شریف کو یقین ہو چلا ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں ان کی جماعت 60 سے زائد نشستیں حاصل نہیں کر پائے گی، کیونکہ ان کا افواج پاکستان کے خلاف بیانیہ بین الاقوامی ایجنڈے کے مطابق ہے۔ پنجاب کے ووٹرز ان کے بھارت نواز رویے سے متفق نہیں ہیں۔ سرل المیڈا کے بارے میں اس کے اخبار نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے نواز شریف سے انٹرویو لینے کی استدعا کی تھی۔ اس نے اسلام آباد سے ملتان بذریعہ موٹر وے سفر کیا تھا۔ سرل المیڈا پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں کہ اس نے کس کے ایما پر نواز شریف سے انٹرویو لینے کی خواہش کا اظہار کیا‘ جبکہ سرل المیڈا 2016ء میں ڈان لیکس کے نام پر متنازع ہو چکے تھے‘ اور وزارت داخلہ کی کمیٹی نے تادیبی کارروائی کا حکم دیا تھا۔
دوسری جانب مردم شماری کے پانچ فیصد بلاکس کے آڈٹ کا معاملہ ختم ہو رہا ہے کیونکہ چھ ماہ گزرنے کے باوجود تھرڈ پارٹی کا انتخاب عمل میں نہیں لایا جا سکا۔ مردم شماری 17 مارچ 2017ء کے نتائج مرتب کر دئیے گئے ہیں ، مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری کے بعد حتمی نتائج جاری کر دئیے جائیں گے، شماریات ڈویژن کے ارکان اب تھرڈ پارٹی سے مردم شماری کا آڈٹ نہیں کروا رہے ہیں کیونکہ انہوں نے شاطرانہ چال چلی ہے کہ اس طرح مردم شماری کے اہم اعداد و شمار نجی اداروں تک پہنچ جائیں گے‘ لہٰذا سسکتی ہوئی حکومت کے دور میں معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں پہنچانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اور شماریات ڈویژن کی زیر نگرانی صوبائی محکمہ شماریات کے ذریعے پانچ فیصد آڈٹ کرانے کی تجویز پیش کی جائے گی۔ ان حالات میں مردم شماری 2017ء مارچ میں ہوئی تھی، پانچ فیصد دوبارہ مردم شماری تمام اعداد و شمار کو مشکوک بنا دے گی کیونکہ مردم شماری کو ہوئے ایک سال سے زائد عرصہ گز ر چکا ہے اور اس عرصے میں آبادی کے اعداد و شمار میں تبدیلی آ چکی ہے۔ شماریات ڈویژن اسی مردم شماری کے بحران سے محفوظ رہنے کے لئے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں مردم شماری کا آڈٹ نہ کروانے کی تجویز پیش کرے گی۔ واضح رہے کہ نومبر 2017ء میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں مردم شماری کے پانچ فیصد بلاکس کا آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا‘ اور ہدایت کی گئی تھی کہ آڈٹ تھرڈ پارٹی سے کرایا جائے اور تھرڈ پارٹی کا ایک ماہ میں فیصلہ کر لیا جائے گا ، لیکن شماریات ڈویژن نے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کو نظر انداز کر کے آئین کی خلاف ورزی کی ہے‘ اور نگران حکومت کی تشکیل کے دوران یہ معاملہ از سر نو اٹھایا جائے گا۔ پاک سر زمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال کی مردم شماری کے خلاف آئینی پٹیشن سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ ان حالات میں اگر سپریم کورٹ نے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کی روشنی میں پانچ فیصد بلاکس کا آڈٹ کرانے کا حکم جاری کر دیا تو پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حلقہ بندیوں پر بھی نظر ثانی کرنا پڑے گی‘ جس سے انتخابات لا محالہ تاخیر کا شکار ہو جائیں گے۔
