مسلمانوں کا قتل ِعام…..نذیر ناجی
بھارت میں بے گناہ مسلمانو ں کا قتل عام روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ایسے قتل عام کے لئے بھارت میں روز کہیں نہ کہیں مسلمانوں پر تشددکی آگ بھڑکائی جاتی ہے۔اس طرح کے جھگڑے میں جہاں مسلمانوں پر ظلم کیا جاتا ہے‘ وہاں سوال یہ نہیں ہوتا کہ خون کس کا بہایا جا رہا ہے؟ صرف یہی دیکھنا کافی ہوتا ہے کہ قتل عام کرنے والے کون ہیں؟ اور بے چارے مقتول کون؟ کوئی بھی راہ گیر سڑک پر اس طرح کا ہنگامہ دیکھے تو وہ بغیر سوچے سمجھے ‘کمزور اور بے بس مسلمانوں کا خون بہانا اپنا مذہبی فریضہ سمجھ لیتا ہے۔ مودی راج میں اب سب کچھ ممکن ہے۔ پہلے کوئی ہمت نہیں کرتا تھا کہ ظالم یا قاتل کی کھلم کھلا مدد کرے۔ اس کو شاباشی دے۔ مجرموں کو ہار پہنائے اور اسے ہیرو بنانے کی کوشش کرے مگر مودی کی نفرت اور کدورت کے راج میں سب کچھ ممکن ہو چکا ہے۔ جو جرم سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا‘وہ اب آسانی سے ہونے لگا ہے۔ جو لوگ اس جرم میں ملوث ہیں‘ وہ سب کے سب بی جے پی‘ آر ایس ایس یا اس کی ذیلی تنظیموں کے کارندے ہوتے ہیں‘ جن کے لئے موب لچنگ یا ہجومی تشدد‘ دائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ جب چاہتے ہیں‘ جہاں چاہتے ہیں‘ وہ گئو ماتا کے تحفظ کی آڑ میں‘ جس کو چاہتے ہیں‘ سرراہ بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر مار ڈالتے ہیں۔ اس طرح کی وارداتوں کے موقع پر پولیس جان بوجھ کر دیر سے آتی ہے تاکہ شر پسند عناصر اپنا مقصد پورا کر لیں اور جب پہنچتی ہے تو وہ ظالموں کا پتہ لگانے کے بجائے مظلوموں کو ڈھونڈتی ہے اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے میں دلچسپی لیتی ہے۔ ظالموں کی پیٹ تھپتھپاتی ہے۔ ان کی عزت افزائی کر کے چھوڑ دیتی ہے۔ مظلوموں کی چیخ و پکار پر اگر کوئی نیک دل پولیس افسرکچھ کرنا بھی چا ہے تو مودی سرکار کے وزرا اور نام نہاد لیڈرکود پڑتے ہیں۔وکلا بھی ان کی جرم پوشی میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ایسی صورت میں مظلوم یا مقتول کے عزیز و اقارب بے دست و پا ہو جاتے ہیں اور اس طرح ظالم دھڑلے سے بری ہو جاتے ہیں۔
مظلوم کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے کر دیا جاتا ہے۔اگر ظالموں نے مارڈالا ہے تو پولیس لاش خود دفن کر دیتی ہے یا ورثا کے حوالے کر دیتی ہے۔ گائے کے محافظوں کے ہاتھوں اب تک جو مارے گئے ہیں ان میں86فیصد مسلمان ہیں اور8فیصد دلت شامل ہیں۔ دلت احتجاج بھی کرر ہے ہیں اور لڑے بھڑنے کے لئے تیار بھی ہیں۔ مسلمان ڈر اور خوف سے سب کچھ برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس سے ظالموں
