منتخب کردہ کالم

مریم کا ٹویٹ اور ’’ جو بچھڑ گئے ‘‘….رئوف طاہر

مریم کا ٹویٹ اور ’’ جو بچھڑ گئے ‘‘….رئوف طاہر

شاعر نے ”غم ِدوراں‘‘ کہا تھا‘ نوازشریف قدرے تصرف کے ساتھ کہہ سکتے ہیں :
میں آ گیا ہوں پھر ”غمِ جاناں‘‘ کو ٹال کر
کبھی حیرت ہوتی ہے‘ یہ شخص کس مٹی کا بنا ہوا ہے۔ فولاد کا کاروبار کرنے والے گھرانے میں آنکھ کھولنے والے اس شخص کے اعصاب بھی کیا فولاد میں ڈھلے ہوئے ہیں؟ وہ اپنی 69 سالہ زندگی کی بدترین آزمائش سے گزر رہا ہے‘ گذشتہ دنوں لندن میں کہا‘ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ بہت سے مصائب اکٹھے یلغار کرتے ہیں اور یہی زندگی ہے۔ اس کی خوش بختی ہے کہ شریک حیات بھی بے پناہ حوصلے والی ملی…اور بیٹی بھی کس ہمت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
گزشتہ پیشی پر احتساب عدالت نے ایک ہفتے کے استثنیٰ کی درخواست مسترد کر دی تھی‘ چنانچہ باپ بیٹی پانچ روز بعد اتوار اور سوموار کی درمیانی شب سات سمندر پار سے لَوٹ آئے‘ اس عالم میں میڈیکل رپورٹس کے مطابق بیگم صاحبہ کے گلے کا کینسر عود کر آیا ہے اور اس کے اثرات جسم کے دوسرے حصوں میں بھی پھیل رہے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں‘ علاج کے دوران مریض کی جذباتی اور نفسیاتی کیفیات کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ اپنے پیاروں کی موجودگی اس کے لیے نفسیاتی و جذباتی تسکین کا باعث بنتی ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے غیر معمولی حد تک حساس اپنے چیف جسٹس صاحب سے ہم نے ایک گذشتہ کالم میں گزارش کی تھی کہ وہ ایک سوموٹو نوٹس احتساب عدالت سے باپ بیٹی کے استثنیٰ کے حوالے سے بھی لیں جن کی عزیز ترین ہستی ہزاروں میل دور زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہے۔ چند ہفتے قبل بھی احتساب عدالت نے ہفتے بھر کے استثنیٰ کی درخواست مسترد کر دی تھی…
لندن سے ماں کا فون آیا تو بیٹی نے بتایا‘ درخواست مسترد ہو گئی…”کوئی بات نہیں‘ ہمارا اللہ مالک ہے۔ ‘‘اب دونوں طرف مزید کچھ کہنے ، سننے کا یارا نہ تھا۔ میں مرحومین کی یاد میں لکھے ہوئے جناب عرفان صدیقی کے کالموں کے مجموعے ”جو بچھڑ گئے‘‘ کی جذباتی کیفیت سے باہر نہ نکل پایا تھا کہ مریم نواز کے ٹویٹ نے خانۂ دل میں نیا حشر برپا کر دیا۔ ماں کو اس کیفیت میں خدا حافظ کہتے ہوئے بیٹی کی کیا کیفیت ہوتی ہے‘ بڑے سے بڑا فنکار اور قلم کار بھی شاید اس کا حقیقی اظہار نہ کر سکے۔ عرفان بھائی محسوس نہ کریں تو عرض کروں کہ سات‘ آٹھ الفاظ پر مشتمل مریم کا یہ ٹویٹ بارہ پندرہ سو الفاظ پر مشتمل کسی پرُسوز کالم سے کم نہیں‘ ”الوداع کرنا کبھی کتنا کٹھن ہوتا ہے‘‘۔ 