مدھم چراغوں کے درمیاں…مظہر بر لاس
پاکستان کے روحانی پہلوئوں پہ کئی مرتبہ لکھ چکا ہوں، آج تفصیل نہیں لکھوں گا، فقط یہ بتا رہا ہوں کہ یہ وطن بڑے خاص لوگوں نے بہت ہی خاص لوگوں کی ہدایت پر بنایا تھا، اس کی بنیادوں میں شہدا کا لہو شامل ہے اسے مٹانے کیلئے غیروں نے بہت کام کیا، افسوس کہ اپنوں نے بھی حصہ ڈالا۔ غیروں نے تو یہ کرنا ہی تھا بس اپنوں نے ذرا منافقت کی اور آپ تو جانتے ہیں کہ منافق، کافر سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ میں جب یہ منافقت دیکھتا ہوں تو پھر سوچتا ہوں کہ ’’وطن سے محبت، ایمان کی نشانیوں میں سے ایک، کیوں قرار پائی؟‘‘ شاید دو راندیشی کی نگاہ پاک غداری کے سارے روپ دیکھ رہی تھی۔
کبھی پتہ چلتا ہے کہ فلاں نقشے میں پاکستان نہیں ہے، کبھی پتہ چلتا ہے کہ فلاں سن تک فلاں ملک نے جو دنیا کا نقشہ دکھایا ہے اس میں پاکستان نہیں ہے۔ میں یہ ساری گفتگو سنتا رہتا ہوں پھر اپنے دل سے پوچھتا ہوں تو دل مدھم سے چراغوں سے بولتا ہے، ایسا نہیں ہوگا، پاکستان کے دشمن سوچتے رہ جائیں گے، پاکستان قیامت تک قائم رہے گا، ایسے نقشے دکھانے والے مٹ جائیں گے، یہ دیس سلامت رہے گا، دنیا کی خاص ہستیوں کی اس پر نگاہ ہے، جو بھی پاکستان کے خلاف سوچے گا، یا پھر عمل کرے گا، رسوائی اس کا مقدر بنے گی، وہ بے نقاب بھی ہوگا، منصوبے بھی بے نقاب کرے گا، رل جائے گا مگر میرے پیارے
پاکستان کو کچھ نہیں ہوگا، اسے لوٹنے والے شرمندہ ہوں گے، اس کی مخالفت کرنے والے رسوا ہوں گے۔
احمر مشتی خان بلوچستان کے لئے را کا ایک ایجنٹ ہے، اس نے چند برس پہلے ہاتھ میں ایک پوسٹر تھام رکھا تھا ’’مودی بلوچستان تمہیں پیار کرتا ہے، تمہاری ضرورت ہے‘‘ اسی احمر مشتی خان کی چند تصاویر میرے سامنے ہیں جواس کے کرتوتوں کی گواہ ہیں، ایک حالیہ ویڈیو بھی میرے سامنے ہے، اس ویڈیو میں احمر مشتی خان اپنی محبوبہ را کو بے نقاب کررہا ہے، بتا رہا ہے کس طرح را کے افسران خریداری کرتے ہیں پھر کیسے لوٹ مار کرتے ہیں۔ چلو احمر مشتی خان کی زبان سے سنتے ہیں وہ کیا کہتا ہے ’’مجھے افسوس ہے کہ میں رو رہا ہوں کیونکہ بھارتی خفیہ ایجنسی را ’’ریسرچ اینڈ اینیلسز ونگ‘‘ تھرڈ کلاس ہے۔ را ایک تھرڈ کلاس تنظیم ہے، میں جو ویڈیو میں کہہ رہا ہوں اس پر قائم ہوں کیونکہ را ایک کرپٹ اور تھرڈ کلاس آرگنائزیشن ہے، را میں تیس سے چالیس فیصد کمیشن یا کک بیکس کا رواج ہے، را نے بلوچستان میں تین مسلح گروہوں کو پیسے دیئے، ہر ایک گروہ کو پندرہ ملین ڈالرز دیئے گئے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہر پندرہ ملین ڈالرز میں سے 35فیصد را کے افسروں نے کمیشن لے لیا، ایسا کئی برسوں سے جاری ہے، چین اور بھارت میں یہی فرق ہے کہ چین تعمیر کررہا ہے اور بھارت برباد کررہا ہے مگر ایک طرح سے انڈیا بھی تعمیر کی کوشش کررہا ہے کہ وہ جمہوری حقوق کے نام پر فری بلوچستان کیلئے پیسہ خرچ کررہا ہے مگر ان کا نارتھ بلاک کرپشن میں الجھا ہوا ہے، نریندر مودی نے تو وعدہ کیا تھا کہ اس کی حکومت صاف اور شفاف ہوگی مگر اس نے اجیت دوول کے ہاتھوں میں یہ معاملات دے دیئے۔ جو خود کو پکا ہندوستانی کہتا ہے مگر اس نے را کے لوگوں کو پیسے بنانے کی اجازت دے رکھی ہے، میری تنظیم کے ساتھ را کے جن تین نوجوان افسروں نے کام کیا، انہوں نے کام دکھایا، انہوں نے بلوچستان میں دہشت گردی کو پروموٹ کرنے کیلئے لوگوں سے ملاقاتیں کیں مگر میں ان سے مایوس ہوں کہ وہ ہمارے نام پر آنے والے پیسے میں سے کھا جاتے ہیں۔ دراصل را کے کام کرنے کا طریقہ ہی درست نہیں ہے اسی لئے اسے کشمیر میں شکست ہوگی، اسی لئے اسے آسام میں بھی شکست ہوگی، جس طرح را آپریٹ کررہی ہے میں تو انڈیا کا کوئی مستقبل نہیں دیکھ رہا، نگیش بھوشن جو بلوچستان ڈیسک پر کام کرتا ہے جو بلوچستان کے ہر لیڈر کو جانتا ہے، مجھے اس پر بڑا افسوس ہے اس نے مجھے برا کہا۔ میری درخواست ہے کہ نگیش بھوشن جیسے لوگوں کو خاص مشن کے لئے نہ رکھا کرو، ہمیں عزت دو‘‘۔
