مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے نئے چہرے….رؤف طاہر
یہ ایک اور بلاول تھا جو اس انٹرویو میں دریافت ہوا۔ ٹی وی چینل پر یہ انٹرویو ”Managed‘‘ نہیں تھا، ”مہمان‘‘ کی سہولت کے لیے جس میں ”سوال نامہ‘‘ پہلے ہی مہیا کر دیا جاتا ہے‘ اور انٹرویو کے دوران بھی ”میزبان‘‘ کو حسبِ ضرورت سہولت کار بننے سے گریز نہیں ہوتا۔ بلاول سے انٹرویو کرنے والا یہ اینکر پرسن خاصا بے لحاظ واقع ہوا، اور سوالات بھی آسان نہ تھے، لیکن ”میزبان‘‘ کے کئی چبھتے ہوئے سوالات کے جواب بھی نوجوان ”مہمان‘‘ نے بڑے اعتماد اور وقار کے ساتھ دیئے۔
اپنے ”ہوم گرائونڈ‘‘ تک محدود ہو جانے والی پیپلز پارٹی کو اپنی بحالی کے لیے نئے چہرے کی ضرورت ہے۔ جناب زرداری، دوسروں سے زیادہ خود اپنی جماعت پر بھاری پڑ گئے تھے۔ ”مفاہمت کے بادشاہ‘‘ نے 2008ء سے 2013ء تک پانچ سال تو پورے کر لئے لیکن پارٹی کو نیم جان کر دیا۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ پارٹی کے بینرز اور فلیکسز پر بھٹو اور بے نظیر تو ہوتے‘ لیکن زرداری کی تصویر لگانے کا رِسک نہ لیا جاتا۔ ہم نے یہ منظر لاہور میں سپیکر ایاز صادق کے حلقے میں ضمنی انتخابات میں بھی دیکھا اور گزشتہ سال معزول وزیر اعظم کے حلقے 120 کے ضمنی انتخاب میں بھی… حالانکہ ان دونوں حلقوں میں پیپلز پارٹی نے پڑھے لکھے نوجوان امید وار میدان میں اتارے تھے، لیکن دونوں بار ان کے ووٹ ڈیڑھ ہزار کا ہندسہ عبور نہ کر سکے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں پارٹی نے لاہور میں قومی اسمبلی کی تیرہ نشستوں میں سے اکثر پر اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے، اور یہ نئے چہرے تھے جنہیں ٹکٹ کے ساتھ پارٹی نے انتخابی اخراجات کے لیے معقول رقم بھی مہیا کی تھی۔ پارٹی کے جہاندیدہ اور سرد و گرم چشیدہ لیڈروں نے اپنی عزت اور پیسہ بچانے کے لیے میدانِ انتخاب سے دور رہنے میں ہی عافیت جانی۔ آخری ہفتوں میں پارٹی نے سارا زور شیخ روحیل اصغر والے حلقے میں لگا دیا تھا‘ جہاں بیرسٹر اعتزاز احسن کی اہلیہ امیدوار تھیں۔ یہاں بیرسٹر صاحب کی دھواں دھار تقریریں اور کارکنوں اور ووٹروں کی دل جوئی کے لیے پیسے کا فراخ دلانہ استعمال بھی کام نہ آیا‘ اور بیگم صاحبہ سات ہزار ووٹوں کے ساتھ اپنی ضمانت بھی نہ بچا سکیں۔ کہا جاتا ہے اعتزاز احسن، جو موقع بہ موقع نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) پر حملے میں جذباتی ہو جاتے ہیں، اپنے تیور سنبھال پاتے ہیں‘ نہ لب و لہجے پر قابو رہتا ہے، تو اس کا بنیادی سبب 2013ء کے الیکشن کا یہی زخم ہے، جو مندمل ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ تب بیرسٹر صاحب پنجاب سے سینیٹ کے رکن تھے، اس سال مارچ کے بعد تو وہ سینیٹر بھی نہیں رہے۔ یہ زوال ”بہاول خان کے پوتے‘‘ کو کسی کل چین نہیں لینے دیتا۔
