دعوت اسلامی کارِ انبیاؑ ہے۔ انبیا ورسلؑ کی بعثت‘ وحی اور نزول کتاب کا مقصد انسانوں کے سامنے حق وباطل کو واضح کرنا اور راہِ راست پہ چلنے کی تعلیم دینا تھا۔ اس عظیم منبع رشد وہدایت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت ورہنمائی کے لیے انسان کے اندر ضمیر کی شمع روشن کی۔ قرآن مجید کے الفاظ میں یہ نفسِ لوّامہ ہے۔ یہ شمع بلاشبہ بڑی قیمتی اور موثر ہے، مگر یہ بذات خود کافی اور کامل نہیں ہے۔ رب کائنات نے اس شمع کے ساتھ ساتھ آفتابِ ہدایت بصورت وحی انسانیت کو عطا کرکے ضلالت کے اندھیروں کو مستقل طو رپر دور کردیا۔ انبیاؑ نے اپنے فرائض بطریق احسن ادا کیے اور حق وباطل کو کھول کر بیان کردیا۔ چونکہ انسان کو نفسِ لوّامہ کے ساتھ ساتھ نفسِ امّارہ کی آزمائش سے بھی دوچار کیا گیا ہے، اس لیے انسانوں کی قلیل تعداد ہی نے حق کا ساتھ دیا اور اکثریت نے نفسِ امّارہ کے زیر اثر روگردانی، بے اعتنائی، بغاوت اور عداوت کا راستہ اپنایا۔
سلسلہ انبیاؑ حضور نبی کریم حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مکمل ہوچکا ہے۔ آپؐ کے بعد دعوت حق کا اہم فریضہ آپؐ کی امت کے سپرد کیا گیا ہے۔ امت نے زوال پذیری کے تحت بحیثیت مجموعی عمومی طورپر اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں تساہل ہی نہیں برتا بلکہ ایک کثیر تعداد نے اس کے ساتھ معاندانہ رویہ بھی اختیار کیا۔ اس کے باوجود یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس امت میں ہر دور‘ ہر ملک اور ہر علاقے میں کچھ لوگ ہمیشہ ایسے موجود رہے ہیں جنھوں نے نامساعد حالات میں بھی یہ فریضہ سرانجام دیا۔ یہ لوگ مجدّد دین یا ان کے ساتھ مل کر کام کرنے والے مخلص مومنین ہوتے ہیں۔
تجدید واحیائے دین کی تحریکوں میں یوں تو بے شمار عظیم المرتبت شخصیتوں کے نام نظر آتے ہیں، مگر ائمہ اربعہ کا خاص اور ممتاز مقام ہے۔ عموماً لوگ ان اماموں کو فقہ کے بانی سمجھتے ہیں اور یہ بات اپنی جگہ درست بھی ہے کہ فقہ کو مدوّن کرنے اور امت کی رہنمائی کے لیے ان کے کارنامے قیامت تک یاد گار رہیں گے، مگر ان کی حیثیت محض فقہی علما اور مفتیوں کی نہیں تھی۔ یہ حقیقت میں اپنے دور کے سیاسی استبداد اور شخصی حکومتوں کے مقابلے پر دعوتِ حق کے علم برداربھی تھے۔ دعوتِ حق کا کام بڑا مشکل اور کٹھن کام ہے۔ اس کام کے نتیجے میں ابتلا وامتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ ائمہ اربعہ نے آزمائشیں جھیلیں۔ حضرت امام شافعیؒ نسبتاً براہِ راست تصادم سے محفوظ رہے، مگر دیگر تینوں ائمہ، حضرت امام ابوحنیفہؒ، حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ کو تو حالات نے نظام حکومت کے ساتھ براہِ راست ٹکر لینے پر مجبور کردیا۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کے فقہی پیروکاروں کی تعداد امت مسلمہ کے درمیان سب سے زیادہ ہے۔ بے شمار لوگ ان سے قلبی لگاؤ اور گہری عقیدت رکھتے ہیں، مگر اس حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ حضرت امام کا جنازہ جیل سے اٹھا تھا۔ ہم ذیل میں نہایت اختصار کے ساتھ ان کے کچھ حالات درج کررہے ہیں۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کا اسم گرامی نعمان بن ثابت اور کنیت ابوحنیفہ ہے۔ آپ80ھ میں پیدا ہوئے اور 150ھ میں بحالت اسیری بغداد کے زندان میں وفات پائی۔ آپ کوفے میں کپڑے کے سب سے بڑے اورکامیاب تاجر و صنعت کار تھے۔ آپ نے زندگی کی تمام آسائشوں کو حق کی خاطر ترک کیا اور اپنے موقف پر ایسی استقامت دکھائی کہ مال ودولت کے ضیاع اور قید وبند کی صعوبتوں سے بھی ثابت قدمی میں کوئی لغزش نہ آئی۔
