مذہبی ووٹ…..خورشید ندیم
”25 جولائی کے انتخابات دو تہذیبوں کے درمیان جنگ ہے۔ ایک طرف سیکولر طاغوتی قوتیں اور دوسری جانب نظامِ مصطفیٰ کے علم بردار ہیں۔ ڈانس کلچر والوں کو شکست دیں گے‘‘: سرا ج الحق۔
”روشن خیالی جاہلیت کا دوسرا نام ہے۔ یہی لوگ اسلامی نظام کی مخالفت کرتے ہیں‘‘: مو لانا فضل الرحمن۔
سیاست نقطہ ہائے نظر کا جمعہ بازار ہے۔ ہر کوئی اپنا مال بیچنا چاہتا ہے۔ انتخابات کے دنوں میں تو یہ کاروبارجوبن پر ہوتا ہیں۔ انتخابات کی شام سب اپنی دکان بڑھاتے اور بچے کھچے مال کو ایک چادر سے ڈھانپ دیتے ہیں۔ پھر کسی موقع پر جب سیاسی میلہ لگتا ہے تو یہ چادر اتار دی جاتی ہے۔ انتخابات کے اگلے دن حکومت سازی کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے۔ اہلِ سیاست یہ سب بھول کر کہ وہ کل تک کیا مال بیچتے رہے، جوڑ توڑ میں لگ جاتے ہیں۔ اب کسی کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا، صرف قیمت ہوتی ہے۔ حسبِ خواہش گاہک مل جائیں تو بھاؤ تاؤ کے بعد سودا ہو جاتا ہے۔ نئے اتحاد وجود میں آتے ہیں اور لوگ بھول جاتے ہیں کہ انتخابات کی شام تک، وہ ایک دوسرے کے بارے میں کیا کہتے رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ یہ لوگ بھولتے نہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ انتخابات کے دن تک کیا کہنا ہے اور اس کے بعد کیا کرنا ہے۔
مذہبی جماعتوں کے پاس ایک ہی نعرہ ہے: مذہب۔ یہ نعرہ اسی وقت مقبول ہو سکتا ہے ‘جب وہ دوسروں کو مذہب مخالف ثابت کریں۔ جب وہ عوام کو بتائیں کہ وہ تو نظامِ مصطفیٰ چاہتے ہیں، دوسرے نہیں۔ وہ اسلامی تہذیب کے علم بردار ہیں اور دوسرے غیر اسلامی تہذیب کے۔ سراج الحق صاحب کے الفاظ میں ڈانس کلچر والے۔ وہ ختم نبوت کے ماننے والے ہیں اور معاذاللہ دوسرے نہیں۔
اب اگر ڈانس کلچر والے یا روشن خیال جیت جائیں اور ان مذہبی جماعتوں کو حکومت میں شرکت کی دعوت دیں تو وہ اس کے لئے تیار ہو جاتی ہیں۔ وہ پھر ڈانس کلچر والوں کو قبول کرتے ہوئے حکومت میں شریک ہو جاتے ہیں۔ روشن خیالی بھی قابل قبول ہو جاتی ‘ اگر ہاؤسنگ اور تعمیرات کی وزارت مل جائے۔ یہ کھیل برسوں سے جاری ہے اور نہیں معلوم کب تک جاری رہے گا۔
جب کہا جاتا ہے کہ دیکھو! ایسا نہ کرو۔ لوگوں کے مذہبی جذبات کا استحصال نہ کرو۔ ستانوے فیصد مسلمانوں کے اس ملک میں کوئی نظامِ مصطفیٰ کا مخالف نہیں۔ کسی کی روشن خیال مذہبی اور تہذیبی دائرے سے بغاوت نہیں ہے۔ خدا کے لیے مذہب کو متنازع نہ بناؤ۔ اسلام اس معاشرے میں کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ہے، تو کہتے ہیں: دیکھو، دیکھو! ان کو دیکھو۔ یہ اس ملک میں سیکولرازم کو لانا چاہتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں‘ اسلام کو سیاست سے دیس نکالا دے دیا جائے۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ یہاں پہنچ کر دلیل کی سرحد ختم ہو جاتی ہے‘ اور جذبات کی اقلیم کا آغاز ہو جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں مذہب کو سب سے زیادہ جذباتی استحصال کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
