منتخب کردہ کالم

مجذوب یا ماہرِ نفسیات ؟ … بلال الرشید

مجذوب یا ماہرِ نفسیات ؟ … بلال الرشید

یہ 2014ء کا موسمِ سرما تھا۔ آزاد کشمیر سے میرے دوست سجاد حسین نے اپنے بھائی کو ماہرِ نفسیات کو دکھانا تھا۔ وہ obsessionکا مریض تھا۔ obsessionمیں مریض کا ذہن ایک جگہ پراٹک جاتا ہے ۔ ہو سکتاہے کہ وہ گھنٹوں ہاتھ دھوتا رہے ۔ روزمرہ زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے ۔ سجاد حسین کے ساتھ میںپروفیسر ڈاکٹر ملک حسین مبشر کے ہسپتال گیا ۔ ایسا لگا کہ زندگی میں پہلی بار ایک مسیحا کو دیکھا ہے ۔ اپنے ہر مریض کے لیے غمزدہ ۔ اس دکھ کو وہ ظاہر نہیں ہونے دیتابلکہ دل میں چھپائے رکھتا ہے ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مریض جب اس کے کمرے میں داخل ہوتا ہے تو اس کا چہرہ ، اس کے چلنے کے انداز، بدن بولی اور چہرے کے تاثرات سے وہ اس کی بیماری کا اندازہ لگا لیتا ہے ۔یوں آٹھ دس قدم چل کر جب مریض اس کے سامنے بیٹھتا ہے تو وہ اس کی تکلیف سے بخوبی واقف ہوتاہے ۔ بطور ایک کالم نگار کے، انسانی دماغ میرے لیے خصوصی دلچسپی رکھتاہے ۔ انسانی کاسہ ء سر کے اندر ایک پوری کائنات خدا وندِ کریم نے آباد کرر کھی ہے ۔ پہلی بار اس کائنات کا ایک بڑا ماہرِ فلکیات میری دسترس میں تھا اور میں اس سے بھرپور استفادہ کر سکتا تھا۔ بعد ازاں میں نے سجاد حسین سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ اس کا بھائی اب بہت بہتر ہے ۔وہ معمول کی زندگی گزارنے کے قابل ہو چکا ہے ۔ میں سوچنے لگا کہ ایک جان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے ۔ ذہنی بیماری کی حالت میں بعض اوقات انسان مردوں سے بھی بدتر ہوجاتاہے ۔ ایسی ایک جان کو اذیت سے نکا ل کر راحت تک لانا ، اسے موت سے زندگی کی طرف لانا کتنا بڑا کام ہے ۔ ایک پورا خاندان اس سے متاثر ہوتاہے ۔ایسی کہانیاں معاشرے میں بکھری پڑی ہیں ۔
اس کے ساتھ ہی دوسرا واقعہ پیش آیا ۔ ہمارے گھر یلو کام کاج ، صفائی ، برتن اور کپڑے دھونے والی ملازمہ ممتاز بی بی نے بتایا کہ اس کا شوہر واجد علی مرگی میں مبتلا ہے ۔ میں نے واجد علی کو دیکھا۔ اس کے چہرے ، ماتھے اور سر پر بے شمار چوٹیں لگی ہوئی تھیں ۔ تیس سال سے وہ مرگی کا مریض تھا۔ اس وقت مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ مرگی کا مرض ماہرِ نفسیات نہیں بلکہ نیورالوجسٹ کے دائرئہ کار میں آتا ہے ۔ صرف اتنا معلوم تھا کہ یہ دماغ کی بیماری ہے اور ڈاکٹر ملک حسین مبشر دماغ کے ڈاکٹر ہیں ۔ واجد علی کو میں ڈاکٹر ملک حسین مبشر کے پاس لے گیا۔ اس نے دوا کھانا شروع کی اور پچھلے چار برس سے اسے کوئی دورہ نہیں پڑا۔وہ میڈیا ٹائون اسلام آباد میں کہیں چوکیداری کرتاہے اور اب بھی بعض اوقات اس سے ملاقات ہوجاتی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کو اندازہ تھا کہ وہ ہزاروں روپے کے ٹیسٹ کرانے اور ہر ماہ مہنگی ادویات خریدنے کی سکت نہیں رکھتا ۔ انہوں نے اسے خود ہی وہ سستی ترین ادویات لکھ دیں ، جنہیں اگر وہ لیتا رہتا تو دماغ کے دوروں سے بچا رہتا۔ یہ بھی انہوں نے بتایا کہ دوا شروع کر کے اگر چھوڑ دی تو مرگی پہلے سے بھی خطرناک اور ناقابلِ علاج شکل اختیار کر سکتی ہے ۔ مرگی کا مریض ادویات کے زیرِ اثر بہت سست ہو جاتاہے ۔ اسے اس سست جسم اور دماغ کے ساتھ زندگی گزارنے کا عادی ہونا ہوتا ہے ۔
