منتخب کردہ کالم

مسلم لیگ (ن) کے باغیوں کی تعداد بڑھانے والے ان کے نام بھی سامنے لائیں…….تجزیہ: قدرت اللہ چودھری

پڑوس

پہلے تو قارئین سے اس بے خبری پر معذرت کہ ہمارا خیال تھا مسلم لیگ (ن) میں باغیوں کی تعداد ’’صرف ساٹھ‘‘ ہے حالانکہ یہ ایک سو سے بھی متجاوز ہوچکی ہے۔ ہماری کوتاہی دراصل یہ ہے کہ ہم اس سینئر صحافی کا پروگرام دیکھنے کی سعادت سے محروم رہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا۔ یہ سینئر صحافی وہ ہیں جو ہر روز اتنے زیادہ انکشافات کرتے ہیں کہ اگلے روز خود انہیں بھی یاد نہیں رہتا کہ انہوں نے کل کیا کیا انکشاف کیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) میں باغیوں کی تعداد سو تک پہنچ گئی ہے تو پھر وہ منظرعام پر آنے کیلئے کس وقت کا انتظار کر رہے ہیں؟ وہ اگر کھل کر سامنے آ جائیں اور اپوزیشن بنچوں پر جا بیٹھیں تو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جاسکتی ہے اور اگر اس کی منظوری کی راہ میں کوئی فنی رکاوٹ ہو تو بھی جماعت میں اتنے زیادہ باغیوں کا سامنا کرنا قیادت کے بس کی بات نہیں ہوگی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ باغی ابھی سامنے آ نہیں رہے، ممکن ہے انہیں اس میں حجاب ہو اور قیادت کا سامنا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جماعت میں باغی تو دوچار ہی ہوں اور یار لوگوں نے ان کی تعداد بڑھا کر پہلے ساٹھ اور پھر ایک سو بیان کردی ہو۔ ابھی نوازشریف اپنے عہدے پر قائم تھے اور ان کے خلاف پانامہ کے مقدمے کی سماعت جاری تھی تو دو سیاستدانوں نے اس وقت بھی دعویٰ کیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے ساٹھ ارکان باغی ہونے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ سابق گورنر کھوسہ آج تک کہہ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ 80 ارکان ہیں لیکن یہ صاحبان سامنے نہیں آتے، چلیے ذوالفقار کھوسہ 80 نہیں تو آٹھ، دس کی رونمائی کرا دیں تاکہ پتہ چلے کہ وہ جو کہہ رہے ہیں اس میں صرف نوے فیصد غلط ہے، دس فیصد درست ہے لیکن نوازشریف کو رخصت ہوئے بھی دو ماہ ہونے والے ہیں ابھی تک کوئی باغی کھل کر سامنے نہیں آیا، جن ارکان نے شکوے شکایتوں کا اظہار کیا ہے ان کی وجوہ دوسری ہیں۔ اس موقع پر ہمیں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر یاد آتے ہیں جنہوں نے وفاقی حکومت کو ’’چک چکا کر‘‘ پنجاب میں گورنر راج لگوا دیا، ان کا خیال بلکہ یقین تھا کہ ادھر پنجاب میں گورنر راج لگا ادھر مسلم لیگ چھوڑنے والوں کی لائن لگ جائے گی۔ سلمان تاثیر مسلم لیگ کو از راہِ تفنن جی ٹی روڈ کی پارٹی کہا کرتے تھے اور ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ وہ لاہور کو لاڑکانہ بناکر چھوڑیں گے، لیکن اجل نے انہیں مہلت نہ دی ورنہ وہ دیکھتے کہ جس لاہور کو وہ لاڑکانہ بنانے نکلے تھے اسی لاہور کے ایک ضمنی انتخاب میں ان کے پارٹی امیدوار کو 1414 ووٹ ملے۔ یہ وہ امیدوار تھے جو جیت کی امید لگائے بیٹھے تھے اور جب حلقے کا نتیجہ آچکا تھا تو وہ سپریم کورٹ میں اپنی درخواست کی پیروی کر رہے تھے جس میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ بیگم کلثوم نواز کے کاغذات مسترد کئے جائیں۔ جب وہ اپنی درخواست کے سلسلے میں عدالت کے روبرو حاضر ہوئے تو فاضل جج نے استفسار کیا کہ اب تو الیکشن بھی ہوچکا، اب بہتر ہے کہ آپ عوام کی رائے کا احترام کریں۔ دراصل فیصل میر نے زیادہ زور مخالف امیدوار کے کاغذات مسترد کرانے پر رکھا لیکن فرض کریں ایسا ہو بھی جاتا تو بھی 1414 ووٹ لینے والے کا منتخب ہونا تو مشکل تھا، ان سے اوپر کئی لوگ اس اعزاز کے مستحق تھے۔ گورنر راج لگوانے کے باوجود سلمان تاثیر کی یہ مہم ناکام ہوگئی اور ہم نے دیکھا کہ ایک خاتون کے سوا کسی ایم پی اے نے مسلم لیگ (ن) کو چھوڑنا پسند نہ کیا اور دو ماہ بعد گورنر راج کی مدت ختم ہوگئی تو شہبازشریف کی حکومت بحال ہوگئی۔ اب اگر مسلم لیگ (ن) میں باغی سو ہیں یا ساٹھ جتنے بھی ہیں انہیں سامنے آنا چاہئے۔ انہیں اگر اپنا نہیں تو سینئر صحافی کی سینیارٹی کا بھرم رکھنے کیلئے ہی یہ کرگزرنا چاہئے، جن کا کہنا ہے کہ یہ رونمائی بہتر (72) گھنٹے میں ہوگی۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو سینئر صحافی کی بات پر کون اعتبار کرے گا؟ ویسے اتنے بندے اگر باغی ہو جائیں تو پھر وزیراعظم کے خلاف نہ تو کسی تحریک چلانے کی ضرورت ہے، نہ استعفا طلب کرنے کی، نہ کسی اور جلی یا خفی سازش کی۔ پھر وزیراعظم کے اپنے منصب پر رہنے کا جواز ہی ختم ہو جاتا ہے، اس موقع پر ہمیں ایک اور سینئر صحافی یاد آتا ہے جس نے نواب امیر محمد خان کے دور میں لاہور کے ایک مظاہرے میں فائرنگ سے مرنے والوں کی غلط تعداد بتا کر اپنا اخبار دو ماہ کیلئے بند کرا دیا تھا، لیکن آج کا دور ایسا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر آپ جو بھی بولتے جائیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی جو زبان ان چینلوں پر بولی جاتی ہے اگر ویسی ہی زبان ان سینئر صحافیوں سے متعلق استعمال کرلی جائے تو وہ ناراض ہوتے ہیں البتہ جو الفاظ وہ مخالفین کے بارے میں استعمال کرتے ہیں ان کا مخاطب جو بھی ہو ان کا انتخاب کرتے ہوئے وہ عالم خیال میں کھوئے ہوتے ہیں اس لئے انہیں علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ گئے اور کس پیرائے میں کہہ گئے، ان کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے۔
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی