مدینہ کا بلدیاتی نظام… ایک جائزہ…امیر حمزہ
جناب محترم عمران خان صاحب نے‘ نئے پاکستان کے حوالے سے جن دو عزائم کا اظہار کیا‘ ان میں سرفہرست پاکستان کو مدینہ کی طرز پر ریاست بنانے کا عزم ہے۔ دوسرا عزم بلدیاتی سسٹم کو جدید ترقی یافتہ ملکوں کے بلدیاتی نظاموں کی طرح ایسا نظام بنانا ہے‘ جس میں نچلی سطح پر اختیارات کا انتقال ہو‘ تاکہ تیز اور شفاف سسٹم کے تحت شہر اور دیہات ترقی کی منازل طے کریں۔ جناب عمران خان کے بلدیاتی ویژن کو سامنے رکھتے ہوئے‘ حضور نبی کریمﷺ کے مبارک زمانے میں مدینہ کے بلدیاتی سسٹم کا ایک جائزہ پیش کر رہا ہوں‘ جس سے ہمیں رہنمائی ملے گی کہ ہمارا شہر کیسا ہو اور اس کا چیئرمین‘ میئر یا ناظم کیسا ہو؟
اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ جب ہجرت فرما کر یثرب میں تشریف لائے‘ تو اس کا نام ”مدینہ‘‘ رکھا۔ اردو میں شہر اور انگریزی میں مدینہ کا ترجمہ CITY ہے۔ آپؐ نے سب سے پہلے مدینہ کی حدود کا تعین فرمایا۔ارشاد گرامی ہے ”میں نے مدینہ کو اسی طرح حرم قرار دے دیا ہے‘ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا۔‘‘ (بخاری:2129)۔ آپؐ نے عیر اور ثور نامی دو پہاڑیوں اور دو سیاہ رنگ کے پتھریلے ٹِبّوں (ٹیلوں) کو مدینہ منورہ کی حدود قرار دے دیا۔ (مسلم: 1361) یاد رہے! مذکورہ رقبہ کوئی پچیس تیس مربع کلومیٹر بنتا ہے‘ یعنی شہر زیادہ سے زیادہ پچیس تیس کلومیٹر لمبا اور اتنا ہی چوڑا ہو تو اس کا انتظام و انصرام آسان ہوتا ہے۔ سیوریج میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ لاء اینڈ آرڈر کے مسائل میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ ماحولیات کے اعتبار سے بھی مذکورہ رقبہ آئیڈیل ہے؛ چنانچہ گزارش یہ ہے کہ بلدیاتی سسٹم کو بناتے وقت جو قانون سازی کی جائے اس میں طے کر دیا جائے کہ آئندہ نئے شہر حکومت بنائے گی اور اس کا رقبہ مدینہ منورہ کے نبوی ماڈل کے مطابق ہو گا۔ مزید برأں! موجودہ بڑے شہروں کو مزید بڑا ہونے سے روکا جائے اور نئی سکیموں پر پابندی عائد کر دی جائے۔حضور نبی کریمﷺ نے مدینہ منورہ کے ماحول کو درست رکھنے کے لئے ایک اور اعلان فرمایا: ”مدینہ کی گیلی (سبز) گھاس جڑ سے نہ اکھاڑی جائے‘ نہ اس کے درخت ہی کاٹے جائیں‘ یہاں جو شکار کے جانور ہیں‘ ان کو بھگایا نہ جائے‘‘۔ (بخاری: 1349) یاد رہے! مکہ اور مدینہ دو ایسے شہر ہیں‘ جو حرم ہیں۔ حرم کی خصوصیات اور احکام دونوں شہروں کے ساتھ خاص ہیں‘ مگر مدینہ منورہ کو ماڈل کے طور پر اپنے سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنے باقی شہروں کو اچھا‘ جدید اور پرامن شہر بنا سکتے ہیں اور بحیثیت مسلمان مدینہ منورہ کو ماڈل کے طور پر اپنے سامنے رکھنا ایک ایمانی تقاضا ہے اور اس تقاضے کے اندر ہمارے لئے خیر اور بھلائی پنہاں ہے۔
