متوقع گھڑمس…خالدمسعود خان
باوجود اس امر کے کہ شاہ محمود قریشی بارے میرے نامعلوم قسم کے تحفظات ہیں‘ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ شاہ محمود قریشی سوائے مریدوں اور اپنے الیکشن پر خرچہ کرنے والوں کے علاوہ کسی سے پیسے نہیں لیتا۔ دوسرے لفظوں میں یہ سمجھیں کہ وہ مالی طور پر کرپٹ نہیں ہے۔ نہایت ہی قابل کاشتکار ہے اور اپنے کاشتکاری سے متعلق تمام امور کی بذاتِ خود نگرانی کرتا ہے اور ورثے میں ملنے والی انگریزوں کی عطا کردہ جاگیر کا انتظام نہایت ہی اچھے انداز میں چلاتا ہے۔ کہیں سے بھی اس کے بارے میں پیسہ پکڑنے کی اطلاع نہیں۔ سوائے مریدوں سے لیے جانے والے نذرانے اور الیکشن کے خرچے کے لئے ملنے والے نذرانوں کے ۔ ملتان کا ایک کالم نگار جو چھوٹے بھائیوں جیسا ہے اور ملتان کے ہر مکتب اور ہر سیاسی جماعت کے سیاستدانوں میں میرے عین برعکس نہایت ہی مقبول ہے، بتا رہا تھا کہ ایک بار ایک کاٹن فیکٹری کے مالک نے اسے ایک انتخابی خرچے کا لفافہ دیا‘ جو اس کاٹن فیکٹری کے مالک ” حاجی صاحب ‘‘ کو ایک مشہور و معروف ٹیکسٹائل گروپ کے سربراہ نے بھجوایا تھا۔ اس کاٹن فیکٹری کے مالک حاجی صاحب کو شاہ محمود کا پتا نہیں تھا کہ کہاں ملے گا‘ جبکہ اسے یہ لفافہ صرف اس لیے دے دیا گیا تھا کہ حاجی صاحب کا تعلق ملتان سے تھا۔ یہ لفافہ شاہ محمود قریشی تک ہمارے اس دوست نے پہنچایا۔ خیر کسی مخدوم کے لئے الیکشن کا خرچہ نکالنا‘ بہر حال نہایت ہی مناسب کام ہے کہ جب اس نے کرپشن نہیں کرنی‘ تو پھر وہ پلے سے الیکشن کا خرچہ کیوں کر ے ؟
میں سارا دن ادھر ادھر گھومتا رہتا ہوں اور مخلوق خدا سے ملتا جلتا رہتا ہوں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ شاہ محمود قریشی سے سیاسی مفادات کی وابستگی رکھنے والوں کے علاوہ میں نے کسی کو اس کے بارے میں کلمہ خیر کہتے ہوئے نہیں سنا۔ اب پی ٹی آئی کا حال ہی دیکھیں ۔ عام ورکر سے لے کر اعلیٰ قیادت تک سوائے عمران خان کے ( عمران خان سے میری نہ ہی میل ملاقات ہے اور نہ ہی اس بارے کبھی کوئی گفتگو ہوئی ہے اس لئے ) کسی کو بھی شاہ محمود قریشی کے بارے میں اچھی بات کہتے نہیں سنا‘ یعنی قریشی صاحب کے بارے میں پی ٹی آئی کے ہر طبقے میں اجماع پایا جاتا ہے۔ وجوہات بارے کیا کہا جاسکتا ہے ؟ مجھے تو آج تک خود سمجھ نہیں آئی کہ آخر شاہ محمود قریشی بارے میرے خیالات کیوں منفی ہیں ؟ ایسے میں بھلا اوروں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے ؟
