منتخب کردہ کالم

مسافرت اور انتہا پسندی (جمال گفت) حسنین جمال

وزیر اعظم پاکستان نے جامعہ نعیمیہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دین کے نام پر انتہا پسندی پھیلائی جا رہی ہے، قوم کے سامنے دین کا اصل بیانیہ رکھنا ہو گا۔ تقریر میں بہت سی مزید تفصیلات تھیں لیکن ایسا کچھ نہیں تھا کہ جس پر بلند و بالا فکری مینار تعمیر کیے جا سکیں۔ یہ بیان وقت کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات‘ جن میں بعض مسالک آپس میں الجھے ہوئے ہیں‘ اورتشددا پسند ذہن کامیابی حاصل کر لیتا ہے، یہ تقریر ایک طرح سے پیش آنے والے حالات کی ایسی وارننگ کہی جا سکتی ہے جس پر عمل کرنے کے لیے زمانے درکار ہیں۔
اگر ایک لمحے کو ہم اپنے گلی محلے کے گھروں میں دیکھیں تو ہمیں بالکل سکون والا ماحول نظر آتا ہے۔ گھروں میں عبادات پر ہلکی پھلکی پوچھ گچھ ہے یا مقدس کتاب پڑھانا والدین اپنا فرض سمجھتے ہیں، اس کے علاوہ زندگی کیا ہے، وہ سب آس پاس کا ماحول سکھاتا ہے۔ آج بھی مارکیٹوں میں مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے دکاندار ایک ہی مسجد میں نماز پڑھ لیتے ہیں، محلوں کی چھوٹی چھوٹی مسجدیں اب بھی دل کشادہ رکھتی ہیں، جمعہ اور عیدین پر بھی یہ منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ نذر نیاز نہ کرنے والے بھی دوستوں کی دل جوئی کو ان کے گھر چلے جاتے ہیں اور سوائے چند علاقوں کے یہ رواداری ہر جگہ موجود ہے۔
عام انسان نفرت بھرا ذہن نہیں رکھتا، اسے دوسرے مسلک یا مذہب کے خلاف نفرت سکھائی جاتی ہے۔ یہ کام بھی تمام مذہبی راہنما نہیں کرتے، چند ایک کا اجارہ ہے۔ تو اس تقریر سے ایک اشارہ یہ لیا جا سکتا ہے کہ حکومت ایسے عناصر پر ہاتھ ڈالنے کو تیار ہے جو مسلکی نفرتوں کے پرچار میں آگے آگے ہیں، جن کی بہت سی تقاریر سوشل میڈیا پر موجود ہیں یا جو عملی طور پر لچک دکھانے کے قائل نہیں ہیں۔ یہی سوچ اس بیان میں پوشیدہ ہے کہ ہمیں فتووں سے آگے نکلنا ہو گا۔ اس بات کا پس منظر یہ نظر آتا ہے کہ بھئی دین کے نام پر ایک دوسرے کے خلاف لڑائی لڑنا بند کیجیے اور جن سے لڑنا ہے ان کی سوچ کو ختم کرنے میں مدد دیں۔ فتاویٰ کا میدان ایک وسیع و عریض پھیلاؤ کا حامل ہے، یقینی طور پر یہ بات طنزیہ پیرائے میں نہیں کی گئی بلکہ صرف اور صرف ان لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے جو منبر پر بیٹھتے ہی متنازعہ معاملات چھیڑنے کے لیے ہیں۔
”دہشت گردی کے لیے دلائل تراشے جاتے ہیں اور مدارس کی تعلیم امن کی بنیاد پر استوار ہونی چاہیے‘‘۔تقریر میں موجود یہ بات سراسر وہی ہے جو ایک روایتی بیانیہ ہے بس تھوڑی وضاحت یا صاف الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے۔ یہ بات پچھلے بیس برس میں مختلف پلیٹ فارمز پر دہرائی جاتی رہی ہے کہ مدارس انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں‘ لیکن جو بھی یہ بیان دیتا ہے وہ علم رکھتا ہے کہ تمام مدارس کی صورت حال یہ نہیں ہے۔ مذہبی فکر کو فروغ دینے اور دوسرے مسالک کو برا ثابت کرنے میں بس بال برابر فرق ہے۔ تو جن مدرسوں میں روایتی نصاب ہے اور بچے صبح شام حفظ کرنے یا دوسرے علوم حاصل کرنے میں مصروف ہیں، ان سے کسی کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے ۔ ہاں جہاں انتہا پسندی پر مبنی نصاب موجود ہے، وہ تمام چیزیں ریاستی اداروں بلکہ بہت حد تک آس پاس والے لوگوں کے علم میں بھی ہیں، اور انہیں کے خلاف بات کی گئی ہے ۔ اس کا بہترین حل یہ ہو سکتا ہے کہ تمام مدارس میں جدید عمرانیات،