اور ان کے سرپرستوں کے حوصلے بلند ہیں۔ ایک زمانے تک تو مسلمان فرقہ وارانہ فسادات میں مارے گئے ۔ا بھی تک یہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں جاری و ساری ہے۔ فسادیوں اور مجرموں کو سزا نہیں ہوتی۔ کمیشن بھی قائم جاتے ہیں۔ سفارشات بھی آ تی ہیں مگر مودی سرکار سوائے ٹال مٹول کے کچھ نہیں کرتی۔ مسلمانوں کو گائے کے تحفظ کے نام پر گھیر کے ہجوم میں نا حق مار دیا جاتا ہے۔ اسے موب لچنگ کا نام دے کر جرم کو ہلکاکر دیا جاتا ہے یعنی بھیڑنے اچانک ایسا کیا۔ پہلے سے کوئی نیت یا پلان نہیں تھا۔ حالانکہ یہ بھیڑ نہیں ہوتی بلکہ آر ایس ایس کا کوئی مورچہ یا محاذ ہوتا ہے جو منصوبہ بند طریقہ سے کرتا ہے اسے سپریم کورٹ میں ہجومی حکمر ا نی (Mobcracy)کانام دیا جاتا ہے مگر یہ نفرت پر مبنی جرم ہے جو دہشت گردی سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اس پر قانون بنانے کے بجائے سپریم کورٹ کو ہدایت دینی چاہئے تھی کہ دہشت گردی کا قانون ایسے لوگوں پر لاگو کیا جائے اور جو حکومت یا پولیس اپنے فرائض سے کوتاہی برتے‘ اسے بھی کوئی نہ کوئی سزا دی جائے۔ سپریم کورٹ نے قانون بنانے کے لئے کہا ہے مگر سوائے سی پی ایم کے سیکرٹری جنرل سیتا رام بچوری کے ابھی تک اور کسی شخص یا پارٹی نے سپریم کے فیصلے کی بنیاد پر حکومت پر دبائو نہیں ڈالا ہے کہ وہ قانون بنائے۔ ضرورت ہے کہ جہاں بھی ہجومی
تشدد کی واردات ہو ‘ وہاں کے لوگ جو انصاف پسندہیں‘ ایسے جرائم کی سرکوبی کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔تھانے میں ایف آئی درج کرائیں۔ مجرموں کی شناخت کرانے میں بھرپور مدد کریں۔ پولیس اگر کچھ نہیں کر رہی تو اس پر دبائو ڈالیں۔ جو لوگ مجرم ہیں‘ ان کے خلاف بھی مقدمہ دائر کر کے مستعدی سے لڑنے کی کوشش کریں۔ اگر یہ کام مقامی سطح سے نہ ہو سکے تو مقافی افراد ملک گیر جماعتوں کے سربراہوں یا ریاستی شاخوں کے ذمہ داروں سے رابطہ قائم کر کے ‘دستاویزات کا کام پوری مستعدی سے کریں تاکہ مجرموں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جا سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کام مشکل ہے مگر کرنا ضروری ہے۔ مسلم یا غیر مسلم وکلا یا غیر سرکاری تنظیموں سے بھی مدد لینے کی ضرورت ہے۔ ہر ریاست میں ایسی شخصیتیں یا تنظیمیں قائم ہیں ‘جو اس طرح کے کام کرتی ہیں‘ ان کی مدد لینی چاہئے ۔ ان کی توجہ اس طرف مبذول کرانی چاہئے۔ اگر وہ کر رہی ہیں تو ان کا ہر طرح سے تعاون کرنا چاہئے۔ اگر مجرموں کو سزا نہیں ملتی تو ان کے حوصلے بلند ر ہیں گے۔ حالات جتنے بھی سنگین ہوں‘ کام کرنا ضروری ہے۔ جلسہ‘اجتماعات‘ سیمینارزاور سمپوزیم سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ نچلی سطح سے موب لچنگ جیسے جرائم کے سد باب کے لئے مستعدی اور سرگرمی سے کام کیا جائے‘ تبھی اس کا تدارک اور سدباب ہو سکتا ہے۔