دراصل یہ سب کچھ بلاوجہ یاد نہیں آرہا ۔ ملتان میں ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ اپنے اختتام پر ہے اور قومی اسمبلی کے چھ حلقے تقریباً فائنل ہو چکے ہیں۔ چھ میں سے چار امیدواران قومی اسمبلی کا تعلق شاہ محمود قریشی گروپ سے ہے۔ حلقہ این اے 154 سے احمد حسین ڈیہڑ، حلقہ این اے 155 سے عامر ڈوگر ، این اے 156 سے خود شاہ محمود قریشی اور این اے 157 سے برخودار زین قریشی ، حلقہ این اے 158 سے ابراہیم خان کا تعلق ، جہانگیر ترین گروپ سے ہے اور این اے 159 کا ٹکٹ ہولڈ رانا قاسم نون ” اشارے بازوں ‘‘ کی آشیر باد سے ” صوبہ جنوبی پنجاب محاذ ‘‘ کے پردے میں چھپ کر اپنی چالاکی کے طفیل بذات ِخود پی ٹی آئی میں آیا ہے اور اس کا ٹکٹ بھی اشارہ بازوں کا مرہونِ منت ہے ‘اس میں کسی اور کا عمل دخل نہیں ہے۔
ملتان کے چھ قومی حلقوں کے فائنل ہونے کا میں نے ” تقریباً ‘‘ لکھا ہے کہ ابھی ممکن ہے‘ ایک آدھ حلقے میں کوئی تبدیلی آ جائے اور پھڈے والا حلقہ این اے 154 ہے ۔ یہ پرانا حلقہ این اے 151 ہے‘ جہاں سے 2013 ء کے الیکشن میں ملک سکندر حیات بوسن الیکشن جیتا تھا ۔ سکندر بوسن مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر کامیاب ہوا تھا۔ دوسرے نمبر پر سید یوسف رضا گیلانی کا بڑا بیٹا عبد القادر تھا۔ سکندر حیات بوسن نے چھیانوے ہزار سے زائد ووٹ لئے تھے ۔ عبد القادر کے ستاون ہزار سے زائد تھے جبکہ پی ٹی آئی کے بالکل ہی غیر معروف اور مظفر گڑھ سے آمدہ امیدوار سلمان قریشی کے چالیس ہزار کے لگ بھگ ووٹ تھے۔ اس حلقے پر گھمسان کا رن پڑا تھا اور درجن بھر امیدوار قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے خواہاں تھے۔ ان میں کچھ عرصہ پہلے پیپلز پارٹی چھوڑ کر آنے والا ملک احمد حسین ڈیہڑ ، یاد رہے کہ احمد حسین ڈیہڑ ‘ شاہ محمود قریشی کی وساطت سے پی ٹی آئی میں آیا تھا۔ یہاں سے ہی شاہ محمود قریشی کے گزشتہ الیکشن میں خرچہ کرنے والا خالد جاوید وڑائچ بھی امیدوار تھا۔ اس کے علاوہ ملک ناصر ، قادر سانگی ، حافظ اللہ دتہ ، کاشف بوسن اور آدھ درجن دیگر امیدوار۔ ان سب نے سکندر بوسن کے خلاف ایکا کر لیا تھا اور ملتان پریس کلب کے سامنے اور بائی پاس چوک وغیرہ پر جلوس وغیرہ بھی نکالے۔ ان سارے ” نظریاتی‘‘ امیدواروں کا موقف تھا کہ محض الیکشن کے لئے پی ٹی آئی میں آنے والوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔ ان سارے نظریاتی کارکنوں کو پورے پاکستان میں صرف سکندر بوسن ہی موقع پرست نظر آیا ‘ان میں سے کسی نے نذر گوندل ، فردوس عاشق اعوان ، جعفر لغاری ، نصر اللہ دریشک ، خسرو بختیار ، مصطفی کھر ، بہادر خان سہیڑ، عامر پاروارن، ملک نیاز جھکڑ ، ریاض فتیانہ ، احسن ریاض فتیانہ ، ذوالفقار کھوسہ اور رانا قاسم نون کی پی ٹی آئی میں شمولیت اور ان میں سے اکثر کو ٹکٹ ملنے پر تو کوئی احتجاج نہیں کیا۔ سارا نظریاتی پن صرف حلقہ این اے 154 میں اور وہ بھی سکندر بوسن کے خلاف یاد آیا ہے۔
