مظلوم کشمیریوں کی فتح…خورشید ندیم
بالآخر عالمی ضمیر پر چوٹ پڑی اوروہ اُس ظلم پر بول اٹھاجس کا بازار مقبوضہ کشمیر میں سالوں سے گرم ہے۔ ان دو سالوں میں ایسا کیا ہوا کہ اقوام ِمتحدہ کو پہلی بار کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایک رپورٹ جاری کر نا پڑی؟یہ کیسے ہوا کہ اقوام ِ متحدہ نے ایک بار پھر اہلِ کشمیرکے حقِ خود ارادیت کے لیے آواز آٹھائی؟
یہ اہلِ کشمیر کی مظلومیت اور بھارت کے ریاستی جبر کا ردِ عمل ہے۔گزشتہ دو سال سے مقبوضہ کشمیر کے عوام غیر مسلح جد وجہد کر رہے ہیں۔اس دوران میں کوئی ایسی معتبر شہادت سامنے نہیں آئی کہ اہلِ کشمیر کسی تشدد میں ملوث ہیں یا ان پر کسی دوسرے ملک کا ہاتھ ہے۔اکا دکا واقعات ہو سکتے ہیں مگر فی الجملہ ،ان دوسالوں میں کشمیرکے لوگ یک طرفہ طور پربھارتی ریاست کے تشدد کا نشانہ بنے۔آٹھ سالہ مسلمان بچی کی بے حرمتی تو گویااس ظلم کا نقطۂ عروج تھا۔اس پر ارون دتی رائے جیسے بہت سے بھارتی شہریوں نے آواز اٹھائی جو کشمیری نہیں تھے اور جن کا اس تحریکِ آزادی سے کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا۔
دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بھارتی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے نوجوان مرتے ہیں اور کرفیو کے باوجود ان کے جنازوں میں ہزاروں افراد شریک ہوتے ہیں۔یہ سب عام لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس ہتھیار تو دور کی بات،کنکر تک نہیں ہوتے۔یہ جنازے بھی ریاستی جبر سے محفوظ نہیں رہ سکے۔یہی نہیں عید اور جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی لگ گئی جو مسلمہ مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔سکول اور کالج کی بچیاں یونی فارم پہنے اور بستے اٹھائے ظلم کے خلاف سراپا احتجاج تھیں۔اس دوران میں نوجوانوں کو اندھا کرنے والے ہتھیاراستعمال ہوئے۔یہ سب کچھ دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
بھارتی مظالم کا یہ سلسلہ نیا نہیں۔یہ ستر برس سے جا ری ہے؟سوال یہ ہے کہ اس سے پہلے اقوام ِ متحدہ کی رپورٹ کیوں نہیں آئی؟ان دوسالوں میں ایسا کیا ہوا کہ عالمی ضمیر چیخ اٹھا؟اس کی وجہ کشمیریوں کی مظلومیت،ان کی غیر مسلح جد وجہد اور تشدد سے گریز ہے۔اس دوران میںکشمیر میں یک طرفہ تشدد کا معاملہ رہا۔ساری دنیا دیکھ رہی تھی کہ نہتے اور عام شہریوں ،طالب علموں اور بچوں پر تشدد روا رکھا جا رہا ہے۔یہ مظلومیت کی طاقت تھی جس نے دنیا کو چیخنے پر مجبور کرد یا۔
اتنے سال کس بات نے دنیا کی زبان بندی کیے رکھی؟اس کا ایک لفظی جواب ہے:جوابی تشدد۔ہم سب جانتے ہیں کہ 1989 ء کے بعد کشمیر کی تحریکِ آزادی پر مسلح تنظیموں کا غلبہ ہو گیا۔ہم نے بھی نادان دوستی کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان کی مذہبی جماعتیں ملک بھر میں جہادِ کشمیر کا علم اٹھائے گھوم رہی تھیں۔کشمیرمیں مسلح جد وجہد کرنے والوں کو یہاں ہیرو بناکر پیش کیا جا رہا تھا۔مست گل جیسوں کے جلوس نکالے جا رہے تھے۔اس سے بھارت کو دو باتیں کہنے کا موقع ملا۔ایک یہ کہ مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی ہو رہی ہے۔دوسرا یہ کہ کشمیر کی تحریکِ آزادی مقامی نہیں ہے۔یہ غیر ملکی ہے۔ظاہر ہے کہ اس کا اشارہ پاکستان کی طرف تھا۔عالمی سطح پر یہ دونوں باتیں ناقابلِ قبول تھیں۔
پاکستان ریاستی سطح پر اس سے انکار کر تا رہا مگرہماری مذہبی جماعتیں زبانِ حال سے ریاست کے موقف کو غلط ثابت کرتی رہیں۔اس کی وجہ سے بھارت اس میں کامیاب رہا کہ مقبوضہ کشمیر کی تحریکِ آزادی کے گردشکوک کا جال بُن دے۔ہم خود ایسے شواہد فراہم کرتے رہے جنہیں بھارت دنیا کے سامنے اپنے موقف کے حق میں پیش کر تا رہا۔یوں دنیا متردد رہی کہ وہ تشدد پر مبنی کسی تحریک کا کس طرح دفاع کرے یا اس کے حق میں کیوں آواز اٹھائے۔
