مزاحمت….عمار مسعود
بہت دن سے ملکی سیاست پر بات کر، کر کے طبیعت کچھ مکدر سی ہو گئی ہے۔ سیاست میں کوئی نئی بات نہیں ہو رہی۔ وہی پرانے قصے، وہی الزامات کی بوچھاڑ، وہی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے حر بے۔ آج شعر کی بات کرنے کو دل چاہتا ہے۔شعر بھی وہ جو سوچنے پر مجبور کرے۔ دل میں جذبے کو جگائے۔ نئی،نئی منزلیں دکھائے۔ اردو ادب میں مزاحمتی شاعری کی روایت بہت پرانی ہے۔ فیض، جالب اور فراز کے نام سے تو سب واقف ہیں مگر مزاحمتی شاعری انہی تین شعراء کرام تک محدود نہیں۔ ہر دور میں ہمارے شعراء کرام نے مزاحمت کو شعر کیا ہے۔ یہاں اس بات کا ادراک لازم ہے کہ یہ مزاحمت یا بغاوت ضروری نہیں کسی حکومت کے خلاف ہو، مزاحمتی شاعری کسی بھی رسم، سوچ، ڈھنگ اور استعمار کے خلاف کی گئی ہے۔ آج ایسی ہی شاعری کے چند نادر نمونے کالم میں لکھ رہا ہوں۔ ان میں چند شعراء ایسے بھی ہیں جن کے نام سے شاید آپ واقف نہ ہوں لیکن وہ اسی مٹی کے رنگ میں رنگے اپنے اپنے انداز سے اپنی بات کہہ رہے ہیں۔ابتدافیض صاحب سے ہی کرتے ہیں۔فیض صاحب نے کس دبنگ انداز میں کہا ہے
مرے چارہ گر کو نوید ہو صفِ دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا
ملاحظہ ہو فیض ایک اور شعر میں کیسے انصاف طلب کرتے ہیں
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟
منصف ہو تو پھر حشر اٹھا
کیوں نہیں دیتے
فراز کا اس سماج کی نا انصافی پر احتجاج ملاحظہ ہو
ہم ہیں ظلمت میں کہ ابھرا نہیں خورشید اب کے
کوئی کرتا ہی نہیں رات کی تردید اب کے
فراز کے ہاں بغاوت کا اندازہ اس شعر سے ہو سکتا ہے
اس نے جب چاہنے والوں سے اطاعت چاہی
ہم نے آداب کہا اور اجازت چاہی
احمد ندیم قاسمی اس ملک کے لوگوں کی غفلت کے حوالے سے کہتے ہیں
کیا خبر تھی یہ زمانے بھی ہیں آنے والے
سوتے رہ جائیں گے سوتوں کو جگانے والے
استاد محترم جناب جلیل عالی کہتے ہیں
اک سحرِ ضیا میں ہیں سبھی کون یہ سوچے
ٹوٹا ہے جو تارا وہ کہاں جا کے گرا ہے
لوگوں نے احتجاج کی خاطر اٹھائے ہاتھ
اس نے کہا کہ فیصلہ منظور ہوگیا
جلیل عالی صاحب سانحہ مشرقی پاکستان کے بارے میں کہتے ہیں
عالی سب انصاف ترازو ٹوٹ چکے
کیاپائو گے اب زنجیر ہلا کر بھی
اُس دن ایسی سرخی تھی اخباروں پر
گونگے ہو گئے شہر کے سارے ہاکر بھی
عباس تابش کے اسی لہجے کے چند اشعار دیکھے
دہائی دیتا رہے جو دہائی دیتا ہے
کہ بادشاہ کو اونچا سنائی دیتا ہے
یہ لوگ اور طرح بات ہی نہیں سنتے
میں کیا کروں مجھے مجمع لگانا پڑتا ہے
ہمارے پائوں الٹے تھے فقط چلنے سے کیا ہوتا
بہت آگے گئے لیکن بہت پیچھے نکل آئے
یہ کوتوال شہر بھی کیا خوب شخص ہے
قاتل کو ڈھونڈتے ہوئے قاتل کا ہو گیا
خوں بہاتو کس کو ملنا تھاتمہارے شہر میں
قاتلوں کے نام پر رکھے گئے سڑکوں کے نام
میرے والد انور مسعود کو لوگ اکثر مزاحیہ شاعری کے حوالے سے جانتے ہیں مگر ان کایہ شعر مزاحمت کی مثال ہے
اسکی تلوار نے وہ چال چلی ہے اب کے
پائوں کٹتے ہیں اگر ہاتھ بچائوں اپنے
احمد مشتاق کا رنگ ملاحظہ ہو
موسموں کا کوئی محرم ہو تو اس سے پوچھوں
کتنے پت جھڑ ابھی باقی ہیں بہار آنے میں
اقبال ساجدکی بغاوت کا انداز دیکھئے
سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا
دیکھے تو حسن عباس رضا کس طرح الم فگار ہیں
شہرِ ناقدراں کا تحفہ بھی نہ یک جا رکھ سکے
زخم گھر تک لائے پتھر راستوں میں رہ گئے
نوجوان شاعر اور برادر عزیز علی یاسر کا شعر ملاحظہ ہو۔