احمر مشتی خان کا یہ ویڈیو پیغام ایسے تمام لوگوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے جو را کے کسی نظریے پر کام کرنے کے خواہاں ہیں، انہیں اندازہ ہونا چاہئے کہ کام نکل جانے کے بعد را کے افسران اپنے ایجنٹوں کی کس طرح تذلیل کرتے ہیں، یہ پیغام ایسے لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے بھی کافی ہے جو بھارت کی بلوچستان میں مداخلت سے انکاری ہیں۔
احمر مشتی خان نے اپنی ویڈیو میں کشمیر اور آسام کا تذکرہ کیا ہے۔ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کا سارا معاملہ اقوام متحدہ کے علم میں ہے۔ وہاں جو ظلم ہورہا ہے، یہ ظلم پوری دنیا کے سامنے ہے۔ حال ہی میں وہاں ایک ایسا واقعہ ہوا جس پر انسانیت افسردہ ہے مگر بھارت کی نام نہاد ہندو تنظیمیں نہ صرف خاموش ہیں بلکہ ملزمان کے تحفظ کیلئے جلوس بھی نکال رہی ہیں۔ اس واقعہ نے سیکولر بھارت کا ’’چہرہ‘‘ بے نقاب کردیا ہے۔ اگر آپ مشرقی پنجاب کے ضلع گورداسپور سے جموں و کشمیر میں داخل ہوں تو جونہی آپ پٹھان کوٹ سے ہوتے ہوئے مادھو پور ڈیم کو کراس کر کے جموں میں داخل ہوتے ہیں تو سب سے پہلے تحصیل سامبا آتی ہے، سامبا ضلع کٹھوعہ کی تحصیل ہے، یہی ضلع کٹھوعہ ہے جہاں کی رہنے والی آصفہ بانو کے ساتھ زیادتی ہوئی، کٹھوعہ اور جموں کے ہندو ملزمان کو بچانا چاہتے ہیں جبکہ وہاں کی اکثریتی آبادی قانون کے مطابق کارروائی چاہتی ہے، بھارتی سرکار کے غنڈے اب آصفہ بانو کی سکھ وکیل دپیکا سنگھ کو بھی برے انجام کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ جس وقت یہ دھمکیاں دی جارہی ہیں عین انہی لمحوں میں لندن کی سڑکوں پر سکھ اور کشمیری، مودی کے خلاف مظاہرہ کررہے ہیں، مودی کی لندن آمد کے موقع پر وہاں موجود کشمیریوں اور سکھوں نے بڑے مظاہرے کئے۔ بھارتی سرکار کو مظاہروں کے اس موسم میں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ سکھوں کی خواہش ہے کہ وہ 2020ء میں خالصتان کے لئے ریفرنڈم کروائیں۔ اس مقصد کیلئے بیرونی دنیا میں مقیم آزاد خالصتان کی حامی سیاسی قیادت لابنگ کررہی ہے۔ اگر یہ ریفرنڈم ہوگیا تو بھارت کو اپنے اس ذرخیز ترین خطے سے ہاتھ دھونا پڑ جائیں گے جو بھارت کی ساٹھ فیصد غذائی ضروریات پوری کرتا ہے، خالصتان بننے کے ساتھ ہی کشمیر آزاد ہو جائے گا کیونکہ بھارت کو کشمیر سے ملانے والا واحد راستہ خالصتان یعنی پنجاب ہی سے ہوکر گزرتا ہے۔ جب گورداسپور بھارت کا نہیں رہے گا تو پھر کٹھوعہ اور جموں کیسے ہندوستان کے قبضے میں رہ سکیں گے۔ فی الحال مجھے مدھم چراغوں میں وہ نظم بار بار یاد آرہی ہے جو کٹھوعہ کی آصفہ بانو موت سے پہلے اکثر گنگنایا کرتی تھی کہ؎
سنا تھا کہ بے حد سنہری ہے دلی
سمندر سے خاموش، گہری ہے دلی
مگر ایک ماں کی صدا سن نہ پائے
تو لگتا ہے گونگی ہے، بہری ہے دلی
وہ آنکھوں میں اشکوں کا دریا سمیٹے
وہ امید کا اک نظریہ سمیٹے
یہاں کہہ رہی ہے وہاں کہہ رہی ہے
تڑپ کر کہ یہ ایک ماں کہہ رہی ہے
نہیں پوچھتا ہے کوئی حال میرا
کوئی لا کے دے دے مجھے لعل میرا