ٹیکسلا کا انتخابی معرکہ پنجاب اسمبلی کی ایک نشست پر ضمنی انتخاب ہی تو تھا لیکن اس کی اپنی ایک اہمیت تھی۔ یہاں ”اصل مقابلہ‘‘ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کی دو قد آور شخصیتوں کے درمیان تھا۔ چودھری نثار علی خاں نے مئی2013ء کے عام انتخابات میں اس صوبائی نشست پر بھی قسمت آزمائی کی تھی اور 774ووٹوں کے معمولی مارجن سے شکست خوردہ قرار پائے تھے۔ چودھری نثار علی خاں اور چودھری غلام سرور خاں اس علاقے میں دیرینہ سیاسی حریف ہیں۔ نثار کی میاں نواز شریف سے سیاسی اور ذاتی دوستی کا آغاز1985ء میں ہوا تھا‘ میاں صاحب سے کبھی کبھار ہونے والی شخصی ناراضی اپنی جگہ کہ دوستی کا اپنا مان‘ اپنا پندار ہوتا ہے۔ وہ جو فراز نے کہا تھا ؎
کچھ تو میرے پندارِِ محبت کا بھرم رکھ
تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لیے آ
1985ء سے اب تک ہر طرح کے بُرے بھلے حالات میں چودھری نثار نے میاں صاحب سے عہدِ وفا نبھانے میں کسی کمزوری کا مظاہرہ نہ کیا۔(اگرچہ چھوٹے میاں صاحب سے ان کی دوستی زیادہ ہے) جب جاوید ہاشمی مسلم لیگ (ن) میں تھے‘ چودھری صاحب کی اِن سے اَن بَن کی کہانی الگ ہے۔میجر عامر ایک دن بتا رہے تھے‘2014ء کی دھرنا مہم جوئی کے دوران‘ ایک روز عسکری ادارے کے اعلیٰ افسران میں سے ایک نے ان سے کہا‘ وہ چودھری نثار بھی تو”ان‘‘ سے خوش نہیں۔ میجر عامر کا تُرت جواب تھا‘ گلے شکوے چلتے رہتے ہیں‘ لیکن میاں صاحب پر کوئی آزمائش آئی تو نثار ان کے ساتھ کھڑا ہو گا‘ مصیبت میں انہیں تنہا چھوڑ کر عافیت کی راہ نہیں لے گا۔ یہ اس جاٹ کی فطرت ہی میں نہیں۔
ہم ٹیکسلا کے ضمنی انتخاب کی بات کر رہے تھے۔ PP-7کی یہ نشست چودھری غلام سرور کے بھائی محمد صدیق خاں کی وفات پر خالی ہوئی تھی۔ چودھری غلام سرور مشرف دور میں وفاقی وزیر رہے۔ عمران خان کی مقبولیت نصف النہار کو پہنچی تو قاف لیگ کو الوداع کہہ کر پی ٹی آئی میں چلے آئے۔2013ء کا عام انتخاب پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑا اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ نیچے کی دونوں صوبائی سیٹیں بھی پی ٹی آئی نے جیت لی تھیں۔PP7میں محمد صدیق خاں نے 48440اور چودھری نثار علی خاں نے 47666ووٹ حاصل کئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے کامران علی 14529ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔ جماعت اسلامی نے 1620ووٹ حاصل کئے تھے۔
اب ضمنی انتخاب میں یہاں گھمسان کا رن پڑا۔ عمران خان الیکشن کمشن کی ہدایت کی پروا کئے بغیر یہاں پہنچے اور انتخابی مہم میں بھر پور شرکت کی۔ عمران کے مقابلے میں حمزہ شہباز بروئے کار آتے ہیں۔ انتخابی قواعد و ضوابط کے مطابق کوئی پارلیمنٹرین ضمنی انتخاب میں کسی کی انتخابی مہم نہیں چلا سکتا۔ الیکشن کمشن انہیں متعلقہ قانون کی یاد دہانی کراتا ہے۔ بعد میں قانونی کارروائی کے لیے شوکاز نوٹس بھی جاری کر دیتا ہے۔ یہ مذاق ہر ضمنی انتخاب میں ہوتا ہے۔(اس قانون کا مضحکہ پن اپنی جگہ‘ لیکن جب تک یہ موجود ہے اس کی پابندی تو کی جانی چاہیے۔ یا پھر الیکشن کمشن اس قاعدے اور ضابطے کو فائل کی حد تک رہنے دے‘اس کی یاد دہانی کراکے اور پھر شوکاز نوٹس جاری کر کے مذاق نہ بنائے بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں اپنا مذاق نہ اڑوائے) ضمنی انتخاب میں محمدصدیق خاں مرحوم کا صاحبزادہ عمار فاروق پی ٹی آئی کا امیدوار تھا‘ جس نے مسلم لیگ (ن) کے عمر فاروق کے (51623ووٹوں کے) مقابلے میں 46432ووٹ حاصل کئے اور یوں 5ہزار ووٹوں کی اکثریت سے مسلم لیگ‘پی ٹی آئی کی یہ نشست لے اُڑی۔پیپلز پارٹی نے 2013ء میں 14529ووٹ حاصل کئے تھے۔ اب اس کے ٹکٹ پر کامران اسلم صرف 5619ووٹ حاصل کر پائے۔
ان ہی دنوں چیچہ وطنی سے قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی نشست بھی مسلم لیگ ن نے جیت لی۔ یہ رائے خاندان کی آبائی نشست تھی۔ یہاں 2013ء میں رائے حسن نواز 88004 ووٹ لے کر جیتے تھے۔ تب مسلم لیگ ن نے آزاد امیدوار حاجی ایوب کی حمایت کی تھی جو 75430ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے(تقریباً 13ہزار ووٹوں کا مارجن) پیپلز پارٹی کے چودھری شفیق نے 9585ووٹ حاصل کئے۔اب ضمنی انتخاب میں رائے حسن نواز کے بھتیجے رائے مرتضیٰ نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر 63211جبکہ مسلم لیگ (ن) کے طفیل جٹ نے 76,580ووٹ حاصل کئے۔ تب مسلم لیگ ن کا حمایت یافتہ آزاد امیدوار13 ہزار ووٹوں سے ہارا تھا۔ اب اس کا امیدوار 13ہزار ووٹوں سے جیت گیا (پی ٹی آئی کے ووٹ25 ہزار کم ہو گئے) البتہ پیپلز پارٹی نے گزشتہ کی نسبت اس بار 6ہزار ووٹ زیادہ حاصل کئے۔
انہی ہفتوں میں مسلم لیگ(ن) نے جہلم سے قومی اسمبلی کا الیکشن بھی جیت لیا۔ یہ اس کی اپنی سیٹ تھی۔2013ء میں اس کے امیدوار یہاں دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار سے70ہزار ووٹوںکی لیڈ سے جیتے تھے ‘ اس بار یہ سبقت صرف 7ہزار کی تھی۔ بورے والا میں پنجاب اسمبلی کا ضمنی الیکشن بھی مسلم لیگ ن نے جیت لیا لیکن ہزار‘بارہ سو ووٹوں کی لیڈ سے۔ یہ بھی اس کی اپنی نشست تھی۔زیادہ عرصہ نہیں گزرا‘ جب سپیکر قومی اسمبلی جناب سردار ایاز صادق کو اپنے حلقہ (لاہورNA122) میں ضمنی الیکشن کا معرکہ درپیش تھا۔ سردار صاحب جیت گئے لیکن مقابلہ سخت رہا اور جیت تقریباً2ہزار ووٹوں سے ہوئی۔ اسی حلقے میں اسی روز مسلم لیگ (ن) اپنی صوبائی سیٹ نہ بچا سکی۔ البتہ پیپلز پارٹی یہاں بدترین ہزیمت سے دوچار ہوئی۔ قومی اسمبلی کی نشست پر اس کا پڑھا لکھا‘ مہذب اور معقول امیدوار بیرسٹر عامر حسن شاید ایک ہزار سے بھی کم ووٹ حاصل کر پایا۔1970ء میں لاہور بھٹو کا لاڑکانہ تھا۔ اب یہاں پیپلز پارٹی کی یہ کسمپرسی ‘ عبرت کی جاہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں لاہور میں پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ ووٹ NA124میں حاصل کئے تھے۔ یہاں سات‘ آٹھ ہزار ووٹوں کے ساتھ بیگم اعتزاز احسن اپنی ضمانت بھی نہ بچا پائی تھیں۔
