اتوارکو ملک بھر میں جلسوں کی بھرماررہی،خیبر سے لے کر کراچی تک احتساب،احتساب کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ایف نائن اسلام آباد کے فاطمہ جنا ح پارک میں عمران خان تحریک انصاف کے 20 ویں یوم تاسیس پر میاں صاحب کو تڑی لگا رہے تھے کہ اب آپ کو جانا پڑے گا۔لاہور میں شاہراہ قائداعظم پرجماعت اسلامی کے امیر سراج الحق علامتی دھرنا دے کر یکم مئی سے کرپشن کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کا عندیہ دے رہے تھے اور کراچی کے جناح پارک کے گراؤنڈ میں نئی پنیری ‘پاک سرزمین‘ کے سربراہ مصطفی کمال باقاعدہ طور پر اپنی رونمائی کر رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ محض فوجی آپریشن سے مسائل حل نہیں ہوںگے۔دوسری طرف میاں نواز شریف بھی عوامی رابطہ مہم کا آغاز کر چکے ہیں۔ ان میںہر کوئی علامہ اقبال اور قائداعظم کی مالا جپ رہا ہے لیکن بانیان پاکستان کے پیغام سے یہ اتنی ہی دور ہے جتنے تواتر سے یہ ان کے افکار کا ذکر کرتے ہیں۔بظاہر عمران خان ،سراج الحق اور برخوردار بلاول بھٹو زرداری کی تحریک پاناما لیکس میں نواز شریف کے اہل خانہ کے نام آنے سے ان کے احتساب کے حوالے سے ہے لیکن اصل مقصد میاں صاحب کی چھٹی کرانا ہے۔عمران خان نے جو اب ایک منجھے ہوئے مقرر بن چکے ہیں، جلسے میں اپنی پارٹی کی جدو جہد کی تاریخ دہرانے کے علاوہ میاں نواز شریف کو برا بھلا اور کرپٹ کہنے پر زیادہ زور صرف کیا۔عمران خان کی باتیں سن کر لگتا ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنانے کی بھلا ضرورت ہی کیا ہے؟ خان صاحب تو منصف بھی ہیں اور جیوری بھی ،وہ تو اپنا فیصلہ صادر کر چکے ہیں کہ میاں صاحب کی چھٹی ہوگی۔اگر کمیشن کے لاء یعنی ٹرمز آف ریفرنس ان کی مرضی کے بن بھی جائیں پھر بھی فیصلہ ان کے ڈھب کے مطابق نہ آیا تو وہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے بننے والے کمیشن کے فیصلے کو دل سے تسلیم نہ کرنے کی طرح ‘میں نہ مانوں ‘کی رٹ لگائے رکھیں گے۔خان صاحب نے کمیشن کی تشکیل کا انتظار کرنے کے بجائے اگلے اتوار کو لاہور میں چیئرنگ کراس شاہراہ قائداعظم پر اپنی منڈلی سجانے کا اعلان کر دیا ہے۔جہاں تک سراج الحق کا تعلق ہے، اگرچہ خیبر پختونخوا میں ان کا خان صاحب سے اتحاد ہے، اس کے باوجود وہ اپنی ڈیڑھ انچ کی علیحدہ مسجد سجائے رکھنے کے عادی ہیں۔اگلے روز سراج الحق نے فرمایا کہ لبرل حضرات کی پاکستان
میں کوئی گنجائش نہیں ہے،گویا انہوں نے مشورہ دیا کہ وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔وہ شاید یہ بھول گئے کہ بانی جماعت اسلامی سید ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم تو ویسے ہی تصور پاکستان کے خلاف تھے کیونکہ ان کے نزدیک قائد اعظم سمیت پاکستان بنانے والے رہنما اسلام سے ہی نابلد تھے۔یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ اب مولانا مودودی کے ہمسفر خود کو اتنا طاقتور سمجھتے ہیں کہ وہ یہ فیصلہ کریں گے کہ پاکستان میں کون رہ سکتا ہے اور کون نہیں۔
