منتخب کردہ کالم

محسنوں کو سراہنے کی ضرورت…مرزا اشتیاق بیگ

محسنوں کو سراہنے کی ضرورت

محسنوں کو سراہنے کی ضرورت…مرزا اشتیاق بیگ

گزشتہ دنوں چین کی حکمراں جماعت کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے موجودہ صدر شی جن پنگ کو تاحیات صدر بنانے کیلئے آئین میں کی گئی ترمیم کو دنیا بھر میں غیر معمولی اہمیت دی گئی مگر پاکستان میں سینیٹ انتخابات کے باعث یہ خبر لوگوں کی توجہ حاصل نہ کرسکی۔ حالیہ آئینی ترمیم سے قبل چین میں صدر مسلسل دو بار پانچ پانچ برس مدت پوری کرنے کے بعد تیسری مرتبہ صدر کے عہدے پر فائز نہیں ہوسکتا تھا تاہم آئین میں ترمیم کے بعد اب شی جن پنگ مسلسل تیسری مرتبہ ملک کے صدر بن سکیں گے۔ شی جن پنگ کی دوسری صدارتی مدت رواں برس ختم ہونے والی تھی لیکن گزشتہ دنوں چین کی نیشنل پیپلز کانگریس کے پارلیمانی اجلاس، جو ہر 5سال بعد منعقد ہوتا ہے جس میں اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کا اگلا حکمران کون ہوگا، کے موقع پر اراکین نے بھاری اکثریت سے آئینی ترمیم کی منظوری دی جس کی رو سے صدر شی جن پنگ تاحیات صدر کے عہدے پر برقرار رہ سکتے ہیں اور اس طرح وہ ملکی تاریخ کے طاقتور ترین صدر بن جائیں گے۔
64 سالہ شی جن پنگ نے 1974ء میں کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی اور ترقی کرتے ہوئے 2013ء میں صدر منتخب ہوئے۔ صدر بننے کے بعد انہوں نے ملک میں اقتصادی اصلاحات متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ کرپشن کے خلاف سخت ترین مہم شروع کی جس کی بدولت چین نے بے مثال