مسلم لیگ ن ضمنی انتخابات جیت رہی ہے‘ اور ”پانامہ‘‘ کے باوجود جیت رہی ہے (اگرچہ لودھراں کے ضمنی انتخاب میں قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی نشست پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین نے جیت لی تھی) لیکن وہ جتنے کم مارجن کے ساتھ جیت رہی ہے، اس پر اسے تشویش ضرور ہونی چاہیے۔ اس مارجنل وکٹری کو اسے 2018ء کے لیے ویک اپ کال کے طور پر لینا چاہیے۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں پگھلتی ہوئی برف کی مانند ہے۔ اس کے Electables، ووٹرز اور سپورٹرز کا رُخ پی ٹی آئی کی طرف ہے۔ بلاول کی جواں سال قیادت ، شاید پنجاب میں کوئی کرشمہ نہ دکھا سکے۔
جناب جسٹس وجیہہ الدین بالآخر پی ٹی آئی سے رخصت ہو گئے۔ وہ ان لوگوں میں تھے جنہوں نے اعلیٰ و بالا تصورات کے ساتھ عمران خان کی رفاقت اختیار کی تھی۔۔۔۔ ابن الوقت ‘ موقع پرست موروثی سیاستدانوں سے نجات‘ سٹیٹس کو کا خاتمہ‘ نئے چہروں کے ساتھ نئی تبدیلی‘ نئی جماعت نئے جذبے۔۔۔۔ اور پھر وہی موروثی‘ ابن الوقت اور موقع پرست، عمران خان کے اردگرد ہو گئے۔ کسی نے سوال کیا‘ تو خان کا جواب تھا‘ کرپٹ معاشرے میں فرشتے کہاں سے لائوں؟
خان نے پی ٹی آئی میں انٹرا پارٹی الیکشن کا ڈول ڈالا اور شکایات کا دبستاں کُھل گیا۔ جسٹس وجیہہ الدین کی زیر قیادت ٹربیونل بنا۔ تحقیقات ہوئیں تو بدترین دھاندلی‘ جعلی ووٹر لسٹوں اور ووٹوں کی خریداری کی ہوش ربا داستانیں سامنے آئیں۔ جسٹس صاحب نے الیکشن کو کالعدم اور چار بڑے مجرموں کو پارٹی سے نکال باہر کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ ان میں دو وہ تھے جنہیں خان کی اے ٹی ایم مشینیں کہا جاتا ہے۔ تیسرے وہ‘ جن کے دم سے کے پی کے حکومت ہے‘ اور چوتھے بھی پارٹی میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ جسٹس صاحب کا فیصلہ قاضی کا فتویٰ بن کر رہ گیا تھا۔ بالآخر انہوں نے اپنا پاندان اٹھایا اور گھر کی راہ لی۔ اب انہوں نے نئی جماعت بنانے کا اعلان کیا ہے۔ خان نے اس پر ”اوئے‘‘ ‘ ”توئے‘‘ کی بجائے ‘ خلافِ توقع اور خلافِ عادت معقول رویہ اختیار کیا‘ جسٹس صاحب کی مجوزہ سیاسی جماعت کا خیر مقدم۔ لیکن جناب جسٹس کو ہمارا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ وہ نئی سیاسی جماعت بنانے کا خیال ذہن سے نکال دیں ع
بستی بسنا کھیل نہیں ہے، بستے بستے بستی ہے
سیاسی جماعتیں بنانا بھی کھیل نہیں۔ جنرل اسلم بیگ نے بھی ایک جماعت بنائی تھی۔ آج اس کا نام شاید انہیں بھی یاد نہ ہو۔ اللہ مغفرت کرے‘ ہمارے جنرل حمید گل نے بھی ایک تحریک کی بنیاد رکھی‘ کیا عبداللہ گل کو اس کا نام یاد ہے؟ محسنِ پاکستان ڈاکٹر قدیر نے بھی اپنی سیاسی جماعت بنانے کی ٹھانی تھی۔ ایٹم بم بنانے والے سائنسدان سے لیکن یہ بھاری پتھر اٹھایا نہ گیا اور تازہ المیہ یا لطیفہ، عالی مرتبت چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری کی جماعت، ولادت کے بعد طفولیت کا آغاز بھی نہیں ہوا کہ سانس اکھڑ رہی ہے تو سادہ دل جسٹس وجیہہ الدین کے لیے اس میں عبرت کا خاصا سامان ہے۔