میں طویل عرصے سے تواتر کے ساتھ یہ لکھ رہا ہوں کہ کشمیر کے لوگوں کو اپنی آزادی کی جنگ غیر مسلح اورسیاسی طریقے سے لڑنی چاہیے۔اس میںایک تو ان کا جانی ومالی نقصان کم ہو گا اور دوسرایہ کہ ان کی مظلومیت خود ان کے حق میں ایک بڑی دلیل بن جا ئے گی۔ انقلاب کا دور اب گزر چکا جب چی گویرا جیسے لوگ ہیرو ہوا کرتے تھے۔دنیا اب جمہوری عہد میں زندہ ہے۔اب چی گویرا یا کاسترو جیسے لیڈروں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔اب وہی جد وجہد کامیاب ہوگی جو جمہوری اور سیاسی طریقے سے کی جائے گی ۔اس بات کوجدید مسلم تاریخ میں اگر کسی نے سمجھا تو وہ قائد اعظم تھے۔
دو سال پہلے،مقبوضہ کشمیر کے عوام اور ان کے ہمدردوں کو یہ بات سمجھ میں آنے لگی۔انہوں نے اپنا مقدمہ سیاسی طور پر پیش کیا۔یہ انسانی حقوق کا مقدمہ تھا۔حق خود ارادیت ،ایک قوم کا بنیادی حق ہے۔اقوامِ متحدہ اپنے چارٹر میں اسے تسلیم کر تا ہے۔کشمیر کے باب میں بطور ِ خاص،اقوام ِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں جو اہلِ کشمیر کا یہ حق تسلیم کرتی ہیں۔کشمیر کے لوگوں کا یہ مسلمہ اخلاقی اورسیاسی حق ہے کہ وہ اس کے لیے سیاسی اور پرامن طریقے سے جدو جہد کریں۔ کسی قانون کے تحت انہیں اس سے روکانہیں جا سکتا۔صرف کشمیر ہی نہیں، دنیا کے کسی خطے میں اگر کوئی قوم آزادی کا فیصلہ کر لے تو اسے غلام نہیں رکھاجا سکتا۔تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے خود کو زبانِ حال سے قوم ثابت کردے۔علاقہ، نسل،مذہب،سمیت کوئی تصور بھی قومیت کی اساس بن سکتا ہے۔قومیت وہ اجتماعی احساس ہے جو انسانوں کی کسی جماعت میں سرایت کر جائے۔
گزشتہ دوسال کشمیریوں نے مظلومانہ جد وجہد کی۔اس دوران میں بھارت دنیا کو یہ باور نہیں کرا سکا کہ یہ کوئی متشدد تحریک ہے یا اسے کوئی غیرملکی نصرت حاصل ہے۔اس کے بعد عالمی ضمیر کے لیے ممکن نہیں رہاکہ اتنے وسیع پیمانے پر ہونے والی انسانی حقوق کی اس پامالی کو نظر انداز کر سکے۔انسانی حقوق پراقوام ِ متحدہ کی یہ رپورٹ کشمیریوں کی مظلومیت کی ایک بڑی فتح ہے۔
اب بھارت کی ایک بار پھر کوشش ہے کہ اس تحریکِ آزادی کو عالمی دہشت گرد نیٹ ورک کا حصہ ثابت کرے۔داعش کو اس تحریک سے جوڑے۔مقبوضہ کشمیر کے باخبر صحافی افتخار گیلانی صاحب اُس بریفنگ کی روداد لکھ چکے جس کا اہتمام بھارت کی وزارت ِاطلاعات نے کیا اور جس میں بھارتی وزیراہلِ صحافت کو یہ باور کراتے رہے کہ کشمیرکی آزادی کی بات کرنے والے داعش کا حصہ ہیں۔گیلانی صاحب کا کالم ایک پاکستانی اخبار میں بھی شائع ہو تا ہے۔گیلانی صاحب نے اپنے تجزیے میں بتایا ہے کہ کس طرح ایک سیاسی اور انسانی حقوق کی پامالی کے مقدمے کو بھارت عالمی دہشت گردی کی توسیع ثابت کرنا چاہتاہے۔
کشمیریوں کو آج اُن نادان دوستوں سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے جو اب مقبوضہ کشمیر میں بھی خلافت کا جھنڈا لہرانا چاہتے ہیں۔ یہ نادانستگی میں دنیا کو شواہد فراہم کر رہے ہیں کہ کشمیر میں جاری تحریک مقامی نہیں، عالمگیر تحریک خلافت کا حصہ ہے جس کا عَلم ظاہر ہے کہ داعش نے تھام رکھا ہے۔وہ دنیا کو باور کرارہے ہیں کہ بھارت بھی اب شام بننے والا ہے۔یہ وہی غلطی ہے جو 1990ء کی دھائی میں ہماری مذہبی جماعتوں نے کی اور تحریکِ آزادیٔ کشمیر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
کشمیر کا مقدمہ انسانی حقوق کی پامالی کا مقدمہ ہے۔کشمیری اپناموقف اگرسیاسی اور پرامن طریقے سے پیش کریں گے تو اس کی شنوائی ہوگی۔اس راہ میں بھی مشکلات ہیں لیکن جان ومال کے ضیاع کا اندیشہ کم ہے۔بلا ضرورت جان دینا بہادری نہیں ہوتی۔بہادری یہ ہے کہ کم سے کم جانی نقصان کے ساتھ کوئی معرکہ سر کیا جائے۔کشمیریوں کی تین نسلیں برباد ہوگئیں۔انہیں اب کسی نئے عذاب میں ڈالنا ان کے ساتھ کوئی دوستی نہیں۔انہیں عالمی دہشت گرد نیٹ ورک کا حصہ ثابت کرنا بھارت کے ہاتھ میں ہتھیار دینا ہے۔ یہ ہتھیار ہمیں معلوم ہے کہ کس کے خلاف استعمال ہو گا۔اللہ تعالیٰ اہلِ کشمیر کو ظلم اور نادان دوستی، دونوں سے محفوظ رکھے۔