منتخب کردہ کالم

محقق کی لاعلمی (آتش فشاں) منیر احمد منیر

23مارچ کودنیاٹی وی چینل پراپنے ”محققانہ‘‘تبصرے میںپھریکم اپریل کو روزنامہ دنیا لاہورمیںایک مراسلے کے ذریعے ڈاکٹرمبارک علی نے1940ء کی قراردادِلاہورکے متعلق فرمایا:”انڈیاکے وائسرائے لارڈ لنلتھگونے یہ قراردادچودھری محمدظفراللہ سے لکھوائی، جنہوں نے اپنانام ظاہرنہ کرنے کی درخواست کی۔ بعدمیںیہ مسودہ قائداعظم محمد علی جناح اور برطانوی حکومت کی توثیق کے بعد23مارچ1940ء کو مسلم لیگ کے لاہور میں ہونے والے جلسۂ عام میں پیش کیا گیا‘‘۔
”درجوابِ آں غزل‘‘ کے عنوان تلے شائع اس مراسلے کے اخیر میں ڈاکٹر صاحب نے خود کو ایک محقق اور سکالر(عالم، فاضل) قرادیا ہے، لیکن ان کی تحقیق اور علمی فضیلت کا یہ عالم ہے کہ انہوںنے لنلتھگوپیپرز اور دیگر متعلقہ ریکارڈ ملاحظہ کرنے کا بھی تردد نہیں کیا۔ جبکہ ریکارڈ سے یہ روزِروشن کی طرح عیاںہے کہ دیگر انگریز وائسرائز اورحکام کی طرح لارڈ لنلتھگو(Linlithgo)بھی تقسیمِ ہند اور قیامِ پاکستان کا شدید مخالف تھا۔ چودھری خلیق الزماں”شاہراہِ پاکستان‘‘ میںلکھتے ہیں:” … وائسرائے نے یونٹی آف انڈیا کا نعرہ لگاکر کانگریس کو پچارادیا… سرظفراللہ…نے مجھ سے کہا کہ وہ ابھی لندن سے چندروزپہلے واپس آئے ہیں۔اپنے لندن کے قیام میں وہ وزیرہند، ممبرانِ پارلیمنٹ او راکثربڑے سیاسئین سے مل کر لوٹے ہیں اور یہ اثرلے کرلوٹے ہیںکہ برٹش گورنمنٹ کانگریس کے ساتھ ہرقیمت پر صلح کرلے گی۔لہٰذا انہوںنے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ بھی آشتی کا راستہ اختیارکریںایسانہ ہو کہYou may miss the bus”آپ کی بس چھوٹ جائے‘‘۔ میں نے کہا”سرظفراللہ بس چھوٹتی ہے توچھوٹ جائے مگر میںغلط بس پرسوارنہ ہوںگا… اگربرٹش گورنمنٹ ہندوستان کی حکومت ہندوؤں کے سپردکرناچاہتی ہے تواچھاہے یہ تین قوتوںکی لڑائی سے تو وہ دووالی بہتررہے گی‘‘۔(ص:787۔اکتوبر1967ء)
قراردادلاہورکی منظوری سے اگلے روز25مارچ1940ء کو وزیرہند کے نام اپنے خط میںوائسرائے لارڈلنلتھگو لکھتا ہے کہ میں جناح کے مطالبات کوکوئی اہمیت نہیں دیتا جس کے تحت وہ ہندوستان کے ٹکڑے کرناچاہتے ہیں۔وزیرہندکے نام 5اپریل40ء کے خط میںبھی وہ اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے لکھتا ہے کہ نہ توہم اس سکیم کو قبول کرسکتے ہیںاور نہ ہی اپنے آپ کواس کے ساتھ وابستہ کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹرمبارک علی صاحب اگرگورنرجنرل لارڈلنلتھگوکاوزیرہندکے نام 10اپریل 1940ء کا وہ ٹیلی گرام ہی پڑھ لیتے تو شاید وہ ایسا موقف اپنانے کے سزاوار نہ ٹھہرتے۔ اس تارمیں لارڈ لنلتھگو نے قراردادِلاہور کی مخالفت کرتے ہوئے برطانوی حکومت پر زوردیاکہ وہ پختہ عزم کے ساتھ غیرمبہم زبان میں اعلان کردے کہ وہ متحدہ قوم کے تصورپر مستعد اورقائم ہے اور ہندوستان کی وحدت کو ختم کرنے والی ہر سکیم کی مخالف ہے۔ 