اس سارے قضیے میں جس سے سیاسی ٹمپریچر بہت اوپر کی طرف جا چکا ہے، سب سے مظلوم پاکستان کی پارلیمنٹ ہے ۔سب کچھ اس کے باہر ہو رہا ہے۔نہ ہی وزیر اعظم اور نہ ہی اپوزیشن پارلیمنٹ کو ایسا فورم تصور کرتے ہیں جہاں بیٹھ کر قانون سازی کی جائے اور ملک کو درپیش اہم مسائل پر بحث وتمحیص کے بعد اتفاق رائے کی سعی کی جائے۔وزیر اعظم کو تو سب سے پہلے اپنی کابینہ ،پارلیمانی پارٹی اور پارلیمانی فورمز کو فیصلے کرنے اور دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے استعمال کرنا چاہیے، لیکن نجانے کیوں وہ بھی جلسے کرنے کی راہ پر چل نکلے ہیں۔یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ اپوزیشن کی کیا گیم ہے لیکن میاں صاحب کو موجودہ گرم ماحول کو مزید گرم کرنے سے کیا فائدہ ہو گا۔دوسری طرف بعض سیاستدانوں کے علاوہ میڈیا میں بھی مخصوص لابی عطار کے لونڈے سے ہی دوا مانگنے کے لئے بے تاب نظر آتی ہے۔یہ لوگ ہر طریقے سے سیاستدانوں اور جمہوری نظام کو’ ڈس کریڈٹ‘ کرنے اور اور بوٹوں کی چاپ سننے کے لئے ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔یہ درست ہے کہ جنرل راحیل شریف نے بطور آرمی چیف ایک مثالی کردار ادا کیا ہے اور اپنے بعض جرنیلوں کا ٹوکن احتساب کر کے مثال بھی قائم کر دی،لیکن فوجی قیادت نے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کسی خواہش یا ارادے کا کوئی اشارہ بھی نہیں دیا۔یہاں معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ پاکستان میں فوجی ادوار کی تاریخ اتنی درخشاں نہیں ہے۔ہر فوجی آمر نے جمہوری نظام کو اپنے بوٹوں تلے روندا اور جاتے ہوئے وہ وطن عزیز کو نظریاتی،سماجی اور اقتصادی طور پر پہلے سے زیادہ دیوالیہ کر کے گیا۔ان نام نہاد مسیحاؤں نے کرپشن کے خاتمے کے نام پر ہی سیاسی اقتدار پر شب خون مارا اور پھر انہی کرپٹ سیاستدانوں کے ذریعے جن کا احتساب کرنے کے لئے اقتدار پر قابض ہوئے تھے کو ساتھ ملا کر دھڑلے سے حکومت کی۔یہاں سیاستدانوں کی کرپشن کی بہت بات کی جاتی ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ اکثر سیاستدانوں نے ایمانداری،ذمہ داری اور مفادات کے ٹکراؤ کے بارے میں کوئی درخشاں مثال نہیں چھوڑی، لیکن غور کیا جائے کہ وسیع پیمانے پر سیاسی کرپشن کا آغاز ایوب خان کے دور سے ہوا اور اس کی انتہا ضیاء الحق کی اسلامی ڈکٹیٹر شپ کے دور میں ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی وزارت عظمیٰ تک شاذ ہی کوئی سیاستدان صنعتکار ہوتا تھا، لیکن بعد ازاں کلیرنس سیل لگ گئی۔
حکومت کی اشیرباد اور سرکاری بینکوں سے قرضے لے کر شوگر اور ٹیکسٹائل ملیں لگانا اور پراپرٹی کا وسیع پیمانے پر کاروبار کرنا گویا سیاست کا لازمی جزو بن گیا ،اب تو یہ حال ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے برملا طور پر کہتے ہیں کہ مال بنائے بغیر سیاست کیسے ہو سکتی ہے۔ہمارے منتخب نمائندوں کا آئیڈیل جمہوری نظام کو فروغ دینا اور قانون سازی کرنا نہیں بلکہ ارب پتی ہونا ہو گیا ہے۔تاہم یہ رجحان جو آمرانہ ادوار کی پیداوار ہے کی بیخ کنی فوج نہیں کر سکی۔فوج کو بھی غالباً اس تلخ حقیقت کا ادراک ہے، اسی بنا پر گزشتہ آٹھ برس سے ‘کیانی ڈاکٹرائن‘ پر ہی عمل کیا جا رہا ہے، اس کا مقصد یہ لگتا ہے کہ سیاسی حکومت کو اتنا کمزور کر دو کہ مروجہ جمہوری اورسویلین اداروں کا فوج پر کنٹرول ہونے کا اصول محض اصول کی حد تک ہی رہ جائے۔اب صورت حال یہ ہے کہ خارجہ پالیسی اور اندرونی و بیرونی سکیورٹی پالیسی میں فوج کو ویٹو پاور حاصل ہے۔آئندہ کسی آمر کو’ میرے عزیز ہم وطنو‘ پر مشتمل خطاب کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس صورت حال کے لئے محض عسکری اداروںکو ہی ذمہ دار نہیں ٹھہرایاجاسکتا۔ ہمارے زیادہ ترسیاستدانوں نے اخلاقیات،شفافیت اور گڈ گورننس کی کوئی ارفع مثال قائم نہیں کی گویا: ”کج شہر دے لوگ وی ظالم سن کج سانوں مرن دا شوق وی سی‘‘۔