ستر سالہ تاریخ کے تمام اہم واقعات عوام کے سامنے ہیں، خاص طور پر سیاست کے معاملات کہ یہ عوامی دلچسپی میں نمایاں ہے ، تاہم یہ حقیقت نا قابل فراموش ہے کہ پاکستان کی سیاست میں زرداری اور نواز شریف نے جو رخ اختیار کیا ہے اسے کسی بھی طرح کوئی جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا ۔ شائستگی ، مفاہمت اور تدبر کی جگہ دشنام طرازی نے لے لی ہے ،حزب اقتدار اور حزب اختلا ف کی تمام جماعتیں ایک دوسرے کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے ذہنی پستی اور اخلاقی تنزلی پر اتر آئی ہیں۔ افسوس ہے کہ جمہوریت کے دس سالہ تسلسل کے باوجود حالات پہلے سے زیادہ ابتر ہیں ، اور عوام میں یہ تاثر سرایت کر چکا ہے کہ موجودہ پارلیمانی سسٹم پاکستان کے لئے موزوں نظام نہیں ہے اور ملک کے نامور سیاست دانوں پر سیاہی اور جوتے اچھالے جا رہے ہیں بلکہ وزیر داخلہ احسن اقبال پرگولی چلانے تک بات جا پہنچی ہے۔ سیاست دانوں کو سیاست کے لفظ کو شائستگی، تحمل برداشت‘ رواداری کا استعارہ بنانے کی کوشش کرنا ہو گی۔ انتخابات وقت مقررہ پر ہو رہے ہیں۔ سب سیاسی جماعتیں اپنے منشور سامنے لائیں نہ کہ دوسروں کے عیوب‘ کہ اس صورت میں انتخابی فضا خراب ہونے کا اندیشہ ہو گا جیسا کہ گزشتہ دنوں عمران خان نے حکومت میں آنے کے بعد اپنے 100 دنوں کا قومی ایجنڈا قوم کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ عمران خان کے ایجنڈے میں کشش ہے‘ لیکن اس میں ترمیم کی اور اضافے کی بھی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک کی سب سیاسی جماعتوں کا امتحان ہے کیونکہ امریکہ نے پاکستان کو جون 2018ء میں نشانے پر رکھا ہوا ہے ، ڈالر کی قیمت گرانے والے ممالک امریکی حملوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ چار جنوری 2018ء کو پاکستان میں ڈالر کی شرح تبادلہ کو گرانے کی خبریں منظر عام پر آئیں، اسی روز امریکہ نے پاکستان پر مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔ عین اسی دن پاکستان نے چینی کرنسی تجارت میں استعمال کرنے میں پیش رفت کی اور اسی روز سب کو پاکستان میں مذہبی آزادیاں خطرے میں دکھائی دیں، اور پشتون تحفظ تحریک کو ہوا دی گئی۔ واشنگٹن اور دہلی نے کابل کے راستے ان پر ڈالروں کی بارشیں شروع کر دیں۔ ایران نے کئی امریکی تجاویز قبول کر لیں لیکن وہ ڈالر کی بجائے یورو کی جانب شفٹ ہوا، جس کے بعد امریکی میڈیا نے اسرائیل کی مدد سے ایران پر الزامات کی بارش کر دی۔ پاکستان نے کمال ہوش مندی سے راتوں رات کسی اشارے پر ڈالر کے مقابلے میں اپنی کرنسی کو 20 فیصد تک گرا دیا، پاکستان اب واچ لسٹ سے بھی بچ جائے گا اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس بھی پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی ۔ ان حالات میں الیکشن 2018ء پاکستان کی سالمیت کے لئے اہم ترین الیکشن ہوں گے، نگران سیٹ اپ کے آنے کے بعد الیکشن کمیشن غیر جانبداری سے انتخابات کروانے کی پوزیشن میں ہو گا۔ اگر الیکشن کے نتائج متنازع قرار دئیے گئے تو پاکستان میں موجودہ انتخابی سسٹم پر اعتماد ختم ہو جائے گا۔