مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی….نذیر ناجی
برصغیر کے معاشروں میںحکومت ہندو کی ہو یا مسلمان کی‘ عورت آج بھی آزادی سے محروم ہے۔پاکستان کے شہر قصور میں معصوم زینب کے ساتھ وحشیانہ بدسلوکی کی گئی‘ اس پر میڈیا میں شور تو بہت مچایا گیا لیکن اس کا قاتل جو کہ آج بھی جیل کے اندر زندہ سلامت بیٹھا ہے‘ اسے ابھی پھانسی کی سزا نہیں دی گئی۔ یہی صورت حال بھارت میں ہے‘ جہاں ہندو انتہا پسندوں نے آٹھ سالہ آصفہ کے ساتھ زیادتی کی۔ کہانی وہی تھی جو قصور میں رونما ہوئی۔ دونوں سانحوں کا جائزہ لیا جائے تو سب کچھ ایک جیسا ہی ہے۔ انہی دنوں یمن کے حوثی باغیوں نے ایک لڑکی کے ساتھ جو گھنائونا سلوک کیا‘ اس پر انسانیت منہ چھپاتی پھر رہی ہے۔ یہ واقعہ یمن اور سعودی عرب کی سرحد کے قریب کا ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہوں گے کہ عرب معاشرے آج بھی جبر کے بندھنوں میںجکڑے ہوئے ہیں۔ کسی لڑکی پر (صحیح یا غلط) گناہ کا الزام لگ جائے‘ تو اس کی سزا عام روایتی نہیں‘ بلکہ مقامی روایات سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔
” بائیس سالہ اسماء العمیسی کو زبردستی روایات کی زنجیروں میں باندھ کر‘ ایک بدو کے نکاح میں دے دیا گیا۔اسماء العمیسی ایک یمنی لڑکی کو‘تمام روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے‘ نام نہاد فوجی عدالت نے وحشت اور درندگی کے ساتھ موت کی سزا سنا دی۔ وہ وسطی یمن کے شہر السدہ کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئی۔ والدہ کا تعلق جنوب مشرقی شہر حضر موت کے علاقے المکلا سے تھا۔ العمیسی نے ابھی سکول کی نو جماعتیں پاس کی تھیں کہ اس کی شادی ایک بدوکے ساتھ کر دی گئی۔ اس شادی سے ان کا ایک بچہ اور بچی‘ پیدا ہوئے۔ قید کے دوران ان معصوموں کو بھی ظالمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ لڑکی کے والد اور خاندان کے دوسرے افراد کو بلا امتیاز الٹا لٹکا کر بدترین طریقے سے مارا پیٹا جاتا۔ گزشتہ سال اس کے والد کو 30 ملین یمنی ریال کے عوض رہا کر دیا گیا۔ لیکن عملاً اسے بھی رہا نہیں کیا گیا۔ سال رواں کے آغاز میں لڑکی کے خاندان کو پندرہ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ عذاب بھری اس زندگی سے نجات کے لئے لڑکی کو موت کی سزا دے دی گئی۔ مگر موت بھی آسان نہیں تھی۔ لڑکی کی جان نکل جانے سے پہلے‘ اسے ایک سو کوڑے مارے گئے۔ غالباً وہ ایک سوکوڑے پورے ہونے سے پہلے ہی دم توڑ گئی ہو گی۔
تین مہینے قبرستان جیسی خاموشی کے بعد نہ صرف انڈین میڈیا بلکہ مودی سرکار اور فلمی اداکاروں سے لے کر ہرذی ہوش شہری کو‘ اس بات کا احساس ہوا کہ کٹھوعہ میں آٹھ سالہ آصفہ کے ساتھ‘ جو کچھ بھی ہوا‘ وہ پورے انڈیا کے لئے شرمندگی کا باعث ہے۔ لیکن بد قسمتی سے انڈیا سے اٹھنے والی بیشتر آوازیں‘ جس انداز میں آصفہ کے لئے بول رہی ہیں‘ اس سے لگتا ہے کہ وہ جیسے نہ صرف آصفہ ‘بلکہ پورے جموں وکشمیر کے مسلمانوں پر کوئی احسان کر رہے ہیں ۔ بلاشبہ انڈین میڈیا نے تین مہینے کی مکمل خاموشی کے بعد اچانک جموں و کشمیر کے اس واقعہ کے حوالے سے آواز تو اٹھائی لیکن بھارت والے ہر چیز کو لے کر ‘ بے حد محتاط اور چوکنا رہتے ہیں چاہے مسئلہ کتنا ہی گمبھیر اور نازک کیوں نہ ہو؟ اس میں پہلے نام نہاد قومی مفاد کو دیکھا جاتا ہے۔ خود کو انڈیا کا نمبر ون کہلانے والے ٹی وی چینلز سے پوچھا جا سکتا ہے کہ آخر آپ کا ضمیر اس قدر مردہ کیوں ہو چکا ہے کہ 10 جنوری سے 12 اپریل تک اس نے اس دلدوز سانحہ کے بارے میں ایک لفظ بولنا بھی گوارا نہیں کیا۔ شاید تین مہینے تک پردے کے پیچھے‘ نام نہاد قوم پرست طاقتیں اس کوشش میں تھیں کہ کسی طرح آصفہ کے قتل کو پاکستانی ایجنسیوں کی کارستانی یا کوئی اور سازش ثابت کیا جائے؟ورنہ ایسی کوئی بھی معقول وجہ ہرگز نظر نہیں آتی کہ آصفہ‘ انڈیا کی نربھیا کی طرح پورے ملک کی توجہ کا مرکز نہ بنتی۔ انڈین میڈیا لاکھ
دعوے کرے کہ اس نے آصفہ کا معاملہ اٹھا کر کشمیریوں اور صحافت کے پیشے پر کوئی احسان کیا ہے لیکن تین مہینوں کی مسلسل خاموشی نے نئی دلی کے اصلی عزائم اور کشمیریوں کے لئے موجود بے پناہ نفرت کو بے نقاب کر دیا۔ اگر بین الاقوامی میڈیا اور ادارے‘ اس مسئلے کو عالمی رائے عامہ کے منظرنامے میں نہ لاتے تو شاید ہی اس مسئلے پر وہ زبان کھولنے کی جسارت کرتا۔ اپنی گرتی ہوئی ساکھ اور پوری دنیا کے سامنے اس افسوس ناک جرم کے بے نقاب ہونے کے بعد‘ ہر انڈین اس بات پر مجبور ہوا کہ وہ آصفہ کے لئے دو لفظ بول ہی دے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ جہاں راہول گاندھی کو تین مہینے کے بعد‘ آصفہ کی یاد آگئی ‘وہاں ان کی طرح وزیراعظم نریندر مودی نے بھی ایک جملہ کہہ کر ہمالیہ سر کرنے کی کوشش کی۔ بے شرمی کی بات تو یہ ہے کہ پی ڈی پی نے تب تک نہایت ہی دفاعی رخ اختیار کیا جب تک انڈیا کے انتہا پسند ٹی وی چینلوں نے شور مچانا شروع نہیں کیا۔ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو اپنی کرسی کی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا تو جس دن لال سنگھ اور چندر پرکاش ہندو ایکتا ونج کی ریلی میں گئے‘ اسی دن ان کے خلاف کارروائی کرتی اور اگر بی جے پی کوئی رکاوٹ سامنے لاتی تو محبوبہ مفتی کے لئے کرسی کو لات مارنا ہر لحاظ سے مناسب تھا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ نعیم اختر‘ انڈین میڈیا کا اس بات پر شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے سرکار کی توجہ‘ کابینہ کے دو وزیروں کے کرداروں کی طرف دلائی۔ اگر واقعی ریاستی سرکار کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا تو جن لوگوں نے آصفہ کے قتل کے بعد‘ اس کی لاش کو بھی اپنے آبائی گائوں میں دفنانے سے منع کیا‘ ان کو ایک ایک کر کے تہاڑ جیل بھیج دیا جاتا۔لیکن ان کے خلاف کارروائی دور کی بات ‘ جن لوگوں نے بد نصیب رسانہ گائوں کے ماتم داروں کا پانی تک بند کر کے‘ کربلا کی یاد تازہ کر دی‘ ان کے خلاف معمولی کارروائی تک بھی نہ کی گئی۔ افسوس تو یہ ہے کہ قوم پرستی کی آڑ میں‘ انتہا پسندوں کو انڈیا کا قومی پرچم تک ہاتھوں میں لے کر‘ وہ سب کچھ کرنے کی اجازت دی گئی‘ جس سے انسانیت شرم سار ہوتی ہے‘‘۔