منتخب کردہ کالم

مریض اندر۔۔۔۔ ڈاکٹرباہر .. کالم الیاس شاکر

ٹی وی چینلز خبروں کی بارش کر رہے تھے،امریکہ کی مختلف ریاستوں کے نتائج آنا شروع ہوگئے تھے، ہیلری کلنٹن شکست کے قریب تر ہ ورہی تھیں۔ سی این این اور فوکس نیوز ٹرمپ کی غیر متوقع فتح پر تبصرے کررہے تھے۔ امریکی عوام اپنا ذہن تبدیل کرچکے تھے اور دنیا بھر کے تجزیہ نگار حیران تھے کہ یہ کیا ہوگیا؟ایک انتہا پسند امریکی صدر کیسے بن گیا؟بین الاقوامی خبروں کی اس افراتفری کے دوران اچانک یہ خبرآئی کہ ”گورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو ہٹاکر جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کو تعینات کیا جارہا ہے‘‘۔ پاکستانی ٹی وی چینلز نے ”عالمی شور شرابے ‘‘کے دوران یہ خبر بریک کی اور پھر امریکہ چلے گئے،کسی نے یہ جاننے کی زحمت نہکی کہ نئے گورنر سندھ سعید الزماں صدیقی کی صحت کیسی ہے؟ وہ گورنر کی ذمہ داریاں ادا کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ بس نام آیا،نوٹیفکیشن جاری ہوا اور ”بیمارگورنر‘‘ کو سندھ کے کاندھوں پر ڈال دیا گیا۔ کسی کو یہ بھی یاد نہیں آیا کہ ابھی تو ایک ”بزرگ سائیں‘‘ آٹھ سال سندھ کی ایسی ”خدمت‘‘ کرکے گئے ہیں کہ لوگ انہیں نہیں بھولے اور سوشل میڈیا پر آج بھی ان کی تصاویر کے ساتھ دلچسپ تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ حکیم محمد سعید کو جب گورنر سندھ بنایا جارہا تھا تو انہوں نے ایک ہفتے کا وقت مانگا اور پھر ہاں کی۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ یہ جواب تو آپ ایک ہفتہ پہلے بھی دے سکتے تھے تو انہوں نے کہاکہ ”میں اپنے روزمرہ کے امور کا جائزہ لے رہا تھا کہ کیا میں اتنا وقت نکال سکتا ہوں کہ گورنری جیسا اہم عہدہ قبول کرلوں۔ جب میں نے یہ پریکٹس کی اور مجھے اندازہ ہوگیا کہ میں وقت نکال سکتاہوں تو پھر میں نے ہاں کردی‘‘۔
گورنر سندھ کی اچانک تبدیلی کی خبر حیران کرنے والی تھی۔ سبکدوش ہونے والے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد طویل تجربہ اور سندھ کی شہری سیاست میں متحرک گروپوں کے درمیان اثر رسوخ
رکھتے تھے، جس سے سندھ کی اردو بولنے والی آبادیوں کی اشک شوئی بھی ہوتی تھی۔ انہیں یہ احساس بھی ہوتا تھا کہ حکومت میں کوئی ہمارا درد رکھنے والا بھی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ڈاکٹر عشرت العباد نے اعلانیہ کبھی بھی کراچی اور حیدرآباد کے معاملات پر کھل کر کسی موقف کا اظہار نہیں کیا، وہ خاموش رہتے تھے، مسکراتے تھے اور خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔ ڈاکٹر ضرور تھے لیکن عوام کی مسیحائی کے معاملے میں شہرت حاصل نہ کرسکے۔ کراچی اورحیدرآباد کے لوگ پھر بھی ان سے محبت کرتے تھے کہ یہ گورنر اپنا ہے، آج نہیں تو کل ہمارے کام ضرورآئے گا اور اس طرح ڈاکٹر عشرت صاحب نے 14سال گزار لیے۔ مشرف کے دور میں وہ اتنے بااختیار تھے کہ اگر چاہتے توحیدرآباد میں ایک دو نہیں 10یونیورسٹیاں کھل سکتی تھیں لیکن بد قسمتی سے حیدرآباد میں آج بھی کوئی یونیورسٹی موجود نہیں ہے۔ حیدر آباد پاکستان کا وہ دکھی شہر ہے جہاں 70سال میں ہم ایک یونیورسٹی قائم نہیں کرسکے۔ کراچی کے ترقیاتی فنڈز کی شکایت تھی، کراچی اور حیدرآباد کے لوگوں کو پولیس اور سندھ حکومت کے دیگر محکموں میں ملازمت کا شکوہ تھا، لیکن گورنر عشرت العباد نے اپنا احتجاج ریکارڈ نہیں کرایا۔
معاملات جوں کے توں چلتے رہے اور کراچی‘حیدرآباد اور سکھر لاوارثوں کی طرح سسکتے اور بلکتے رہے۔ سابق گورنر عشرت العباد اتنے شریف آدمی تھے کہ سندھ حکومت نے دوباراُن کے اختیارات بھی کم کئے پھر بھی انہوں نے اُف تک نہ کی۔ دومرتبہ وہ روٹھ کر دبئی چلے گئے، پھر انہیں فون کرکے بلالیا گیا، ایک بارتوان کا اتنا شاندار استقبال ہوا اورایسا لگا کہ پہلی بار کوئی گورنر آ رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سابق گورنر عشرت العباد کا نام مشرف صاحب کو الطاف حسین نے پیش کیا تھا۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عشرت العباد کے خاندان کی بیگم پرویز مشرف سے دور کی رشتہ داری کام آئی تھی۔ آٹھ سال پہلے مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہو گیا لیکن ڈاکٹر عشرت العباد کے تاج و تخت کو کوئی نہیں ہلاسکا۔ ایک سال قبل ایم کیو ایم کے قائد نے ان کی حمایت چھوڑ دی اور کہا کہ وہ مستعفی ہو کر باہر آجائیں لیکن عشرت العباد سندھ کے تخت پر ”بلا ناغہ‘‘ براجمان رہے۔ سندھ کے اردو بولنے والے بہت معصوم اور سادہ لوگ ہیں، اُن کا خیال تھا کہ عشرت العباد کے گورنر رہنے سے ان کا جان ومال محفوظ رہے گا لیکن کیا کہیے کہ تقریباً ڈیڑھ سال قبل سابق گورنر نے نواز شریف سے چھٹی مانگی اور کہا کہ مجھے اس عہدے سے فارغ کرکے لندن یا دبئی جانے دیں۔ کہتے ہیں کہ نواز شریف نے پوچھا کہ ”آپ کیوں جانا چاہتے ہیں؟‘‘ سابق گورنر نے کہا کہ ”میری جان کو خطرہ ہے وہ لوگ مجھے ماردیں گے‘‘ جس کے بعد میاں نواز شریف نے ان کی سکیورٹی بڑھا نے کے احکامات دیے اور پھر ڈاکٹر صاحب نے بھی خود کو گورنر ہائوس تک محدود کر لیا۔ ہوٹلوںاور دیگرمقامات پرمنعقدہ تقریبات میں جانا چھوڑ دیا، اپنی صاحبزادی کی شادی کے لئے گورنر ہائوس کو میرج ہال میں تبدیل کرلیا اور اتنی سکیورٹی کی گئی کہ فوٹو گرافروں کا داخلہ بھی بند کر دیا گیا۔ مطلب یہ کہ گورنر سندھ گورنر ہائوس میں ”قید ‘‘ہوکر رہ گئے تھے۔ عشرت العباد تمام نشیب و فراز کا مقابلہ کرتے رہے اور گورنر ہائوس نامی اس قید خانے سے نکلنے کا شارٹ کٹ بھی ڈھونڈتے رہے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ ڈاکٹر عشرت العباد گورنر ہائوس چھوڑنے کے لئے مختلف بہانے ڈھونڈنے میں مصروف رہتے تھے، لیکن ”صیاد‘‘ رہائی کی خوشخبری سنانے کو راضی ہی نہیں تھا۔
چند ماہ قبل جب اس وقت کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ ”نان کو آپریٹو‘‘ ہوگئے تو رینجرز نے گورنر عشرت العباد کو”انرجی ٹانک‘‘ دیتے ہوئے ان کے ”اختیارات‘‘ بڑھا دیے۔ ڈ ی جی رینجرز اور گورنر کی ایک ساتھ مسکراتی تصاویر تواتر سے چھپنے لگیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتائوں نے فوری طور پر کراچی آپریشن کا ”بوڑھاکپتان‘‘ ہی بدل دیا اور نئے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ آگئے۔ مراد علی شاہ نے عشرت العباد کو سکون کا سانس لینے دیا تو میاں صاحب نے عشرت العباد کے اقتدار کے خاتمے کا حکم نامہ جاری کیا اور بڑی مشکل اورمحنت سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایک 80 سالہ ”بیمار شخص‘‘ کو گورنرکی کرسی پر بٹھادیا۔ سعید الزماں صدیقی کاگ ورنر سندھ بننا نواز شریف صاحب کی سندھ سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وزیراعظم صاحب جب جب کراچی آتے ہیں ہم ان کی کراچی سے دلچسپی کا رونا روتے رہتے ہیں، لیکن اب تو حد ہی کردی گئی۔ اسلام آباد والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ”وفاقی حکومت کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کی صحت اتنی خراب ہے۔ اگر انہیں پہلے یہ معلوم ہو جاتا تو وہ انہیں گورنر نہ بناتے۔ وفاقی حکومت کی اس ”بے خبری‘‘ پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے، جس حکومت کو اپنے گورنر کی صحت کا ہی علم نہ ہو وہ عوام کے مسائل کا کیا علم رکھتی ہوگی ؟ لیکن باخبر حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ گورنر جیسے عہدے کے لئے نہایت ”ٹھنڈا‘‘آدمی درکار ہوتا ہے اور اس کے لئے نہ عمرکی کوئی قید ہے اور نہ ہی صحت کی۔ آصف زرداری کا ایک جملہ آج بھی یاد آتا ہے”جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘۔ لگتا ہے یہ انتقام میاں صاحب نے سندھ سے لیا ہے۔ کراچی کے ایک سیاسی لیڈر نے کہا کہ نئے اور بیمار گورنر کو وفاقی حکومت نے تو قبول کر لیا لیکن قائد اعظم نے اپنی قبر پر حاضری اور دعا کرنے کی اجازت نہ دی اور وہ نقاہت کے باعث مزار قائد کی سیڑھیاں نہ چڑھنے کے باعث واپس چلے گئے۔ کسی دانشور نے نئے گورنر سندھ کی تعیناتی پر مختصر ترین مگر خوب تبصرہ کیا ہے کہ ”مریض اندر اور ڈاکٹر باہر ہوگیا ہے‘‘۔
– See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/ilyas-shakir/2016-11-16/17541/84558594#tab2