حوصلہ اور ذرا حوصلہ اے سنگ بدست
وقت آئے گا تو خود شاخ سے ہم اتریں گے
منظور عارف کا عزم ملاحظہ ہو
انکارِ حقیقت ترے دیوانوں نے اے دوست
صحرا میں کیا تھا نہ سرِ دار کیا ہے
غلام محمد قاصرکس طرح اس سماج پر گریہ کر رہے ہیں
اب مرے شہر کی پہچان ہے اک وعدہ شکن
شہریت بدلوں کہ تاریخ سے انکار کروں
جھنگ کے شاعر رام ریاض کا لہجہ دیکھئے
دیوار چبھے گی کبھی در تنگ کرے گا
ہم صحرا نشیں ہیں ہمیں گھر تنگ کرے گا
منیر نیازی اس ملک کے نظام کے بارے میں کیا کہتے ہیں
منیر اس شہر پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
عدیم ہاشمی نے لکھا ہے
مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے
میں سر بکف ہوں لڑادے کسی بلا سے مجھے
افتخار عارف اس ملک میں ہونے والے تماشوں کے حوالے سے لکھتے ہیں
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہوگا
جمال احسانی نے لکھا ہے
کیسے وہ بستیاں آباد کریں گے جن سے
درودیوار کی عزت نہیں کی جا سکتی
اقبال کوثر لکھتے ہیں
یہ کن نشانوں پر ساحر نے تیر مار دیئے
کہ آدمی تو نہ مارے ضمیر ماردیئے
خورشید رضوی کا یہ شعر تو چند ٹی وی چینلز کے حوالے سے صادق آتا ہے
میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں
یہ جو لوگ محو کلام تھے مجھے کھا گئے
صابر ظفر کے ہاں انکار کی کیفیت دیکھئے
تو جب سے ہوا میرے حق میں
میں اپنے خلاف ہوگیا ہوں
منیر نیازی اس سماج کی نااعتباری کے حوالے سے کہتے ہیں
شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نامعتبر اس نے کیا
نجیب احمد نے کیا خوب لکھا ہے
آتش بدست شہر کے دربان تھے مگر
اک بے چراغ گھر کی حفاظت نہ کر سکے
خالد احمد لکھتے ہیں
بے جہت فکر کے ہاتھوں میں کماں کیوں دی تھی
اب ہدف تو ہے، تو کیا، تیر تو چل جانا تھا
شہزاد احمد کہتے ہیں
میں کہ خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کر
کانپ اٹھتا ہوں گلی کوچوں میں پانی دیکھ کر
عبید اللہ علیم کا شعر تو سب نے سنا ہی ہو گا
کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہو رہے ہیں ہمیں قتل کر رہے ہیں
وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کے لئے سبط علی صبا کا حسب حال شعر دیکھئے
دیوار کیا گری میرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لئے
کوہاٹ کے شاعر مقبول عامر کا امیدا افزا لہجہ دیکھئے
ہم اہل شب کے لئے صبح کا حوالہ ہے
دیئے کی آنکھ میں آنسو نہیں اجالا ہے
مقبول عامر کی ایک مختصر نظم میں احتجاج دیکھے
فقیہ شہر بولا بادشہ سے
بڑا سنگین مجرم ہے یہ آقا
اسے مصلوب کرنا ہی پڑے گا
کہ اسکی سوچ ہم سے مختلف ہے
جیو نیوزکے خوش شکل اور خوش کلام نیوز اینکر نوجوان شاعر وجیہ ثانی کہتے ہیں
ماں نے گھٹی میں پلائی ہے بغاوت شاید
لب پہ تالے ہیں مگر ہاتھ اٹھایا ہوا ہے
یہ چند مثالیں ہیں جو عصر حاضر کے شعراء کے کلام سے انتخاب کی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ایسا شعر کہنے والے کم نہیں ہیں۔ شعر کی زبان میں مزاحمت کا سفر اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک اس سماج سے بے ناانصافی ختم نہیں ہو گی۔ جب تک جبر و استبداد لوگوں پر حکومت کرتا رہے گا ،بغاوت کی آواز آتی رہے گی۔ اس آواز کا وسیلہ، قرینہ اور سلیقہ مختلف ہو سکتا ہے مگر یہ سب آوازیں حق ہیں۔ سچ ہیں۔ ہماری ہیں۔ تمہاری ہیں۔جیسے جلیل عالی کہتے ہیں
تم زمیں پر جو خدا بنتے چلے جاتے ہو
کیا سمجھتے ہو بغاوت نہیں ہم کر سکتے