اب 2018ء کے اس الیکشن میں بھی پنجاب میں پیپلز پارٹی کے لیے کچھ نہیں۔ جنوبی پنجاب سے وابستہ امیدیں بھی ناتمام رہیں کہ منصوبہ سازوں نے یہاں کے الیکٹ ایبلز عمران خان کے ٹوکری میں ڈال دیئے ہیں۔ لیکن بلاول کی صورت میں اسے نیا چہرہ مل گیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے پاکستانی سیاست میں اس کا ورود کچھ زیادہ متاثر کن نہیں تھا۔ لِکھ کے دی ہوئی تقریریں بھی وہ روانی کے ساتھ نہ پڑھ پاتا۔ کچھ معاملہ لب و لہجے کا بھی تھا۔ سیاسی مخالفین کے خلاف کھلی ڈلی زبان کے استعمال کو اپنی شناخت بنانے والے فرزندِ لال حویلی نے بھی اسے ایک نام دے رکھا تھا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ ہمیں بھی اس میں ”بھٹو کا نواسا‘‘ اور ”شہید بی بی کا بیٹا‘‘ ہونے کے سوا، کوئی اور وصف نظر نہ آتا تھا۔ لیکن اس ہفتے اس کا انٹرویو ہمارے لئے چونکا دینے والی بات تھی۔ یہ ایک مختلف بلاول تھا۔ لگتا تھا وہ پولیٹیکل میچورٹی کے مراحل تیزی سے طے کر رہا ہے۔ 13 جولائی کو نواز شریف اور مریم کی لاہور آمد پر ”نگرانوں‘‘ کے اقدامات پر اس کے ردِ عمل میں بھی ایک سلجھے اور منجھے ہوئے لیڈر کی جھلک تھی۔ اپنے قائد اور اس کی صاحبزادی سے اظہار یکجہتی کے لیے نکلنے والے سیاسی کارکنوں اور شہریوں کو سیاست کا بائیس سالہ تجربہ رکھنے والا 66 سالہ سیاسی لیڈر جاہل، نادان، بے وقوف اور گدھے قرار دے رہا تھا اور دوسری طرف نوجوان بلاول کا کہنا تھا: عدالت سے سزا یافتہ نواز شریف اور مریم کی گرفتاری کے لیے کئے جانے والے اقدامات بجا (وہ تو خود گرفتاری پیش کرنے آ رہے تھے) لیکن اس موقع پر لاہور کو محصور بنا دینے، سڑکوں اور شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے، سیاسی کارکنوں کی گرفتاری اور ان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات کا کیا جواز تھا؟ مخالف سیاسی جماعت کے کارکنوں کے خلاف ناجائز اور ناپسندیدہ کارروائیوں پر یہی ردِ عمل ایک میچور پالیٹیشن کے شایانِ شان تھا۔
پیپلز پارٹی کے پاس 2023ء کے الیکشن تک ابھی پانچ سال ہیں اور ہمارا دل کہہ رہا ہے کہ ان پانچ برسوں میں بلاول اگر ”نظرِ بد‘‘ سے بچا رہا اور سیاسی بلوغت کے مراحل اسی طرح طے کرتا رہا تو آئندہ الیکشن دو نئے چہروں، مریم نواز اور بلاول بھٹو کے درمیان ہو گا۔
