منتخب کردہ کالم

محسنِ پاکستان .. کالم منیر احمد منیر

محسنِ پاکستان .. کالم منیر احمد منیر

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف ایک حالیہ انٹرویو میں ایٹمی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے کردار کے متعلق کہتے ہیں: ”اگر کوئی مجھ سے پوچھے‘ میری زندگی کا سب سے مایوس کن لمحہ کیا ہو گا تو میں بتاؤں گا، میں امریکہ گیا ہوا تھا۔ مجھے جارج بش نے کہا تھا کہ اگر برا نہ مانیں تو صبح سی آئی اے کے سربراہ جارج ٹینیٹ (Tenet) سے مل لیں۔ میں اس سے ملا تو اس نے بھی جوہری پھیلاؤ کے حوالے سے گفتگو کی….. اس نے ایک فائل نکالی اور مجھے دی….. پہلے تو ڈاکٹر عبدالقدیر میرا بھی ہیرو تھا لیکن اس واقعے کے بعد میں نے ان کو دفتر میں بلایا اور ان کو یہ ساری باتیں بتائیں‘ جس کے بعد وہ آنسوؤں سے رونا شروع ہو گئے۔ اس کے بعد انہوں نے میرے گھٹنوں کو پکڑ لیا۔ میں نے ان کو کہا کہ مجھے اور ملک کو شرمندہ نہ کریں۔ بیٹھ جائیں آرام سے۔ ابھی جو کچھ ہوا ہے اسے ہمیں ہینڈل کرنا ہے‘‘۔
اس مایوس کن لمحے میں ملک کو شرمندگی سے اس طرح بچایا گیا کہ 4 فروری 2004ء کی شام ہمارے اس ”محسنِ پاکستان‘‘ نے پاکستان ٹیلی ویژن پر ایٹمی ٹیکنالوجی منتقل کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگی۔ لیکن جنرل (ر) مشرف کے بیانِ مذکور کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے انہیں جھوٹا، مکار اور قوم و ملک کا غدار قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اگر راستی پر تھے، اور سی آئی اے کی فائل غلط کہہ رہی تھی تو اس وقت انہیں قوم کے سامنے اعترافِ جرم کرنے اور معافی مانگنے کے بجائے ڈٹ جانا چاہیے تھا۔ تب وہ ڈھیر ہو گئے، اب دلیر بن رہے ہیں۔ دنیاوی لحاظ سے جو لوگ بہ ظاہر بڑے نظر آتے ہیں ان میں سے بعض کی زندگی کے یہی تضاد قوم کے لیے مایوس کن ٹھہرتے ہیں۔
ہمارے یہ ایٹمی سائنس دان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خاں یہ احسان جتاتے نہیں تھکتے کہ انہوں نے پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنایا۔ اگرچہ ان کا یہ دعویٰ واقعاتی اور تاریخی لحاظ سے سراسر غلط ثابت کیا جا سکتا ہے کہ ملک ایٹمی قوت بننے سے نہ ناقابلِ تسخیر ہوتے ہیں نہ فاتحِ عالم۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو دنیا 8 ایٹمی ملکوں کی قوتِ قاہرہ تلے اب تک روندی جا چکی ہوتی‘ لبنان کی حزب اللہ کا حسن نصراللہ اسرائیل جیسی ایٹمی قوت کو ناکوں چنے نہ چبواتا‘ اور سپر پاور امریکہ ویت نام کے بعد عراق اور افغانستان میں تلملا کر نہ رہ جاتا۔ سوویت یونین ذلت آمیز انداز میں بکھرتا نہیں۔ جاپان امریکی ایٹم بموں سے اپنے ناگاساکی اور ہیروشیما کی تباہی کے باوجود دنیا کی ایک زبردست اقتصادی قوت نہ بنتا۔ اور ایٹمی قوت بھارت غیرایٹمی ملک سری لنکا میں کئی برس تک باغیوں کی پشت پناہی کرنے کے باوجود بالآخر بے بس نہ ہوتا۔
جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خاں پاکستان پر یہ احسان اس طرح جتاتے ہیں، گویا جب وہ بھوپال سے پھٹے ہوئے گردآلود کپڑوں، ننگے پیروں اور سر پر ٹرنک اٹھائے ایک حمال کے روپ میں پاکستان میں داخل ہوئے تو ان کی جیب میں ایٹم بم تھا جو انہوں نے حکومتِ پاکستان کے سپرد کرکے اس قوم پر ایک بہت بڑا احسان کیا۔ وہ اس حقیقت سے گریزاں رہتے ہیں کہ ان کی پرداخت اسی پاکستان نے کی۔ ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہی وہ ہالینڈ گئے۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں پاکستان بلا کر ایٹمی پلانٹ میں تعین کیا۔ ہالینڈ کے اس ادارے میں ڈاکٹر صاحب کے علاوہ اور بھی سائنس دان تھے۔ لوگ ان میں سے کسی ایک کا نام تک نہیں جانتے۔ ڈاکٹر صاحب وہاں رہتے تو انہی کی طرح مشین کا ایک پرزہ ہوتے۔ پاکستان نے انہیں دنیا بھر میں پہچان دی، شہرت دی، ان پر دولت نچھاور کی، اس قدر کہ وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے۔ بھوپال اور ہالینڈ نے انہیں وہ عزت نہ دی جو پاکستان سے ملی۔ پھر بھی ارشاد ہوتا ہے کہ پاکستان پر ان کا احسان ہے۔ فرض کی ادائیگی کو احسان کہنا، بہت خوب۔