یہ وہ وقت تھا، جب مجھے ذرا برابر بھی علم نہیں تھا کہ ہزاروں ذہنی مریضوں کا علاج کرنے والا یہ شخص ، جو 32سال کی عمر میں پروفیسر بن گیاتھا ۔ جس سے پڑھنے والے طلبہ پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ذہنی بیماریوں کا علاج کر رہے ہیں ، اندر سے ایک مجذوب ہے ۔یہ انکشاف ان کی آپ بیتی ” میم بشر‘‘ سے ہوا۔ایک مجذوب ، خدا کی محبت میں جو ہوش و حوا س کی دنیا سے گزر جاتاہے ۔ عقل والے جسے دیکھ کر ہنستے ہیں لیکن پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر روز وہ چولا بدل کر انہی عقل والوں کا علاج کرتا ہے ۔ خود میں عقل کا غلام ہوں ۔ مجھے ان کیفیات سے کبھی واسطہ پڑاہی نہیں ،”میم بشر ‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر ملک حسین مبشر نے جن کا ذکر کیا ہے ۔
ایک مرتبہ اسلام آباد کے ایک نوجوان نیورو فزیشن کے سامنے ڈاکٹر ملک حسین مبشر کا ذکر ہوا۔ اس نے پوچھا :ڈاکٹر صاحب کی فیس کتنی ہے ۔ میں نے کہا : پانچ سو روپے ۔ اس نے حیرت سے کہا، یہ کیسے ممکن ہے ؟ میں ان کا طالبِ علم تھا۔ آج میری فیس پندرہ سو روپے ہے ۔ ڈاکٹر ملک حسین مبشر پانچ سو روپے والا ڈاکٹر نہیں ہو سکتا۔ میں نے کچھ معلومات لیں تو معلوم ہوا کہ ان کے ایک شاگرد کی فیس 3ہزار روپے ہے ۔ ڈاکٹر صاحب اگر اپنی فیس 3ہزار روپے مقرر کرتے تو بھی ان کے پاس اسی طرح لوگوں کا ہجوم ہوتا۔ اشرافیہ کے کچھ لوگ تو ان کی کم فیس اور ہسپتال کا دیسی ماحول دیکھ کر واپس چلے جاتے ہیں ۔ اب میں نے حساب لگانا شروع کیا۔ وہ تین ہزار روپے فیس لے سکتے تھے لیکن لے صرف پانچ سو رہے ہیں ۔ روزانہ اگر وہ 100مریضوں کو دیکھتے ہیں تو اپنی مرضی سے وہ 2لاکھ پچاس ہزار روپے ضائع کر رہے ہیں ۔ مہینے کے 75لاکھ روپے اور سال کے 9کروڑ روپے ۔ اب سال کے 9کروڑ روپے اپنے ہاتھ سے کون چھوڑ سکتاہے اور وہ بھی جائز اور حلال ؟دولت اس شخص کا پیچھا کر رہی ہے اور وہ اس سے بے نیاز ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ ذہنی بیماریوں سے متاثر ہونے والے زیادہ تر لوگ وہ ہیں ، جو مہنگا علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتے ۔
یہاں پر مجھے ان سے ایک شکوہ بھی ہوا ۔ میں نے ان سے کہا کہ انسانی دماغ ایک پوری کائنات ہے ۔ آپ اس کائنات کے ماہرِ فلکیات ہونے کے باوجود اپنا تعارف ماہرِ نفسیات کے طور پر کرانا نہیں چاہتے بلکہ اسے اہمیت ہی نہیں دیتے ۔ رہی ان کی جذب والی فیلڈ تو جیسا کہ میں نے کہا، میں عقل کا غلام ہوں ۔ ان کیفیات سے کبھی نہیں گزرا ۔ اگر گزرنا ہی پڑے تو شاید واپس عقل کی دنیا میں واپس قدم نہ رکھ سکوں ۔ اس لیے میں ان کی کتاب کھولتا ہوں اور ڈر کے بند کر دیتا ہوں ۔ ایک ایسا شخص، جو نفیس ذوق نہ رکھتا ہو، وہ اچھے شعر کی کیا داد دے سکتا ہے ؟جسے کبھی عشق نہ ہواہو، وہ ہجر اور وصل کے معنی کیا جانے ؟
ایک شخص کو میں نے دیکھا ، جسے سٹریچر پر لایا گیا تھا، جو اپنی انگلی بھی ہلا نہیں سکتا تھا۔ میں حیران اور خوف زدہ رہ گیا ۔ انہوں نے بتایا کہ depression کی ایک قسم میں ایسا بھی ہوتا ہے ۔ میں نے پوچھا کہ کیا ایسے مریض بھی آپ نے ٹھیک کیے ہیں ۔ وہ ہنسے اور کہا بے شمار ۔ بے شمار راز اس بوڑھے پروفیسر ڈاکٹر کے سینے میں پوشیدہ ہیں ۔ لوگ چوری چھپے اس کے پاس اپنے ذہنی علاج کے لیے آتے ہیں کہ ان پر بدنامی کا داغ نہ لگ جائے۔ خاموشی سے انہیں دوا دے کر رخصت کر دیتاہے ۔ کسی کو ان کا نام نہیں بتاتا۔پروفیسر ڈاکٹر ملک حسین مبشر کا کہنا یہ ہے کہ ماہرِ نفسیات کے پاس لوگ اس طرح چوری چھپے جاتے ہیں ، جیسے کسی خفیہ جگہ ۔
پروفیسر ڈاکٹر ملک حسین مبشر کے مریضوں کو دعا کرنی چاہیے ۔ یہ نہ ہو کہ ایک دن ان کے اندر کا مجذوب صبح کلینک واپسی سے انکار کر دے۔ پھر کیا ہوگا؟

……………..
عمران اور نواز شریف کا موازنہ .. کالم بلال غوری