وہ کام جو مسلم لیگ (ن) کے میڈیا سیل اور ترجمانوں سے نہ ہوا، گزشتہ شب ایک ٹی وی اینکر نے کر دیا، لیکن یہ نواز شریف یا ”نون‘‘ کی محبت میں نہیں، بلکہ اس کے پیشہ ورانہ فریضے کے حوالے سے تھا۔ 300 ارب روپے کی منی لانڈرنگ، نواز شریف کے خلاف وہ الزام ہے، جو ایک عرصے سے عمران خان سے لے کر نچلی سطح تک تحریکِ انصاف کے وابستگان دہراتے چلے آ رہے ہیں۔ گزشتہ شب پی ٹی آئی کے ترجمان، ایک ٹاک شو میں اسی کا اعادہ کر رہے تھے کہ اینکر پرسن نے پوچھ لیا: آخر یہ ”فگر‘‘ آپ نے کہاں سے لی؟ قومی خزانے سے 300 ارب روپے کی اس خطیر رقم کی لوٹ مار کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے؟ ترجمان موصوف کا جواب تھا: یہ بات عدالتی فیصلوں میں موجود ہے۔ اینکر موصوف بھی آسانی سے ماننے والے نہ تھے۔ ان کا اگلا سوال تھا: نواز شریف کے خلاف دو فیصلے آئے ہیں، ایک پاناما کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ، دوسرا ایون اپارٹمنٹس کیس میں نیب عدالت کا 6 جولائی کا فیصلہ۔ ان دونوں میں سے کس فیصلے میں 300 ارب روپے کی یہ ”فگر‘‘ ہے؟ کوئی جواب نہ بن پڑا تو ترجمان موصوف نے ”ٹھیک ہے‘‘ کہہ کر لائن کاٹ دی۔
ایک اور دلچسپ معاملہ ”35 سال تک ملک میں سیاہ و سفید کا مالک‘‘ ہونے کا ہے۔ یہ بات بھی اتنے تسلسل سے کہی جاتی ہے، کہ خود ہم اس سے متاثر ہونے لگے تھے۔
لیکن خیال کی ایک اور لہر ابھری، گزشتہ شب، ایک ٹاک شو میں لیڈی اینکر نے پوچھا: یہ خاندان 35 سال سے ملک کے سیاہ سفید کا مالک چلا آ رہا تھا، اس طویل عرصے میں انہوں نے اس غریب ملک کو کیا دیا؟ ہم نے عرض کیا: یہ 35 سال کہاں سے ہو گئے؟ 1981ء سے… لیکن کیا کوئی صوبائی وزارت آپ کو سیاہ سفید کا مالک بنا دیتی ہے۔ اس کے بعد نواز شریف 1985ء سے 1990ء تک دو بار وزیر اعلیٰ رہے، یہ پانچ سال بنتے ہیں، ان میں سے دوسری ٹرم، وزیر اعظم بے نظیر صاحبہ کے ساتھ کشمکش میں گزری… 1990ء سے 1993ء تک ان کی وزارتِ عظمیٰ کے اڑھائی سال تھے… 1997ء میں دوبارہ وزیر اعظم بنے اور اڑھائی سال بعد 12 اکتوبر 1999ء کو نکال باہر کئے گئے۔ چودہ ماہ قید کے بعد سات سال کے لیے جلا وطن ہو گئے۔ جون 2013ء میں تیسری بار وزیر اعظم بنے اور 28 جولائی2017ء کو گھر بھیج دیئے گئے، یہ چار سال دو ماہ تھے۔ لیڈی اینکر زیادہ بحث کے موڈ میں نہیں تھیں۔ انہوں نے کہا: شہباز شریف کو تو 2008ء سے لے کر 2018ء تک دس سال ملے، اس نے پنجاب اور لاہورکو کیا دیا؟… اس کا جواب 6 روز بعد خود عوام دے دیں گے، لیکن لاہور کے بارے میں تو خود خان کا کہنا ہے کہ پنجاب کا آدھے سے زیادہ بجٹ یہاں لگا دیا گیا۔ (اور خان کی سیاسی بصیرت کو داد دینی چاہیے کہ یہ بات وہ خود لاہور میں کھڑے ہو کر کہتا ہے)۔