مظہر کلیم؛ او کیپٹن‘ مائے کیپٹن!….حسنین جمال
ٹارزن ایک لیجنڈ ہے، لافانی کردار ہے۔ عمرو عیار ہم لوگوں کے بچپن کا یادگار کیریکٹر ہے۔ شیخ چلی کا نام طنز و مزاح سے جڑا ہوا ہے، رابن ہڈ اور حاتم طائی کی سخاوت پر بے شمار کہانیاں پڑھی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح کئی اور مشہور افسانوی کردار ہیں جو اپنی جگہ امر ہو چکے ہیں۔ ان پر لکھنے کے لیے کوئی یہ نہیں ڈھونڈتا پھرتا کہ یار اصل میں سب سے پہلے ان پر کس نے لکھا تھا اور اب اگر ہم لکھیں گے تو کہیں لوگ ایسا تو نہیں سمجھیں گے کہ ہم نے پہلے والوں کی نقل کی ہے۔ یہ سب کردار بچوں کی کہانیوں میں ایسے فٹ ہو چکے ہیں کہ بس نام پڑھنے کی دیر ہوتی ہے، کہانی کسی نے بھی لکھی ہو، جو فین بچہ ہے وہ ایک بار ضرور پڑھے گا کہ لکھا کیا ہے۔ یہی معاملہ عمران سیریز کا تھا۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے ابن صفی کی عمران سیریز بہت بعد میں اور بہت کم پڑھی۔ تھی ویسے یہ بچپن کی لت، سن نوے اکانوے ہو گا اس وقت، ان دنوں ملتان کی ایک روپے والی لائبریریاں چلتی ہی عمران سیریز پہ تھیں۔ شاید میٹرک (1996) کے دنوں میں فقیر کلیم کر سکتا تھا کہ تب تک مظہر کلیم کی جتنی عمران سیریز آئی تھیں اس نے سب کی سب پڑھ رکھی تھیں۔ کیا نشہ تھا بھئی! اصل میں ابا اماں نے روکا نہیں تھا اور بھائی کبھی رکنے والا تھا بھی نہیں۔ اب چاہے سالانہ امتحان ہوتے یا کوئی ٹیسٹ وغیرہ آ جاتا، عمران سیریز کا نیا ناول اگر راستہ کاٹ گیا تو مجال ہے کسی پیپر شیپر کی تیاری کی جائی۔
پاکیشیا کلب، زاراک، بلیک تھنڈر، عمران کی موت، زیرو بلاسٹر، ٹاپ وکٹری، بلڈ ہاؤنڈز اور پتہ نہیں کتنے نام دماغ میں گھوم گئے جب معلوم ہوا کہ مظہر کلیم ایم اے گزر گئے۔ میں بہت ٹھنڈا قسم کا ریڈر تھا۔ باوجود ان کی لکھی پوری عمران سیریز ہضم کرنے کے، اور ملتان میں رہتے رہنے کے، اور ان کی وہ نیلی پراسرار تصویر دیکھنے کے، کبھی یہ کوشش نہیں کی کہ جاؤں اور ان سے مل کے آؤں۔ ایک تصویر ان کی میرے ذہن میں بس یہ بنتی تھی کہ کسی گلی میں چار پانچ سیڑھیاں چڑھ کے چار ضرب چار کا ایک چبوترہ یا تھڑا سا ہو گا، الٹے ہاتھ ان کی بیٹھک کا بیرونی دروازہ ہو گا اور وہ باہر اسی چبوترے پہ چھوٹی سی کرسی میز لگائے فل اسکیپ پیپر پہ نیلی روشنائی سے لکھتے رہتے ہوں گے اور بس ہر وقت یہی کرتے ہوں گے۔ جس رفتار سے ان کے ناول آتے تھے میں اس کے علاوہ ان کی کوئی شکل نہیں بنا سکا۔ وہ کھانا شانا کب کھاتے ہوں گے یہ حساب لگانا بھی اپنے لیے مشکل تھا۔ اس لیے اس کا بھی نقش دماغ میں نہیں بنا۔ اب یہ جو ایک سین ذہن میں بنا ہوا تھا اس پر میں اتنا مطمئن تھا کہ کبھی سوچا ہی نہیں کہ یار اصل میں کیا نقشہ ہے؟ وہ تو جا کے بندہ کم از کم چیک کرے۔ الحمدللہ اب تک نہیں معلوم کہ وہ کہاں رہتے تھے، کیسے لگتے تھے، بات چیت کیسی کرتے تھے لیکن کوئی حسرت نہیں، اپنا والا مظہر کلیم ایم اے اسی نیلی پراسرار تصویر کے ساتھ اپنے لیے زندہ ہے اور جاوید بھی ہے۔