معاشیات اور دنیا میں موجود ثقافتی تنوع سے متعلق کچھ بنیادی تعلیم دی جائے تاکہ طلبا کو یہ علم ہو کہ اس زمین پر مختلف مذاہب کے بہت سے لوگ جگہ جگہ رہتے ہیں اور وہ سب اپنی اپنی رسومات عین اسی عقیدت سے ادا کرتے ہیں جیسے کہ ہمارے اسلاف کیا کرتے تھے، یا ہم کرتے ہیں۔ جدید تعلیم کے نام پر کمپیوٹر سکھانا کسی قسم کا امن لانے میں مددگار نہیں ہو سکتا۔
تھوڑی خود احتسابی تقریر میں در آئی جب انہوں نے کہا کہ ”پاکستان اور دنیا بھر میںمذہب کے نام پر ظلم کا بازار گرم ہے‘‘ یہ آج نہیں ہوا، یہ اچانک نہیں ہوا، یہ اگلوں کے بوئے بیج ہیں جن کی فصلیں ہم کاٹ رہے ہیں۔ طالبان، داعش، آئسس، حزب التحریر اور بہت سی دوسری جماعتیں اس سیاست کے نتیجے میں شروع ہوئیں جسے ساٹھ کی دہائی کے وسط میں فروغ دیا گیا تھا، مقصد تیل تھا، نام اوپیک تھا، آگ پوری دنیا میں پھیل گئی۔ یہ احساس تو سب کو ہے کہ مذہب کے نام پر ظلم کا بازار گرم ہے لیکن اس کا شکار بھی مسلمان ہیں، اور مزید ہوں گے ، یہ کون کہے گا؟ ایک عام مسلمان تو آج بھی اس زعم سے باہر آنے کو تیار نہیں کہ ہم دنیا کی طاقتور ترین قوم ہیں۔
عوام یقین رکھتے ہیں کہ مسائل حل کرنا ان سیاسی جماعتوں کے بس میں ہے جن کو سینتالیس کے بعد سے آج تک ووٹ پڑتے آئے ہیں۔ اگر پاکستان کے لوگوں کی اکثریت ذہنی طور پر نصابی راہنماؤں کے پیچھے چلنے والی ہوتی تو یہ جماعتیں اسمبلیوں میں کثرت سے نظر آتیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔ تو میاں نواز شریف کی حالیہ تقریر میں صرف الفاظ کا انتخاب تھوڑا بہتر کیا گیا ہے ورنہ باتیں سب وہی ہیں جو نیشنل ایکشن پلان کے وقت بھی کہی گئی تھیں، اس سے پہلے بھی سب جانتے تھے اور آئندہ بھی دہراتے رہیں گے اور اس سب کے پیچھے نواز لیگ کا ووٹ بنک موجود ہے۔
اب سے پہلے کئی بار مدارس میں اصلاحات کا بیڑا اٹھایا گیا لیکن سائنسی علوم کے فروغ پر بات کرکے اسے وہیں سے واپس بھی رکھ دیا گیا۔ کمپیوٹر یا کوئی بھی سائنسی تعلیم انسان میں ٹیکنیکل مہارت ضرور پیدا کرتی ہے مگر دنیا کو دیکھنا کیسے ہے، وسعت قلبی و نظری کیا بلا ہے، یہ وہ نہیں جان پاتا۔ وہ مضمون جنہیں ہم ”آرٹس‘‘ کا نام دے کر حقارت آمیز جانتے ہیں، وہی آدمی کو انسان بننے میں مدد دیتے ہیں۔ ایجوکیشن، سوکس، سوشیالوجی، اکنامکس، لٹریچر، پینٹنگ، لینگوئجز اور دیگر بہت سے آرٹس مضامین وہ ہیں جو انسانوں کا رہن سہن اور اس کی بنیادی معلومات ہمیں فراہم کرتے ہیں۔ یہ بات دعوے سے کی جا سکتی ہے کہ اگر یہ مضامین مدرسوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں چھوٹے چھوٹے لازمی کورسز کے طور پر پڑھائے جائیں تو معاملات اب بھی سنور سکتے ہیں۔ بالغ نظری گھر بیٹھے پیدا نہیں ہو سکتی، انسانیت کے مدارج انسانوں کو جانے بغیر کبھی طے نہیں ہو سکتے اور منظر کا ایک رخ دیکھتے رہنے سے گردن آہستہ آہستہ اکڑ تو سکتی ہے، گھومنے کے قابل نہیں رہتی۔
”مسافرت میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب گھوڑا اپنے سوار کی راسیں تھام لیتا ہے‘‘ یہ بزرگ ادیب اسد محمد خاں کے ایک افسانے کا آغاز تھا، لیکن یہ وقت ہمیشہ انجام کا وقت ہوتا ہے، کوشش کیجیے راسیں تھمی رہیں۔