منتخب کردہ کالم

مستقبل میں پانی کا شدید بحران…ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ

مستقبل میں پانی کا شدید بحران

مستقبل میں پانی کا شدید بحران…ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ ’’ڈویلپمنٹ ایڈووکیٹ پاکستان‘‘ میں ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ اگر پاکستان نے پانی کے ذخائر محفوظ کرنے کیلئے ضروری اقدامات نہ کئے تو 2025ء تک پاکستان پانی کے شدید بحران کا شکار ہوجائے گا جو ملک میں دہشت گردی سے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے لیکن پاکستان متوقع پانی کے اس بحران سے نمٹنے کیلئے تیار نہیں۔ واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک کے بقول ملک میں پانی کیلئے کوئی ٹھوس پالیسی ہی نہیں۔ گزشتہ سال پاکستان میں پانی کے ذرائع پر ’’پاکستان کونسل آف واٹر ریسورسز‘‘ (PCRWR) نے خبردار کیا تھا کہ اگر پاکستان میں پانی کے بحران پر فوری قابو نہ پایا گیا تو پاکستان جس نے 1990ء میں کم سے کم پانی کی سطح کو چھوا تھا، 2025ء تک اس سطح سے بھی نیچے آجائے گا۔ رپورٹ کے مطابق 1960ء سے پاکستان میں پانی کے ذخائر محفوظ رکھنے کیلئے کوئی ڈیم نہیں بنایا گیا جس کے باعث ہم صرف 30 دن کا پانی ذخیرہ کرسکتے ہیں۔ اسلامی ملک پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا پانی استعمال کرنے والا ملک ہے جہاں پانی کا سالانہ فی کس استعمال صرف 1017 کیوبک میٹر ہے جبکہ عالمی معیار کے مطابق پانی کا فی کس کم از کم استعمال 1000 کیوبک میٹر ہے جس کے باعث آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا میں پانی کے بحران کا سامنا کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی میں ملک کے ایک بڑے تھنک ٹینک ’’پاکستان ہاؤس‘‘ کی جانب سے پانی و بجلی کے بحران پر ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ماہرین اور ممتاز صنعتکاروں نے اس اہم موضوع پر تقاریر کیں۔ اس موقع پر ایف بی آر کے چیف کمشنر انکم ٹیکس سید ایاز محمود نے مجھ سے پاکستان میں پانی کے بحران پر خصوصی طور پر لکھنے کی درخواست کی۔
پاکستان ہاؤس تھنک ٹینک کے چیپٹرز پاکستان کے علاوہ کوپن ہیگن اور برلن میں بھی قائم ہیں جو گزشتہ کئی سالوں سے اہم ملکی عالمی مسائل پر کانفرنسوں کا انعقاد کر کے حکومت کو سفارشات بھیجتے ہیں۔ مجھے بھی اس کانفرنس میں خطاب کیلئے خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ پانی کے بحران پر میں نے شرکاء کو بتایا کہ 1992ء میں اسٹاک ہوم میں ہونے والی انٹرنیشنل واٹر کانفرنس میں معروف مغربی دانشور لیسٹر آر براؤن نے کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں آئندہ جنگیں تیل کے بجائے پانی پر ہوں گی لیکن بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اب قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ برصغیر میں آبی جارحیت اور ہمسایہ ممالک سے آبی تنازعات پاکستان اور بھارت کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر لاسکتے ہیں، پاکستان اور بھارت کے مابین 1960ء میں سندھ طاس معاہدہ ہوا تھا جسکے تحت بھارت نے تین دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر پاکستان کا تصرف تسلیم کیا تھا۔ پانی کی تقسیم کے حوالے سے سندھ طاس معاہدے کو کامیاب معاہدہ قرار دیا جا سکتا ہے جو دو جنگوں اور 2002ء کے کشیدہ حالات کے باوجود بھی قائم رہا تاہم بھارت کا پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے سب سے بڑا ہدف سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے دریاؤں پر قبضہ کرنا ہے جس کیلئے وہ امریکہ و نیٹو ممالک کی آشیرباد سے مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی ضرورت کا پانی روک لیتا ہے لیکن بارشوں کے موسم میں بھارت اسی پانی کو چھوڑ کر پاکستان میں سیلاب کی صورتحال پیدا کر دیتا ہے۔بھارت یہ عمل گزشتہ کئی سالوں سے کررہا ہے مگر سرکاری سطح پر اس بات سے انحراف کرتا رہا ہے کہ اس کے چھوڑے گئے اضافی پانی سے پاکستان میں سیلاب آتے ہیں، پانی کے مسئلے پر پاکستان بھارت کے بگیہار ڈیم کی تعمیر کو معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے لیکن بھارت کا یہ کہنا ہے کہ وہ معاہدے کے تحت دریاؤں کے پانی کو کچھ عرصے کیلئے اپنے استعمال میں لاسکتا ہے لہٰذا بگلیہار ڈیم کی تعمیر معاہدے کی خلاف ورزی نہیں۔ بھارت کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان اس پانی کو ڈیموں کے ذریعے ذخیرہ کرنے کی بجائے اسے سمندر میں بہا دیتا ہے لہٰذا بھارت کا یہ حق ہے کہ وہ ضائع ہونے والے پانی کیلئے ڈیم بنا کر اسے اپنے استعمال میں لا ئے اور ضرورت پڑنے پر پاکستان کو بھی فراہم کر سکے۔ اس سنگین تنازعات کی بنیاد پر مختلف تھنک ٹینکس جو ایٹمی سیاسی یا ممکنہ ایٹمی جنگوں کے امکانات پر ریسرچ کر رہے ہیں، بھی پاک ،بھارت آبی تنازعات کو ممکنہ ایٹمی جنگ کے خدشات بتا رہے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند کو اللہ تعالیٰ نے کئی بڑے دریاؤں سے نوازا ہے اور خطے کی زراعت کا دارومدار پانی پر ہے جس کے باعث جنوبی ایشیاء میں وسیع پیمانے پر اناج پیدا ہوتا ہے۔پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام (کنال سسٹم) موجود ہے جو زراعت کیلئے استعمال ہوتا ہے لیکن ان نہروں کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی بہت بڑی مقدار ضائع ہوجاتی ہے جبکہ موسم کی ماحولیاتی تبدیلیاں اور بڑھتی ہوئی آبادی بھی ملک میں پانی کے بحران کا سبب ہیں۔ پاکستان کے پاس صرف 11.55ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے، اس طرح ہم صرف 30 دن کا پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں جبکہ بھارت 120دن تک اور امریکہ 900 دن تک پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس طرح پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی فی کس مقدار 150 کیوبک میٹر ، چین میں 2200یوبک میٹر، آسٹریلیا اور امریکہ میں 5000کیوبک میٹر ہے لیکن پاکستان اپنے دستیاب آبی وسائل کا صرف 7 فیصد پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ عالمی سطح پر یہ تناسب 40فیصد ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی پوری دنیا میں سب سے کم ہے۔ پاکستان اپنے دستیاب پانی کو ذخیرہ نہ کر کے سالانہ 30 سے 35 ارب ڈالر کا نقصان اٹھا رہا ہے جبکہ کالا باغ، بھاشا اور اکھوڑی ڈیم کی تعمیری لاگت صرف 25 ارب ڈالر ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے آج پاکستان پانی سے صاف اور سستی بجلی پیدا کرنے کے بجائے فرنس آئل، قدرتی گیس اور ایل این جی سے مہنگی بجلی پیدا کررہا ہے جس سے ملک کا انرجی مکس خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں نہایت مہنگا ہے جو ہماری پیداواری لاگت میں اضافہ اور ملکی ایکسپورٹس کو غیر مقابلاتی بنارہا ہے۔
کچھ ماہ قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے دھمکی دی تھی کہ ہم پاکستان کو بوند بوند پانی سے محروم کرکے صحرا میں تبدیل کردیں گے لیکن یہ افسوسناک امر ہے کہ بھارت کے جارحانہ رویے کو دیکھتے ہوئے بھی ہماری حکومت اور اپوزیشن جماعتیں پانی کے بحران کے مستقل حل کیلئے کسی قومی پالیسی پر متفق نہیں اور ڈیموں کی تعمیر پر سیاسی تنازعات پیدا کئے جارہے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت پانچ بڑے ڈیم ہیں جس میں تربیلا، منگلا، میرانی، وارسک اور سبک زئی ڈیم شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ڈیمز 1960ء سے 1975ء کے دوران بنائے گئے لیکن اسکے بعد پانی کے ذخائر کیلئے کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں شروع کیا گیا۔ کالا باغ ڈیم ہر لحاظ سے موزوں ترین منصوبہ تھا جو سیاست کی نذر ہوگیا۔بھارت کے ہاتھوں میں پاکستانی دریاؤں کا پانی بند کرنے کا ہتھیار کسی ایٹمی قوت سے کم نہیں اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان کی معیشت اور زراعت کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا ، اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ 2025ء زیادہ دور نہیں لہٰذاقومی سلامتی اور بقا کیلئے حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہوکر ملک میں زیادہ سے زیادہ ڈیم تعمیر کرنے کی قومی پالیسی ترجیحی بنیادوں پر تشکیل دینا چاہئے، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پاکستان مستقبل قریب میں پانی کے شدید ترین بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