ایٹمی حوالے سے ان کے مبینہ کردار پر قوم بھرپور سپاس گزاری کا مظاہرہ کرتی رہی، جو ڈاکٹر صاحب کو راس نہ آیا۔ ان کی نیک نامی کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب انہوں نے ایٹمی ٹیکنالوجی دوسرے ملکوں کو منتقل کرنے کا اعتراف کیا اور قوم سے معافی مانگی۔ دوسرے، جب بھارت میں ان کے ہم منصب یا ہم پیشہ ڈاکٹر عبدالکلام کو صدر بنایا گیا تو ان کی شکوہ مندی مزید ترش ہو گئی۔ اور جب 2013ء میں میاں محمد نواز شریف نے جناب ممنون حسین کو صدرِ پاکستان بنانے کا فیصلہ کیا تو ڈاکٹر صاحب کا بیان آیا کہ ایک ربڑی بیچنے والے کو صدر بنایا جا رہا ہے۔ سیاست اور سیاست دانوں کے متعلق اس قسم کے ہلکے بیان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی شناخت بن چکے ہیں جو ان کے ظاہری مقام سے یقینا لگا نہیں کھاتے، لیکن وہ دیے چلے جا رہے ہیں۔ حالانکہ کسی پارٹی کی مجلس عاملہ یا قیادت کو اس قسم کا فیصلہ کرتے وقت بہت کچھ دیکھنا پڑتا ہے۔ مثلاً، قیامِ پاکستان سے قبل صوبہ مہاراشٹرا کے ضلع شولاپور میں سر سلیمان حضرت جی ڈسٹرکٹ مسلم لیگ کے صدر تھے۔ جونہی مسلم لیگ پر کڑا وقت آیا، بھاگ گئے۔ ان کی جگہ عبدالستار بیڑی والا کو منتخب کیا گیا۔ یہ ایک معمولی پان بیڑی سگریٹ فروش تھے‘ لیکن جماعت کے لیے انتہائی مخلص۔ مسلم لیگ کے دن پھرے تو سر سلیمان حضرت جی جماعت میں واپس آ گئے‘ اور 1946ء کے عام انتخابات میں ٹکٹ کے لیے درخواست گزار ہوئے۔ جب تمام دستوری مراحل میں سے گزرنے کے باوجود کچھ طے نہ پا سکا تو مسلم لیگی آئین کی رو سے معاملہ صدر آل انڈیا مسلم لیگ کو پیش کیا گیا۔ قائد اعظمؒ نے ایک صاحبِ حیثیت سر سلیمان حضرت جی اور ایک معمولی بیڑی فروش کی پارٹی کے لیے خدمات اور لگن کا موازنہ کرتے ہوئے غریب عبدالستار بیڑی والا کے متعلق فرمایا: ”وہ مسلم لیگ کے ساتھ وفادار رہا، مسلم لیگ اس سے وفادار رہے گی‘‘۔ چنانچہ ٹکٹ غریب عبدالستار بیڑی والا کو دیا گیا۔ دولت مند آزاد امیدوار سر سلیمان حضرت جی کو بری طرح شکست ہوئی۔
ڈاکٹر صاحب کو کسی عہدے کے لالچ کے بجائے عزت اور سکون سے زندگی گزارنی چاہیے۔ لگتا ہے کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں۔ اگرچہ کسی قوم کی نظریاتی پختگی اور دھرتی سے گہرا لگاؤ بذاتِ خود ایک ایٹمی قوت ہے لیکن ایٹمی نشے میں ڈاکٹر صاحب کی زبان اور قلم اکثر لڑھک جاتے ہیں۔ وہ یہ تو فخر سے کہتے ہیں کہ ان کے اس احسان نے دشمن کو ملک پر حملہ ہونے سے روک دیا ہے لیکن جب وہ خود پاکستان کے نظریاتی وجود اور تشخص پر حملہ آور ہوتے ہیں تب ملک کی جغرافیائی حدود پر کسی دشمن کے حملہ آور ہونے کی ضرورت نہیں رہتی۔ 28 اکتوبر 2013ء سے 23 دسمبر 2013ء تک انہوں نے ایک اخبار میں لکھے گئے اپنے پانچ کالموں میں اس کا بھرپور مظاہرہ کیا جو ان کی تاریخ اور شواہد سے لاعلمی پر مبنی تھا۔ یہی کالم ایک انگریزی اخبار میں بھی شائع ہوئے، جو مولانا ابوالکلام آزاد کے اس انٹرویو پر مبنی تھے جو انہوں نے مارچ‘ اپریل 1946ء میں آغا شورش کاشمیری کو دہلی میں دیا تھا۔ اس میں مولانا کی پاکستان کے بارے میں پیش گوئیاں بیان کی گئی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنے رواں تبصرے میں انہیں تاریخ کا حصہ قرار دیتے رہے‘ اور پاکستان کے نظریاتی تشخص اور قائد اعظمؒ کی سیاسی دانش پر حملے کرتے رہے۔ اور اپنے قارئین سے کہتے، ”پڑھیے اور سر دُھنیے‘‘۔ اور بار بار زور دیتے رہے کہ یہ پیش گوئیاں حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی ہیں۔ تاریخی شواہد اور ریکارڈ سے اس کا جواب دیا گیا: ”مولانا ابوالکلام آزاد اور پاکستان_ ہر پیش گوئی حرف بہ حرف غلط‘‘۔ یہ جواب شائع نہ کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کتاب پڑھنے کے باوجود اپنے کسی کالم میں وضاحت تک نہ کی بلکہ اپنے یہ پاکستان اور قائد اعظمؒ مخالف کالم، کالموں پر مبنی اپنی کتاب میں شائع کروا دیے تاکہ جو پڑھے، اس کے ذہن میں زہر گھلتا رہے۔ یہ ہیں ہمارے محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب مدظلہ العالی۔