مذکورہ فرمان کے مطابق‘ ہمیں اپنے شہروں کے درختوں کو نقصان پہنچانے سے بچنا ہو گا‘ شجرکاری کرنا ہو گی‘ گراسی پارک بنانا ہوں گے‘ پرندوں کے تحفظ کا خیال رکھنا ہو گا۔ بلدیہ مدینہ کا یہ وہ تقاضا ہے‘ جو فرمان رسولؐ سے واضح ہے۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا: ”مدینہ امن دینے والا شہر ہے۔‘‘ (مسلم: 1375) اس کا مطلب یہ ہے کہ سٹی پولیس اور باقی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کے جان و مال اور آبرو کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
حضورﷺکے فرمان کے مطابق ‘اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے مزید دو نام رکھنے کا حکم دیا‘ ایک ”طابہ‘‘ ہے (مسلم: 1385) جبکہ دوسرا ”طیبہ‘‘ ہے (طبرانی کبیر: 1987)۔ دونوں کا مطلب پاکیزگی اور صفائی و ستھرائی ہے۔ حضورﷺ نے صفائی اور ستھرائی کا یہ مفہوم خود بیان فرما دیا کہ یہاں شریر اور فسادی لوگوں کے لئے جگہ نہیں ہے۔ (مسلم: 1384) صفائی اور ستھرائی کا ایک مفہوم آپؐ کی اس دعا سے بھی واضح ہے: ”اے اللہ! مدینہ کی آب و ہوا کو صحت افزا بنا دے!‘‘ (بخاری: 3926)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آب و ہوا کو صحت افزا بنانے کے لئے اللہ کے سامنے شہر کے چیئرمین کو دعا بھی کرنی چاہئے‘ بارش نہ ہو تو بارش مانگنی چاہئے‘ ساتھ ساتھ بہتر ہسپتال‘ صحت و صفائی کے لئے مناسب انتظامات بھی کرنے چاہئیں‘ کوڑا کرکٹ نہیں ہونا چاہئے‘ سڑکیں اور راستے صاف ہونے چاہئیں۔ مدینہ میں وبائی بخار پھیلا تو حضورﷺ نے دعا کی: ”اے اللہ! مدینہ کے وبائی بخار کو جحفہ میں لے جا۔‘‘ (مسلم: 1336) یاد رہے! تب جحفہ ایک دور دراز کا بے آباد ریگستانی علاقہ تھا۔ ثابت ہوا شہر کے حکمران کو وبائی امراض پر خاص نظر رکھنی چاہئے۔ اللہ کے سامنے دعا کے ساتھ ساتھ اس کے تدارک کے لئے میسر طبی حفاظتی انتظامات کرنے چاہئیں۔
یونین کونسل‘ ضلع کونسل اور چھوٹے بڑے شہروں کے چیئرمینوں کی ہمدردی اپنے شہریوں کے ساتھ کیسی ہونی چاہئے؟ حضورﷺ کا ایک فرمان ملاحظہ ہو: ”یا اللہ! جو شخص مدینہ کے شہریوں پر ظلم کرے اور ان کو خوف میں مبتلا کرے‘ آپ اسے ڈر اور خوف میں ڈال دیں۔‘‘ (طبرانی اوسط و کبیر: صحیح)۔جی ہاں! اسلام آباد‘ کراچی‘ لاہور‘ کوئٹہ‘ پشاور اور سب شہروں کے چیئرمینوں کے جذبات اپنے شہر کے شہریوں کے ساتھ ایسے ہو جائیں ‘تو پھر وہ ایسے اقدامات بھی کریں گے کہ بدمعاش اور غنڈہ عناصر شہریوں کے اموال‘ اولاد اور عزتوں کی طرف بری نگاہ نہ ڈال سکیں۔ قارئین کرام! شہر کے حکمران کو اپنے شہریوں کی ضروریات کو بھی پورا کرنا ہوتا ہے۔ سرفہرست صاف پانی کی ضرورت ہے۔ حضورﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تھے‘ تو ایک کنواں تھا‘ جو یہودی کی ملکیت میں تھا۔ مسلمان اس یہودی کو پیسے دے کر پانی لیتے تھے۔ حضورﷺ نے اعلان فرمایا: کون ہے‘ جو یہ کنواں خرید کر وقف کر دے‘ اس کے لئے جنت کی بشارت ہے۔ حضرت عثمانؓ نے کنواں خریدا اور وقف کر دیا‘ پھر ایک عرصہ گزرا مسلمان آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ کب تک ڈول کھینچتے رہیں گے۔ حضورﷺ سے درخواست کریں‘ آپ دعا کریں‘ چشمہ جاری ہو جائے اور سہولت ہو جائے۔ حضورﷺ نے اپنے شہریوں کو آتے دیکھا‘ تو تبسم فرما کر کہا کہ آج آپ جو مانگیں گے‘ میں اللہ تعالیٰ سے درخواست کروں گا‘ وہ عنایت فرمائے گا۔ صحابہؓ نے یہ سنا تو باہم مشورہ کیا‘ یارو! چشمے کے بجائے جنت مانگ لیں۔ چھوڑو‘ اس دنیا کو‘ اب حضورﷺ نے انصار کی درخواست پر دعا مانگی: اے اللہ! انصار کو‘ ان کے بچوں کو اور بچوں کے بچوں کو جنت عطا فرما دے۔ مدینہ کے شہری خوشی خوشی واپس آ گئے۔ (مسند احمد: 13301)
جناب عمران خان صاحب حکمرانِ پاکستان! ہمیں نئے پاکستان میں حضورﷺ عالیشان کی مذکورہ بلدیاتی سیرت کو اختیار کرنے والے چیئرمین دے دیں۔ شہریوںسے محبت کرنے والے اور ان کی ضرورتوں کو ہمدردی کے ساتھ سننے والے ناظم دے دیں۔ طیب اردوان کچھ ایسے ہی چیئرمین تھے‘ استنبول شہر کے وہ چار سال چیئرمین رہے اور اب وہ ترکی کے صدر ہیں۔ ترکی اب ترقی یافتہ ملک ہے‘ جو آئی ایم ایف کو قرض دیتا ہے۔ ترکی کا بلدیاتی نظام بہت شاندار ہے‘ وہاں استنبول اور بڑے شہروں کے لئے 30 عدد میٹرو پولیٹن میونسپلٹیاں ہیں‘ پھر ان میں 519ضلعی ہیں۔ دیگر صوبوں میں 400ضلعی میونسپلٹیاں ہیں۔ 394ٹائون میونسپلٹیاں ہیں۔ صوبائی بلدیاتی انتظامیہ کی ذمہ داریاں کچھ اس طرح ہیں: (1)پرائمری و سیکنڈری سکولوں اور ثقافتی مراکز کی تعمیر اور انتظام۔ (2)طبی‘ سماجی سہولیات۔ (3)انڈسٹری اور ٹریڈ (4)کھیلوں کے لئے بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر۔ (5)زرعی ترقیاتی کام (6)مرکزی حکومت کی طرف سے جاری کئے ہوئے فنڈز کی تقسیم۔ اسی طرح صوبائی بلدیاتی انتظامیہ کو بھی اختیارات سونپے گئے ہیں۔ جی ہاں! دوسری مثال جنوبی کوریا کے سابق صدر لی میونگ یاک کی ہے۔ وہ بھی سیئول کے 2002ء سے 2006ء تک میئر رہے تھے۔ ہنڈائی کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو تھے۔ آج جنوبی کوریا ترقی یافتہ ملک ہے۔ مندرجہ بالا مثالوں کے بعد عرض کروں گا کہ سابق حکمرانوں نے بلدیاتی اداروں کو اپنے مفادات کے تابع ایک کھلواڑ بنا رکھا تھا۔ تفصیل ایک الگ کالم کا تقاضا کرتی ہے۔ گزارش یہ ہے کہ محترم عمران خان صاحب! ریاست مدینہ کی طرز پر جدید تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نیا بلدیاتی نظام دیں۔ نئے پاکستان کا جو خواب آپ نے دیکھا ہے ‘اس کی تعبیر کی بنیاد بلدیاتی نظام ہے۔ اللہ تعالیٰ سے آپ کی کامیابی کے لئے دعاگو ہوں!۔