12اگست1940ء کو لنلتھگو کی قائداعظمؒ کے ساتھ جو ملاقات ہوئی اس میں بھی وائسرائے اپنے موقف پر ڈٹانظرآتاہے۔17دسمبر1942ء-وائسرائے ہندلارڈلنلتھگونے ایسوسی ایٹڈچیمبرزآف کامرس کلکتہ کے سالانہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا:”میں آپ سے اپنے پہلے خطبات میں بھی اس ملک کی وحدت(Unity)کی اہمیت پر اکثربول چکا ہوں۔ جغرافیائی لحاظ سے ہندوستان،عملی مقاصدکے لیے،ایک ہے…ہمیں اس وحدت کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے کے لیے اس طرح کوشش کرنی چاہیے کہ اسے اقلیتوںکے حقوق اور جائزدعووں، خواہ وہ اقلیتیں بڑی ہوں یا چھوٹی، کے لیے بڑی استقامت سے پورے عدل و انصاف کے ساتھ کام کرناچاہیے…اگریہ دو حصوںمیںبٹ جاتا ہے توکیایہ بین الاقوامی مباحث میں،سلطنت کے دیگر حصوںکے ساتھ بحث و تمحیص میںاپناکردار مؤثرانداز میںاداکرسکتاہے؟ اگرہندوستان کو وہ مقام حاصل کرنا ہے جو اسے سلطنت اور بین الاقوامی مشوروں میں حاصل ہوناچاہیے تو ہندوستان کی وحدت بھاری اور حقیقی اہمیت کی حامل ہونی چاہیے۔ (سپیچز بائی دی مارکوئیس آف لِنلتھگو۔جلددوم۔مینیجر،گورنمنٹ آف انڈیا پریس شملہ،1944ء۔ صفحہ458)۔
اس حقیقت کے باوجود وہ لکھتے ہیںکہ1940ء کی قرارداد کا مسودہ وائسرائے لنلتھگونے چودھری محمدظفراللہ سے لکھوایااوربرطانوی حکومت نے اس کی توثیق کی۔
محمدظفراللہ خاںکو قراردادِلاہور کاخالق قراردینے کا یہ پہلاموقع نہیں۔ سب سے پہلے یہ بات دسمبر1981ء میں خان عبدالولی خاںنے ایک انٹرویومیں کہی۔جب ولی خاںکا یہ غیرحقیقی اور لغو موقف سامنے آیا اور اس پر لے دے شروع ہوئی تو استادِ محترم پروفیسروارث میرصاحب چودھری ظفراللہ خاں سے ملاقات کیلئے بہت مضطرب ہوئے۔ چنانچہ ہم دونوں نے23دسمبر1981ء کو ظفراللہ خاں سے ملاقات کی۔میں نے یہ ساری گفتگوٹیپ بھی کی۔ چودھری صاحب کا موقف تھاکہ وہ وائسرائے کے آئینی مشیربھی تھے۔ وائسرائے نے مجھ سے تقسیم کی مختلف تجاویز پر تجزیہ و تبصرہ مانگاوہ میں نے دیدیا۔ میرا 23 مارچ 1940ء کی قراردادکی تخلیق میں کوئی دخل نہیں۔
چودھری سرمحمدظفراللہ خاں کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ولی خاںکی طرف سے انہیں خالق قراردیے جانے پر پھولانہ سماتااور قوم پراپنااحسان جتاتا۔ لیکن چودھری صاحب نے انتہائی صاف گوئی سے کہا:”ولی خاںمجھے قراردادِلاہورکی تخلیق کا جھوٹاکریڈٹ دینے پرکیوںمصرہیں؟‘‘ چودھری صاحب کا یہ بیان اور پیچھے وائسرائے لارڈلنلتھگو کی وزیرہند سے مراسلت میں سے جو چند جملے دیے ہیں ‘ وہ ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کی کمزوری کا واضح ثبوت ہیں۔بہ قول خرم علی شفیق:”مبارک علی نے تاریخ لکھی ہے مگرپڑھی نہیں ہے‘‘۔