چھوٹی چھوٹی اور گڑ بڑیں بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ ملتان شہر اور نواح کے درمیان ایک صوبائی حلقہ پی پی 213 ( موجودہ ) جو کہ 2013ء میں پی پی 198 تھا۔ اس پر بیرسٹر وسیم خان بادوزئی نے تیس ہزار کے قریب ووٹ لئے تھے۔ اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کا امیدوار شہزاد بھٹہ بتیس ہزار سے زائد ووٹ لے کر جیتا تھا۔ پی ٹی آئی کا امیدوار اس حلقے سے محض 2284 ووٹ سے ہارا تھا۔ وسیم بادوزئی نے پی ٹی آئی 2011 ء میں جوائن کی تھی اور تب سے اب تک مسلسل پی ٹی آئی سے نہ صرف وابستہ ہے بلکہ چند سرگرم ترین افراد میں سے ایک ہے۔ اب اس حلقے سے شاہ محمود قریشی اپنی بھانجی کے شوہر معین ریاض قریشی کو میدان میں اتارنے کی تگ و دو میں ہے۔ کہا جارہا ہے کہ معین قریشی نے پی ٹی آئی 2013ء میں پی ٹی آئی جوائن کی تھی‘ حالانکہ حقیقت یہ ہے رشتے میں لگنے والے اعزازی بھانجے نے ماموں سمیت پی ٹی آئی 2011ئکے گھوٹکی والے جلسے میں جوائن کی تھی اور پھر 2012ء میں دوبارہ بھاگ کر مسلم لیگ نہ صرف جوائن کی بلکہ ملتان کے حلقہ پی پی 194 ( پرانا ) سے اپریل 2012 ء میں ضمنی الیکشن لڑا اور پیپلز پارٹی کے انتہائی غیر معروف کونسلر عثمان بھٹی سے ہار گیا۔ یہ سیٹ شاہ محمود کے مسلم لیگ ن چھوڑ کر پی ٹی آئی جوائن کرنے کے باعث خالی ہوئی تھی۔ اب شاہ محمود قریشی اپنے بھانجے کو ایک ایسی نشست سے الیکشن لڑوانے کا خواہاں ہے‘ جہاں پہلے سے ایک مضبوط اور پرانا کارکن وسیم خان باو وزئی موجود ہے۔ یہ صوبائی نشست بھی حلقہ این اے 154 کے نیچے والی نشست ہے‘ جو سکندر بوسن کا حلقہ ہے‘ لیکن یہاں کسی ” نظریاتی کارکن ‘‘ کو کسی کی حق تلفی نظر نہیں آرہی‘ جبکہ قومی اسمبلی کی اس نشست پر سب کی ” اصولی چیخیں ‘‘ نکل رہی ہیں۔
خود شاہ محمود قریشی شہر کی دو صوبائی نشستوں پی پی 213 اور 217 سے امیدوار ہے۔ پی پی 217 سے شاہ محمود کے امیدوار بننے سے پاپڑ فروش اور چینی فروش کی چھٹی ہوگئی ہے اور وہ بھی ناراض ہیں۔ ابھی بہت کچھ پردہ غیب میں ہے اور آہستہ آہستہ اس کا ظہور ہوگا۔ تب ایک عظیم گھڑمس رونما ہوگا۔ حلقے کم ہیں اور امیدوار زیادہ۔ ایک انار اور سو بیمار والا معاملہ ہے‘ لیکن سب بیمار ایسے ہیں ‘جو خنجر بکف ہیں ۔ اب دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ شاہ محمود گروپ فی الحال ملتان کی حد تک تو حاوی ہے‘ لیکن مفاد پرستوں کی آخری لڑائی باہمی لڑائی ہوتی ہے‘ جو عنقریب متوقع ہے‘ تاہم ایک بات طے ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکنوں کی لڑائی جاری رہی‘ تو یہ سیٹ پی ٹی آئی کے ہاتھ سے نکل جائے گی کہ احمد حسین ڈیہڑ کے ہاتھ پر حلقہ این اے 154 سے جیتنے کی لکیر ہی نہیں ہے۔ یہ اس عاجز کا اندازہ ہے‘ دعویٰ نہیں اور کبھی دعویٰ کرنا بھی نہیں چاہئے۔