ترقی کی۔ شی جن پنگ کو تیسری مرتبہ ملک کا صدر منتخب کرنے کی بڑی وجہ اُن کی اقتصادی اصلاحات اور ترقیاتی منصوبے ہیں جن کی بدولت چین شی جن پنگ کی قیادت میں دنیا کی سپر پاور بن کر ابھرا۔ شی جن پنگ اپنے ویژن کے باعث چین کے بانی مائوزے تنگ کے بعد انتہائی بااثر اور طاقتور ترین لیڈر تصور کئے جاتے ہیں، اُن کے عہدے میں توسیع دینے کا مقصد بھی ان کے طویل المدت منصوبوں کی تکمیل اور اُن کے ارادوں کو حقیقت کا روپ دینا ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں جب پاکستان میں چین کے سفیر سن ویڈونگ فیڈریشن ہائوس کراچی تشریف لائے تو فیڈریشن کے نائب صدر کی حیثیت سے میری ان سے طویل ملاقات ہوئی۔ دوران ملاقات میں نے چینی سفیر سے چین کی ترقی کا راز دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’’چین کی ترقی کے تین راز ہیں۔ سیاسی استحکام، اقتصادی پالیسیوں کا تسلسل اور عدم محاذ آرائی کی پالیسی۔‘‘
آج جب چین دنیا کی سپر پاور بن کر ابھر رہا ہے، شی جن پنگ کی صدارتی مدت میں توسیع کا مقصد چین کی سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کو جاری رکھنا ہے کیونکہ چین کے پالیسی میکرز کا خیال ہے کہ ’’اگر کوئی نیا صدر آیا تو اِس سے چین کی ترقی کی رفتار متاثر ہوگی۔‘‘ میں نے جب چین میں ہونے والے حالیہ اقدامات کا موازنہ پاکستان کی موجودہ صورتحال سے کیا تو اِس نتیجے پر پہنچا کہ کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے اقتصادی پالیسیوں کا تسلسل انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ میاں نواز شریف کے دور حکومت میں ملکی معیشت نے تیزی سے ترقی کی، اقتصادی اور امن و امان کی صورتحال میںبہتری آئی، عوام کو لوڈشیڈنگ سے نجات ملی، وہ صنعتیں جو لوڈشیڈنگ کے باعث 12, 12 گھنٹے بند رہتی تھیں، اُن کا پہیہ 24 گھنٹے رواں دواں ہوا، ملک میں 2000 کلومیٹر طویل موٹر ویز کا جال بچھا، مثبت پالیسیوں کے باعث پاکستان اسٹاک ایکسچینج جو کسی بھی ملک کی معیشت کا بیرومیٹر سمجھا جاتا ہے، پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح 53,000 انڈیکس پر پہنچ گیا، انٹرنیشنل کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں موڈیز اور S&P پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری لائی، انٹرنیشنل میڈیا نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں مڈل کلاس طبقہ تیزی سے اوپر آرہا ہے جبکہ بلومبرگ نے پیش گوئی کی کہ 2025ء تک پاکستانی معیشت کا شمار دنیا کی 25 بڑی معیشتوں میں ہونے لگے گا لیکن پانامہ کیس میں اقامہ کی بنیاد پر وزیراعظم میاں نواز شریف کو نااہل قرار دینے سے پاکستان کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت بے یقینی کی صورتحال کے باعث زوال کا شکار اور اقتصادی پالیسیاں بری طرح متاثر ہوئیں جس کے بعد عالمی مالیاتی اداروں نے اعتراف کیا کہ میاں نواز شریف کو عہدے سے معزول کئے جانے کے باعث پاکستان کی اقتصادی ترقی متاثر ہوئی ہے۔
میرا سال میں تقریباً دو بار بزنس کے سلسلے میں چین آنا جانا رہتا ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اپنی اقتصادی اصلاحات اور سی پیک کی وجہ سے چین میں کافی مقبول ہیں۔ اسی طرح ترقیاتی کام مختصر مدت میں بروقت تکمیل کرنے کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی چین میں مثال دی جاتی ہے اور اگر کسی کام کو کم وقت میں بروقت پایہ تکمیل تک پہنچانا ہو تو چینی کہتے ہیں کہ ’’شہباز اسپیڈ میں کام کرو۔‘‘ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ نواز شریف کو پاکستان کی معیشت Turn Around کرنے کے صلے میں چین کے صدر شی جن پنگ کی طرح سراہا جاتا مگر ہم نے نواز شریف کے پاکستان پر کئے گئے احسانات کا بدلہ اُنہیں نااہل کرکے اتاردیا۔
زندہ قومیں اپنے ہیروز کے احسانات ہمیشہ یاد رکھتی ہیں لیکن احسان اتارنے کے حوالے سے ہمارا ریکارڈ کچھ اچھا نہیں۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان بنانے کے احسان کا بدلہ ہم نے اُن کی بہن فاطمہ جناح کو وطن دشمن قرار دے کر اور ملک کو دولخت کرکے اتاردیا،پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی ذوالفقار بھٹو کو پھانسی چڑھاکر ان کے احسانات کا بدلہ اتارا گیا، پاکستان کے میزائل پروگرام کی بانی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے احسانات کا بدلہ ہم نے اُنہیں قتل کر کے اتارا، ایٹم بم کے خالق اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے احسانات کا بدلہ ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے اُنہیں ٹی وی پر بےعزت کرکے اتارا،جو آج کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کو اندھیروں سے نکالنے، امن و امان کی صورتحال بہتر کرنے، اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور ملک کو ایٹمی قوت بنانے والے سی پیک منصوبے کے خالق نواز شریف کے احسانات کا بدلہ ہم نے اُنہیں نااہل قرار دے کر، اُن کی تضحیک کرکے اور عدالتوں کے چکر لگواکر اتاردیا اور یہ ثابت کردیا کہ ہم احسانات کا بدلہ اتارنے میں دیر نہیں کرتے۔ اس کے برعکس دنیا کی دیگر اقوام اپنے ہیروز کی خدمات اُن کی زندگی میں ہی سراہتی ہیں جیسا کہ بھارتی ایٹمی پروگرام کے بانی ڈاکٹر عبدالکلام کو اُن کی خدمات کے صلے میں ملک کا صدر بنایا گیا اور چین میں شی جن پنگ کو تاحیات صدر بناکر اُن کی خدمات کو سراہا گیا۔ کاش کہ پاکستان میں بھی چین اور بھارت کے اقدامات سے سبق حاصل کیا جائے اور قوم کے محسنوں کی تضحیک و تذلیل کرنے کے بجائے اُن کے احسانات کو سراہا جائے۔