34 شخصیات پر لکھے گئے یہ کالم گداز کی اپنی کیفیت لئے ہوئے ہیں‘ منو بھائی کے تعزیتی کالموں کا اپنا رنگ ہوتا تھا‘ عرفان صدیقی کے سوز و گداز کا اپنا ڈھنگ ہے۔ والدہ مرحومہ اور انعام بھائی پر لکھے گئے کالم تو سب کے سانجھے کالم ہیں‘ ہر ایک کا اپنا دکھ‘ جو سب کا مشترکہ دکھ بھی ہوتا ہے۔ وہ جو کہا جاتا ہے‘ ایسے میں ہم دوسروں کو نہیں‘ اپنوں کو روتے ہیں۔
”جو بچھڑ گئے ہیں‘‘ میں سب سے زیادہ کالم بے نظیر بھٹو پر ہیں۔ آپ انہیں ایک ہی کالم کی چھ قسطیں بھی کہہ سکتے ہیں۔ دو‘ دو کالم آغا شورش‘ قاضی حسین احمد‘ اکبر بگٹی اور میاں محمد شریف پر ہیں۔ نوابزادہ نصراللہ خاں‘ میاں طفیل محمد ‘مولانا نورانی‘ نعیم صدیقی‘ ڈاکٹر اسرار احمد‘ ڈاکٹر سرفراز نعیمی‘ بشیر احمد بلور‘ پروفیسر غفور احمد‘ جسٹس بھگوان داس اور اپنے قبیلے کے لوگوں میں سے ارشاد احمد حقانی‘ عباس اطہر اور سلیم شہزاد پر کالم بھی گداز کی خاص کیفیت لئے ہوئے ہیں (سلیم شہزاد پر بھی دو کالم ہیں)۔
مولانا نورانی پر کالم کی آخری سطور! ”مجھے یقین ہے کہ جب وہ لب ِ لعلیںپر درودوسلام کے زمزمے لیے‘ عطر میں بسی اجلی براق پوشاک زیب تن کئے‘ سر پر سیاہ عمامہ سجائے‘ فرط ِعقیدت سے گردن جھکائے سردست بستہ‘ ہولے ہولے قدم اٹھاتے درجاناں کی طرف بڑھ رہے ہوں گے تو رحمت کے فرشتے ان کے جلو میں ہوں گے‘ اس وقت بھی وہ رک رک کر فرشتوں سے پوچھ رہے ہوں گے‘‘ ایم ایم اے کس حال میں ہے؟ اس نے صدر مشرف کے اس چیلنج کا کیا جواب دیا ہے کہ‘‘ کر لو جو کرنا ہے‘‘؟ دھیان رکھنا! وہ میری بڑے جتنوں والی کمائی کوڑیوں کے مول نہ لٹا دے‘‘ ۔چراغ بجھتے جا رہے ہیں اور تاریکی لمحہ لمحہ گہری ہوتی جا رہی ہے…( یہ کالم مولانا کے انتقال سے دوسرے‘ تیسرے دن شائع ہوا۔ کچھ ہی دنوں بعد ایم ایم اے کی تائید کے ساتھ ڈکٹیٹر نے 17 ویں آئینی ترمیم منظور کرالی۔ کہا جاتا ہے‘ نیک روحوں کو برُی خبریں نہیں پہنچائی جاتیں‘ نورانی میاں کی روح کو بھی کرب سے بچانے کے لیے فرشتوں نے اس المیے سے آگاہ نہیں کیا ہو گا۔)
قاضی حسین احمد کی یاد میں:۔ 1993ء میں پاکستان اسلامک فرنٹ کا تجربہ ناکام رہا۔ اس سے جماعت کے اندر بھی اضطراب کی لہریں اٹھیں۔عوامی سطح پر بھی جماعت کے اکثر بہی خواہوں کو یہ تصور زیادہ پسند نہیں آیا۔ کہا جاتا ہے کہ 1993ء کے ان ہی انتخابات میں جماعت اسلامی کا بڑا ووٹ بینک‘ مسلم لیگ (ن) کی طرف ہجرت کر گیا جو آج تک پلٹ کر نہیں آیا۔
