انسانی تاریخ میں دوکیلنڈر رائج رہے ہیں: ایک قمری اور دوسرا شمسی، یعنی ایک کا تعلق قمری مہینے کے آغاز اور اختتام سے ہے اور دوسرے کا تعلق شمسی نظام سے ہے۔ قمری سال کو سنِ ہجری یا اسلامی سال سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اسلامی عبادات زکوٰۃ، روزہ اور حج کا تعلق قمری سال سے ہے، پس اگر کسی خاتون کے شوہر کی قمری سال کے کسی مہینے کی پہلی تاریخ کو وفات ہو جائے تو چار قمری مہینے گزرنے کے بعد پانچویں قمری مہینے کی دس تاریخ پر اس کی عدّت ختم ہو جائے گی، لیکن اگر وفات مہینے کے درمیان میں ہو تو عدّت کے ایک سو تیس دن پورے کیے جائیں گے۔ خاتم النبیّین سیّدُنا محمد رسول اللہﷺ کی بعثت سے پہلے عرب کسی اہم واقعے کی مناسبت سے اپنی تاریخ کو یاد رکھتے تھے، جیسے کافی عرصے تک ”واقعۂ اصحابِ فیل‘‘ اس کے لیے معیار بنا رہا۔
مسلمانوں کے تاریخی حوالے کے لیے ہجری کیلنڈر کا باقاعدہ استعمال رسول اللہﷺ کے دوسرے خلیفۂ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کیا، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ حضرت عمرؓ کی جانب سے یمن کے گورنر تھے، ان کے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرامین آتے تھے، ان پر تاریخ درج نہیں ہوتی تھی۔ 17 ہجری میں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے توجہ دلانے پر حضرت عمرؓ نے صحابۂ کرام کو جمع فرمایا اور مشاورت کے بعد قرار پایا کہ اسلامی کیلنڈر کی بنیاد واقعۂ ہجرت کو بنایا جائے اور اس کی ابتدا ماہِ محرّم سے کی جائے؛ پس ہجری تقویم کا رائج کرنا حضرت عمر فاروقؓ کی اولیات میں سے ہے۔
یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے: اسلامی قمری سال سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس کے مقابل شمسی سال غیر اسلامی ہے، ہماری عبادات میں سے نماز کے اوقات، روزے کے سحر و اِفطار کے اوقات اور مناسکِ حج کے بعض اُمور کا تعلق بھی شمسی نظام سے ہے، نو ذوالحجہ کو وقوفِ عرفہ کے لیے طلوعِ آفتاب کے بعد منیٰ سے عرفات کے لیے روانہ ہونا، غروبِ آفتاب کے بعد عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانہ ہونا اور دس ذوالحجہ کو طلوعِ آفتاب سے کچھ قبل مزدلفہ سے منیٰ کے لیے روانہ ہونا وغیرہ، یہی صورتِ حال رمیِ جمرات کے اوقات کی ہے۔ دراصل نظامِ شمس و قمر دونوں اللہ کی تخلیق ہیں، اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے مقررہ تکوینی نظام (Cosmological System) کے تابع ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (1) ”سورج اور چاند (اللہ تعالیٰ کے مقررہ) ضابطے کے پابند ہیں اور زمین پر بچھا ہوا سبزہ اور (اپنے تنے پر کھڑے) درخت (اپنی اپنی نوع کے مطابق اللہ تعالیٰ کے حضور) سجدہ ریز ہیں‘‘ (الرحمن: 5 تا 6)۔ (2) ”اور سورج اپنے مقررہ راستے پر رواں دواں ہے، یہ بہت غالب بے حد علم والے (خالق ) کا بنایا ہوا نظام ہے اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کی ہیں، یہاں تک کہ (مہینے کے آخر میں وہ) کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے، نہ تو سورج کی مجال ہے کہ (چلتے چلتے) چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن سے پہلے آ سکتی ہے اور سب سیارے اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں‘‘ (یٰس: 38 تا 40)۔ (3) ”اور ہم نے رات اور دن کو (اپنی قدرت کی) دو نشانیاں بنایا، پھر ہم نے رات کی نشانی کو مٹایا (یعنی چاند کی روشنی کو ماند کر دیا) اور دن کی نشانی کو دیکھنے کے لیے معاون بنایا تاکہ تم اپنے رب کے فضل کو حاصل کر سکو اور (گردشِ لیل و نہار سے) تم برسوں کی گنتی اور (دوسرے معاملات کا) حساب جانو اور ہم نے ہر چیز کو تفصیل سے بیان کر دیا ہے‘‘ (بنی اسرائیل: 12)۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شمسی تقویم کو بھی برسوں کی گنتی اور حساب کا معیار قرار دیا ہے، اس لیے اگر انسان اپنے دنیاوی معاملات کا نظام شمسی کیلنڈر کے حساب سے مرتّب کرے تو یہ بھی اسلام کے مخالف نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام میں ابتدائے آفرینش سے سال بارہ مہینوں پر مشتمل رہا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ”بے شک اللہ کی کتابِ (تقدیر) میں، جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا، (سال بھر کے) مہینوں کی تعداد بارہ ہے، ان میں سے چار مہینے حُرمت والے ہیں، یہی دینِ مستقیم ہے‘‘ (التوبہ: 36)۔ سال کے چار موسم بہار، گرما، خزاں اور سرما کا تعلق بھی نظامِ شمسی سے ہے۔ ملتِ ابراہیمی میں چار مہینے حُرمت والے چلے آ رہے تھے، ان میں جنگ و جدال کو ممنوع قرار دیا گیا تھا، اس کی تفصیل حدیث ِ پاک میں ان الفاظ میں بیان ہوئی: ”سال بارہ مہینے کا ہے، ان میں سے چار حُرمت والے ہیں، تین یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم الحرام پے در پے آتے ہیں اور ایک مہینہ ”رجبِ مُضَر‘‘ ہے جو جمادی الثّانیہ اور شعبان المعظم کے درمیان واقع ہوتا ہے‘‘ (بخاری: 4662)۔
اِن حُرمت والے مہینوں میں ایک مہینہ مُحرم الحرام کا ہے، جو ابتدائے آفرینش سے ہی حُرمت والا ہے، اِس ماہ کا ایک دِن جسے یومِ عاشور (دس محرم ) کہا جاتا ہے، عشر سے مشتق ہے، جس کے معنیٰ ”دس‘‘ کے ہیں۔ عاشور سے مراد ماہِ مُحرم کا دسواں دن ہے۔ بعض اہلِ علم کا قول یہ ہے کہ اس دن کو عاشور اِس لیے کہتے ہیں کہ اِس دن میں اللہ تعالیٰ نے دس انبیائے کرام علیہم السلام پر اپنی خصوصی نعمتوں کا نزول فرمایا، اس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: (1) زمین پر اترنے کے بعد اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔ (2) طوفانِ نوح تھم جانے کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی سلامتی کے ساتھ کوہِ جودی پر کنارے لگی۔ (3) حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اُن کی قوم کو فرعون اور فرعونیوں سے نجات ملی اور فرعون اپنے لائو لشکر سمیت سمندر میں غرق ہوا۔ (4) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور اسی دن انہیں آسمانوں پر اٹھایاگیا، (5) حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی نے صحیح سالم ساحل پر اُگل دیا اور اِسی دن اُن کی اُمّت کا قصور معاف ہوا۔ (6) حضرت یوسف علیہ السلام کو صحیح سالم کنویں سے باہر نکالا گیا۔ (7) حضرت ایوب علیہ السلام کو طویل بیماری سے صحت یابی ملی۔ (8) حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھالیا گیا۔ (9) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور اِسی دن اُن پر نارِ نمرود گلزار ہوئی۔ (10) حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملک عطا ہوا اور سلطنت سے نوازا گیا۔ یہ روایات ہیں‘ حقیقتِ حال اللہ تعالی بہتر جانتا ہے۔
امام احمد بن حسین بیہقیؒ لکھتے ہیں: ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! اللہ تعالیٰ نے ہمیں یومِ عاشور کی فضیلت دی ہے، آپﷺ نے فرمایا: ہاں! اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو یومِ عاشور میں پیدا کیا اور اِسی طرح زمینوں آسمانوں، عرش، کرسی اور لوح و قلم کو اسی دن پیدا کیا، حضرت جبریل و ملائک اور حضرت آدم و حوا اور جنت کو اسی دن پیدا کیا اور انہیں اس میں ٹھہرایا، اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام یومِ عاشورکو پیدا ہوئے اور اسی دن اُنہیں نمرود کی آگ سے نجات ملی‘‘ (فضائل الاوقات، ص: 441)۔ الغرض سانحۂ کربلا سے پہلے بھی یومِ عاشور کو مُکرم و مُعظم مانا جاتا تھا۔ ایک حدیث شریف کی رُو سے قیامت بھی دس مُحرم جمعۃ المبارک کو وقوع پذیر ہو گی۔