قوم جانتی ہے کہ 25 جولائی کو تہذیبوں کا کوئی تصادم نہیں ہو رہا۔ اس دن، پاکستان کے عوام یہ فیصلہ کریں گے کہ وہ ملک کی باگ ڈور کس جماعت کے ہاتھ میں دینا چاہتے ہیں۔ ووٹ دینے اور مانگنے والوں میں مسلمانوں کی وہی تعداد ہے جو آبادی میں ہے۔ اسلام کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ہے۔ لوگوں کو تو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کون ان کی نظر میں امورِ ریاست چلانے کی زیادہ اہلیت رکھتا ہے‘ اور عوام کی اکثریت کس پر زیادہ بھروسہ کرتی ہے۔ جمہوریت کی روح یہ ہے کہ اقتدار انہی ہاتھوں کو سونپا جائے، جنہیں عوام کی اکثریت یہ حق دینا چاہتی ہے۔
آج اختلاف کا میدان اور ہے۔ ان انتخابات میں یہ طے ہونا ہے کہ عوام کے حق کا کتنا احترام کیا جاتا ہے؟ پہلا مرحلہ تو یہ ہے کہ کیا انتخابات کے نتائج، عوامی رائے کا حقیقی اظہار ہوں گے؟ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ ریاستی امور چلانے میں ان کی رائے کتنی فیصلہ کن ہے؟ ریاستی اداروں میں عوامی رائے کی نمائندگی پارلیمنٹ اور وزیر اعظم‘ دونوں کرتے ہیں۔ کیا یہ انتخابات ہمیں عوامی بالا دستی کی طرف لے جائیں گے؟ یہ ہے وہ میدان جہاں اختلاف ہے جو اگر حل نہ ہوا تو خاکم بدہن تصادم میں بدل سکتا ہے۔ تصادم تہذیبوں کا نہیں، حقِ حاکمیت کا ہے۔ یوں بھی انتخابات تہذیبی اختلاف کے حل کے لیے نہیں ہوتے، یہ اِس سیاسی تنازع کا حل ہیں کہ اقتدار کسے سونپا جائے۔
مذہبی رہنماؤں سے درخواست ہے کہ وہ قوم کو مذہب کے نام پر کسی مصنوعی تقسیم میں مبتلا نہ کریں۔ جماعت اسلامی کو سوچنا ہے کہ پاکستان کو آج کم و بیش اسی طرح کے حالات درپیش ہیں جیسے ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے مابین صدارتی انتخابات کے وقت تھے۔ جمعیت علمائے اسلام کو ایم آر ڈی کی تاریخ کو سامنے رکھنا ہو گا۔ ان کو سوچنا ہے کہ ایک فیصلہ کن موقع پر، قوم کو ایک مصنوعی تقسیم کی نذر کرتے ہوئے، وہ کہیں جمہوریت پسندوں کے ووٹ تقسیم تو نہیں کر رہے؟
میرا یہ احساس ہے کہ اس وقت اگر نون لیگ کے ووٹ تقسیم کرنے کے لیے مذہب کو استعمال کیا گیا تو یہ قومی اور اخلاقی ذمہ داریوں سے انحراف ہو گا۔ اتفاق سے چند دن پہلے جامعہ دارالعلوم کراچی کا ایک فتویٰ نظر سے گزرا۔ یہ فتویٰ بتاتا ہے کہ جب عالمِ دین کے جیتنے کا امکان کم ہو اور قومی ضرورت کسی دوسرے امیدوار کی حمایت کا تقاضا کرے تو پھر کیا معیار پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ فتویٰ کے الفاظ دیکھیے:
”… ووٹ شرعاً ایسے شخص کو دینا چاہیے جس کو ووٹ دینا ملک و ملت اور عوام کے لیے فائدہ مند ہو، خواہ وہ عالم ہو یا غیر عالم۔ اور اس میں، اس کی اہلیت، دیانت، اس کا سیاسی نقطۂ نظر اور منشور دیکھنا چاہیے… لیکن اگر کسی جگہ ایسی صورت حال ہو کہ عالم امیدوار کا جیتنا ممکن نہ ہو اور اس کو ووٹ دینے کی صورت میں اندیشہ ہو کہ باقی امیدواروں میں سے کم برے امیدواروں کے ووٹ کم ہو جائیںگے‘ تو ایسی صورت میں تقلیلِ شر کے ضابطے کو ملحوظ رکھتے ہوئے، باقی امیدواروں میں سے کم برے امیدوار کو ووٹ دینے چاہیے تاکہ زیادہ برا امیدوار نہ جیت سکے اور اس کے شر سے حفاظت ہو سکے‘‘۔ اس پر مفتی تقی عثمانی صاحب کے تائیدی دستخط ہیں۔ یہ فتویٰ 24 ستمبر 2013ء کو جاری ہوا تھا۔
اس وقت ”ملک و ملت اور عوام کے لیے فائدہ مند‘‘ وہی ہو سکتا ہے، جو عوام کے حقِ اقتدار اور ان کی رائے کے احترام کی بات کرتا ہو۔ مذہب کے نام پر اگر ہم ایک مصنوعی تقسیم کو ابھار کر ایسے لوگوں کو کمزور کریں گے تو ملک اور قوم پر اس کے دور رس مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ اداروں کے درمیان اقتدار کی مسلسل کشمکش کا خاتمہ، ملک کے سیاسی استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ بات کسی ادارے کے خلاف ہے نہ کسی ایک فرد کے حق میں۔ قومی اداروں کو متنازع بنانے سے روکنے کی واحد صورت یہ ہے کہ آئین کی روشنی میں ان کی طے شدہ حدود کے احترام کو یقینی بنایا جائے۔
آج سارا عدم استحکام اس وجہ سے ہے کہ اقتدار میں عوام کی حقیقی نمائندگی ختم ہو گئی ہے۔ جو ہے محض نمائشی ہے۔ اس کو بحال کرنے ہی سے توازن قائم ہو گا اور تصادم کا خاتمہ ہو گا۔ آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن یا نفاذِ اسلام نہیں ہے۔ یہ عدم استحکام ہے۔ اس باب میں قوم کو یکسو ہونا ہے۔ عدم استحکام کا شکار معاشروں میں کرپشن زیادہ ہوتی ہے۔ سیاسی استحکام آئے گا تو کرپشن کا خاتمہ ہو گا۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت اسلام کا نفاذ چاہتی ہے۔ یہ بھی اسی وقت ہو گا‘ جب عوام کی رائے کو امورِ ریاست میں فیصلہ کن مانا جائے گا۔ فرقہ واریت کا خاتمہ بھی تب ہو گا جب ریاستی سطح پر اسلام کی کسی ایک تعبیر کو اختیار کر لیا جائے گا۔ یہ بھی اسی وقت ممکن ہے جب علامہ اقبال کی رائے کے مطابق، یہ حق پارلیمنٹ کو دے دیا جائے۔ آئین یہ حق دے چکا۔ ہمیں عملاً بھی اسے یہ حق دینا ہو گا۔
انتخابات میں ہم نے تہذیبوں کے تصادم کا نہیں، عوام کے حقِ حاکمیت کا فیصلہ کرنا ہے۔ مذہبی ووٹر کو اس کا ادراک کرنا ہے۔