حضرت امام اعظمؒ کی علمی خدمات کا پوری دنیا میں شہرہ ہے، مگر داعیٔ حق کی حیثیت سے انھوں نے جو نقوشِ پا چھوڑے ہیں حقیقت میں وہ روشنی کا عظیم الشان مینار ہیں۔ مستبد حکمرانوں کے مقابلے پر امام ابوحنیفہؒ نے اپنے وقت کی اصلاحی تحریک کا ساتھ دیا۔ یوں تو محمد بن عبداللہ (نفس زکیہ) اور ان کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ کا ساتھ کئی لوگوں نے دیا، مگر اس پر استقامت کا حق امام اعظمؒہی نے ادا کیا۔ ایک جانب ان کے سامنے قاضی کا منصب پیش کیا گیا جسے انھوں نے ٹھکرا دیا تو دوسری جانب ان پر زندان کے دروازے کھول دیے گئے۔ امام اعظمؒنے پس دیوارِ زنداں جانا پسند کیا، مگر مداہنت برتنے اور مستبد آمریت وملوکیت کے نظام کا حصہ بننے سے صاف انکار کردیا۔
امام مالک بن انسؒ (93ھ-179ھ) ”امام دارالہجرت‘‘ کے عظیم لقب سے معروف ہیں۔ بنوعباس کے دور میں ان سے حکمرانوں نے اپنی مرضی کا فتویٰ لینا چاہا تو امام نے صاف انکار کردیا۔ اس کی پاداش میں انھیں ستر کوڑے بھی لگائے گئے اور آپ کا نورانی چہرہ سیاہ کرکے، گدھے پر سوار کرکے مدینے کی گلیوں میں گھمایا بھی گیا۔ آپ نے کوئی کمزوری دکھانے کی بجائے کھلم کھلا ہر گلی اور چوراہے پر اپنے برحق موقف کا اعلان کیا اور مستبد حکمرانوں کے غلط افکار کا برملا ابطال بھی کیا۔ آپ فرماتے تھے: ”لوگو! جو مجھے جانتے ہیں، وہ تو جانتے ہیں، جو نہیں جانتے وہ جان جائیں کہ میں مالک بن انس ہوں اور میرا فتویٰ ہے کہ جبر سے بیعت لینا اسلام میں کسی صورت جائز نہیں۔ یوں امام مسجدنبویؐ نے اپنا موقف پورے شہر میں بڑی جرأت اور وضاحت کے ساتھ ڈنکے کی چوٹ بیان کردیا۔ حکمرانوں کو کامیابی تو کیا ملتی، ذلت ورسوائی ہی ان کے حصے میں آئی۔
امام احمد بن حنبلؒ (164ھ -241ھ) بڑے عظیم المرتبت داعیٔ حق تھے۔ عباسی خلیفہ مامون الرشید کے اٹھائے ہوئے فتنہ خلق قرآن کے سلسلے میں امام احمد بن حنبلؒ سخت آزمائش سے دوچار ہوئے۔ مامون الرشید اور معتصم باللہ کے دور میں ان پر کوڑے برسائے جاتے تھے۔ متوکل کا دور آیا تو اس نے امام صاحب کو رہا کرکے گھر بھیج دیا۔ پھر ان کی خدمت میں اشرفیوں کے توڑے بھیجے۔ امام نے طویل عرصے تک کوڑے برداشت کیے، مگر اشرفیوں کے توڑے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انھوںنے کہا متوکل کے توڑے مامون ومعتصم کے کوڑوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ امام نے نہ صرف یہ کہہ کر توڑے واپس بھیج دیے بلکہ حکومت وقت کی پیش کردہ تمام مراعات کو بھی مسترد کردیا۔
ایک روایت کے مطابق حصرت امام شافعیؒ کو خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام احمد بن حنبلؒکے امتحان کی خبر دی تھی اور ساتھ ہی یہ تاکید فرمائی تھی کہ وہ ا پنے موقف پر ڈٹے رہیں۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت بھی دی کہ اس ثابت قدمی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ قیامت تک ان کے نام کو بھی روشن رکھے گا اور ان کے علم کا نور بھی پھیلاتا رہے گا۔ کتب حدیث میں صحاحِ ستہ کا مقام انتہائی بلند ہے۔ ان کے علاوہ مسانید کی اپنی شان ہے۔ ان مسانید میں سب سے زیادہ معروف امام احمد بن حنبلؒ کا مجموعۂ احادیث ہے، جو مسنداحمد کے نام سے معروف ہے۔ امام موصوف نے راویانِ حدیث‘ صحابہ کرامؓ کے اسمائے گرامی کو ان کے حروف تہجی کے تناظر میں ترتیب وار لکھ دیا۔ یعنی ہرصحابی کی روایت کردہ احادیث ان کے نام کے تحت ایک ہی جگہ درج کی گئی ہیں۔ پانچ ضخیم جلدوں اور کم وبیش تین ہزار صفحات پر مشتمل یہ مجموعہ اپنی مثال آپ ہے۔
اس امت کے عظیم داعیانِ حق حضرت امام ابن تیمیہؒ، حضرت امام غزالیؒ اور حضرت شیخ احمد سرہندیؒ وقت کے طاغوتوں کو للکارتے رہے۔ ان کے دام تزویر میں آنے کی بجائے طوق وسلاسل کو منتخب کیا۔ ابتلا وآزمائش کی بھٹیاں انھیں جادۂ حق سے برگشتہ تو نہ کرسکیں، البتہ وہ ان سے کندن بن کر نکلے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اگرچہ سخت ابتلا اور براہِ راست تصادم کا دور تو نہ دیکھا، مگر وہ بھی شاہی دربائوں کی مراعات سے ہمیشہ دور رہے۔ کلمۂ حق زبان سے اور قلم سے بھی پورے زور اور متانت کے ساتھ بلند کرتے رہے۔ ان کا علمی ورثہ اس امت کے لیے ایک عظیم سرمایہ ہے۔