نوابزادہ نصراللہ خاں: بے نظیر بھٹو کے پہلے دور ِحکومت میں لاہور بار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے تجویز دی کہ طویل آمریت کے بعد بحال ہونے والی جمہوریت کا تحفظ کرنا چاہیے اور اس کی ایک صورت یہ ہے کہ نوازشریف اور بے نظیر ایک ہو جائیں، پنجاب اور مرکز میں مل کر حکومت بنائیں اور جمہوریت کے قلعے کو طالع آزمائوں سے بچانے کے لیے مل جل کر کام کریں۔ خطاب کے اختتام پر ایک وکیل نے سوال کیا…تو اپوزیشن کا کردار کون ادا کرے گا؟ نوابزادہ مسکرائے اور ایک لمحے کے توقف کے بغیر کہا‘ ”میں مر گیا ہوں کیا‘‘؟ اور اب وہ مر گیا ہے۔ قفس اداس ہے اور گلشن کا کاروبار دسترخوانوں پر منڈلاتی مکھیوں کے تصرف میں ہے۔
اکبر بگٹی پر دو کالم اشک بار بھی ہیں اور چشم کشا بھی۔ دوسرے کالم میں بلوچ سردار کے لیے تعزیتی اجتماع کے حوالے سے چند سطور:۔ قوم پرست رہنمائوں کے جذبات کی حدت تو ایک پس منظر رکھتی ہے اور ان کا یہ لب و لہجہ نیا نہیں لیکن میں عابدہ حسین‘ عاصمہ جہانگیر اور عمران خان کی گفتگو سن کر ششدر رہ گیا: ”اب مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ چھوٹے صوبے کس محرومی کا شکار ہیں…میں اگر بلوچ ہوتا تو مجھے اکبر بگٹی کے ساتھ مل کر لڑنے پر فخر ہوتا ۔میں (عمران خان) اگر وزیرستان کا قبائلی ہوتا تو ان کے لشکر میں شامل ہو کر جنگ لڑتا۔ اگر 1971ء واپس پلٹ آئے اور میں بنگالی ہوں تو میں مجیب الرحمن کے ساتھ مل کر جنگ لڑوں گا‘‘۔
اور اب جناب ارشاد احمد حقانی کی وفات پر اہل شہر کی بے حسی کا نوحہ:۔ کیا ارشاد احمد حقانی جیسی بلند پایہ شخصیت کو اسی انداز سے رخصت ہونا چاہیے تھا کہ شہر لاہور سے صرف اڑھائی سو افراد ان کی نماز جنازہ پڑھنے آئیں۔ افتخار عارف نے کہا تھا ع
جس روز ہمارا کُو چ ہو گا
پھولوں کی دکانیں بلند ہوں گی
میں نے قاسمی سے تو کچھ نہ کہا کہ کیا ہمیں بھی اڑھائی سو افراد میسر آئیں گے؟…کیا اس دن بھی یہی کچھ ہو گا؟ میرے بہت سے دوستوں کو ضروری کام پڑ جائیں گے؟…پرویز رشید کو بڑے میاں صاحب ایک ضروری میٹنگ میں بلا لیں گے؟ شعیب بن عزیز کو شہباز صاحب کے ساتھ میاں چنوں جانا پڑ جائے گا؟ حسن نثار ”چوراہا‘‘ کی ریکارڈنگ میں مصروف ہو گا‘ عطا الحق قاسمی ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے شارجہ جا رہا ہوں گا اور مجیب الرحمن شامی اے پی این ایس کی میٹنگ کے سلسلے میں کراچی میں ہوں گے؟
ابھی سے کیا بتائیں مرگِ مجنوں کی خبر پر
سلوک کوچۂ نا مہرباں کیسا لگے گا؟
ارشاد حقانی کو بھول جائوں تو بھی مجھے گلبرگ کا خزاں رسیدہ باغیچہ‘ پیلی مری مری سی گھاس‘ آسمان پر جھولتا تانبے کا زنگ آلود تھال‘ لکڑی کے پنگھوڑے میں سویا ایک شانت چہرہ‘ اڑھائی سو افراد کا مختصر سا مجمع اور دھند میں لپٹی وہ میلی سی سہ پہر دیر تک یاد رہے گی۔