ڈاکٹرمبارک علی صاحب اور نہیںتو آل انڈیامسلم لیگ کا ریکارڈ ہی دیکھ لیتے جس نے اس قراردادکی تیاری کے لیے پہلے سے موجود تقسیم ہند کی کئی اہم تجاویز کا بہ غورمطالعہ کیا۔ پھر اس پر بحث ہوئی۔ سبجیکٹس کمیٹی کے ارکان نے اسے نقدونظرکی ترازومیںتولا۔پھرکہیںیہ تجویزمنظورہوکرجلسۂ عام میں منظوری کے لیے پیش ہوئی۔ بہرحال وائسرائے لارڈلنلتھگوکی وزیرہند سے مراسلت ساری حقیقت عیاں کردیتی ہے کہ وائسرائے اور حکومت برطانیہ تقسیم ہند کی کسی بھی تجویز کے زبردست مخالف تھے۔ یہ حقیقت بھی سامنے رہنی چاہیے کہ اس سے قبل تقسیم کی کئی تجاویز آچکی تھیں۔ محقق خالد شمس الحسن مرحوم نے اپنی تالیف”قراردادِ پاکستان‘‘میں ”تقسیمِ ہند کی تجاویز کا اشاریہ‘‘ کے عنوان سے مختلف تجاویز، سکیموں، منصوبوں، توجیہات، سفارشات، تصورات، قیاسات اور اطلاعات کا اشاریہ دیا ہے۔ پہلی تجویز24جون1858ء کو جان برائٹ نے دی اور 144ویں تجویز حافظ محمدعبدللہ نے 1940ء میں پیش کی۔ اس کے بعد قراردادِ لاہور آتی ہے۔ کے کے عزیز نے ”رحمت علی-اے بائیوگرافی‘‘میں”لینڈ مارکس ان دی ہسٹری آف دی آئیڈیا‘‘ کے عنوان تلے ایسی 170تجاویز کی تفصیل دی ہے۔ قراردادِ لاہور کے پیچھے یہ ارتقائی عمل بھی تھا۔ یہ کہہ دینا کہ اسے ایکاایکی وائسرائے کے حکم پر چودھری ظفرللہ خاں نے تیار کیا اور مسلم لیگ کے جلسۂ عام نے منظورکرلیاانتہائی لغوبات ہے۔
مبارک علی صاحب اپنے موقف کے ثبوت میںیہ دلیل پیش کرتے ہیں: ”چونکہ قرارداد کا مسودہ شملہ سے دیرسے پہنچا، اس لیے اس کا اردو ترجمہ فوری طور پر مولانا ظفرعلی خاں نے کیا‘‘دنیا ٹی وی پر انہوںنے کہا:”اگر یہ قرارداد پہلے ہی مسلم لیگ کے پاس ہوتی تو اس کا اردوترجمہ بھی پہلے سے لکھ لیاجاتا‘‘۔جب مسلم لیگ میں مولاناظفرعلی خاں جیسا زبردست مترجم موجود تھا تو اس کا ترجمہ پہلے سے لکھنے کی ضرورت نہ تھی۔وہ اعلیٰ پائے کے ایسے مترجم تھے کہ ایک دفعہ انجمن حمایت اسلام میں علامہ اقبال نے اپنا خطبہ دینے سے پہلے واضح کیا کہ وہ اس لیے انگریزی میں پڑھ رہے ہیںکہ بعض اصطلاحات کا اردو متبادل نہیں۔ مولاناظفرعلی خاں اٹھے اور کہا:”ڈاکٹر صاحب، آپ اپنامقالہ پڑھیں۔ میں یہیں اس کا اردومیں فی البدیہہ ترجمہ کرکے ثابت کروں گا کہ اردو تہی دامن زبان نہیں‘‘۔مولاناظفر علی خاں نے قراردادِ لاہور کا جو فی البدیہہ اور من و عن ترجمہ کیا جملوں کی بندش، الفاظ کے چنائو اور بعض نئی اصطلاحات کے استعمال پر اہلِ زباں بھی اَش اَش کراٹھے۔ـ
ڈاکٹرصاحب نے 23مارچ کے دن کی اہمیت پر بھی گل افشانی کی ہے کہ اسے ”ایک دلکش داستان بناکرپیش کرنے کاسلسلہ پاکستان کے قیام کے کئی سال بعدشروع ہوا‘‘۔کالم پہلے ہی طویل ہورہاہے اس لیے اس پر گفتگو کسی اگلے کالم میں ہوگی۔ـ