اِ س دن کے روزے کی فضیلت بھی احادیث میں آئی ہے: (1) ”حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپﷺ نے دیکھا: یہود یومِ عاشور کا روزہ رکھتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے ان سے دریافت فرمایا: اِس دن تمہارے روزہ رکھنے کا سبب کیا ہے، انہوں نے جواب دیا: یہ ایک عظیم دن ہے، اللہ تعالیٰ نے اِس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کر دیا، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس نعمت کا شکر ادا کرنے کے لیے اِس دن کا روزہ رکھا اور ہم بھی (ان کے اتباع میں) اس دن کا روزہ رکھتے ہیں، سو رسول اللہﷺ نے فرمایا: (نظریاتی اعتبار سے) حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہماری قربت تم سے زیادہ ہے اور ہم اس بات کے زیادہ حق دار ہیں (کہ ان کی قائم کردہ سنّت کوجاری رکھیں)، چنانچہ رسول اللہﷺ نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھا اور صحابۂ کرام کو بھی اس کا حکم فرمایا‘‘ (مسلم: 1130)۔ (2) ”حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں: جب رسول اللہﷺ نے یومِ عاشورکا روزہ رکھا اورصحابہ کو بھی اس کا حکم فرمایا، تو انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! یہود و نصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا: جب آئندہ سال آئے گا، تو ان شاء اللہ ہم نو و دس محرم (دو دن) کا روزہ رکھیں گے (تاکہ یہود کے ساتھ مشابہت نہ رہے)‘‘ (مسلم: 1134)۔ (3) ”آپﷺ نے فرمایا: رمضان کے روزوں کے بعد اللہ کے حُرمت والے مہینے محرم کے روزوں کی فضیلت سب سے زیادہ ہے‘‘ (ترمذی: 740)۔ (4) ”حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا: رمضان کے روزوں کے بعد ایسا کون سامہینہ ہے، جس کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم فرماتے ہیں، انہوں نے فرمایا: میں نے ایک شخص کے سوا کسی کواس کے بارے میں سوال کرتے ہوئے نہیں سنا، اس نے رسول اللہﷺ سے یہی سوال کیا تھا، میں اس وقت آپﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس نے عرض کی: یا رسول ﷺ! ماہِ رمضان کے روزوں کے بعد ایسا کون سا مہینہ ہے، جس کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم فرماتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا: اگر تم رمضان کے روزوں کے بعد (نفلی) روزے رکھنا چاہتے ہو تو محرم کے روزے رکھو، کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور بعد میں آنے والوں کی توبہ بھی اس مہینے میں قبول فرمائے گا‘‘ (ترمذی: 741)۔
(5) ”حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں: قریش زمانۂ جاہلیت میں یومِ عاشور کا روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اللہﷺ نے اس کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، یہاں تک کہ (پھر) رمضان کے روزے فرض ہو گئے، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص چاہے یومِ عاشور کا نفلی روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے‘‘ (مسلم: 1125)۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں یومِ عاشور کا روزہ واجب تھا، بعد میں اب اس کی حیثیت نفلی روزے کی ہے۔ لہٰذا جن احادیثِ مبارکہ میں یومِ عاشور کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ہے، وہ سنّت و استحباب کے درجے میں ہے۔ پھر 61 ہجری میں سانحۂ کربلا محرم الحرام کا سب سے بڑا عنوان قرار پایا، اس ماہ کے شروع ہوتے ہی ہر مسلمان کے ذہن میں امام عالی مقام اور اُن کے اعوان و انصار رضی اللہ عنہم کی بے مثال قربانیوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