زندگی کے تین شوق آج تک باقی ہیں، سفرنامے پڑھنا، پرانی اینٹیک گاڑیوں کی ٹھرک اور مہ جبینوں کے قصے، یہ تینوں خواریاں ان کی عمران سیریز میں بخوبی کاٹی جا سکتی تھیں۔ جوزف اور جوانا شراب کے نشے میں دھت باہر ملک کی یہ بڑی بڑی سڑکوں پہ اپنی ڈاج، فیٹ، امپالا، شیورلے اور پتہ نہیں کون کون سی کاریں اندھا دھند چلاتے تھے۔ کبھی سالم گاڑی کسی کلب کے دروازے میں بجا دی، کبھی راہ چلتے دو تین بندے بمپر سے اٹھا دئیے، کبھی رانگ وے پہ گاڑی چلاتے ہوئے منزل مقصود تک باآسانی پہنچ گئے، مطلب جو کچھ ایک بہترین ایکشن مووی اس زمانے میں دکھا پاتی تھی مظہر کلیم اس سے دو آتھ آگے ہوتے تھے۔ بار، پب یا کلب جیسے ان کے ناولوں میں پڑھ کے دیکھنے کا شوق ہوا تھا بالکل ویسے کے ویسے بعد میں وقت نے دکھائے۔ ملتان کے کسی گلی محلے میں بیٹھ کے جو نقشہ ولایت کا وہ کھینچتے تھے یقین کریں اس نے ایسا عادی مجرم بنایا کہ جہاں مرضی خدا لے گیا، جو بڑے سے بڑا عجوبہ دیکھ لیا کبھی ٹکے کی حیرت نہیں ہوئی، کوئی اچنبھا نہیں ہوا۔ بچپن سے بھائی اپنا دماغ، مظہر کلیم جو تھے، وہ رئیس ابن رئیس قسم کا بنا چکے تھے۔ موبائل فون، گھڑی پہ فون ریسیو کرنا، گاڑی کا اڑ جانا، سمندر کی تہہ میں اتر جانا، کسی جاسوس کا اپنے دانت کے اندر موجود سائنائیڈ والا کیپسول چبا کے پھڑک جانا، پین سے گولی مارنا، گردن میں زہر بھری سوئی چبھو کے بندہ بے ہوش کر دینا، یہ ڈرون شرون، یہ سب ایویں بچوں کے کھیل لگتے ہیں۔ اس بندے نے ہماری امیجری (تصور کی قوت) ایسی ڈویلپ کر دی کہ ابھی وہ جو روسی جاسوس اور اس کی بیٹی پہ برطانیہ میں حملہ ہوا تھا، اس وقت بھی فقیر یہی سوچ رہا تھا کہ یار بیس سال گزر گئے روس والوں نے اب تک مظہر کلیم والے طریقے ہی پکڑے ہوئے ہیں۔ پھر وہ جو ہوتا ہے ایک ٹی وی شو، بگ باس، اس میں جو بگ باس کی آواز آتی ہے، جب بھی وہ شو دیکھنے بیٹھوں تو ایکسٹو یاد آ جاتا ہے۔ اور آپ لاکھ انگریزی میں X2 لکھتے رہیں، جس نے مظہر کلیم پڑھا ہے وہ دماغ میں صرف ”ایکسٹو‘‘ ہی لکھا ہوا دیکھے گا اور یہ واقعی پھر کمال کی بات ہے!
مجھے کرنل فریدی نہیں پسند تھا۔ اپنا ہیرو عمران تھا، اس کا باورچی سلیمان تھا، ٹائیگر تھا، وہ سوپر والا فیاض تھا اور تھوڑا سا تنویر بھی اچھا لگتا تھا۔ جولیا تو بھائی کی زندگی کا دوسرا کرش تھی (پہلا چھڈ دیو، فیر کدی سہی)۔ باقی وہ نعمانی، چوہان، خاور یا صدیقی والے چیپٹر تو ایویں پلاٹ کی مجبوری کے چکر میں پڑھے جاتے تھے، اصل رنگ عمران والی کلوز کیبنیٹ کا ہی جمتا تھا۔ سر داور، سر سلطان، سر رحمان، ان کی بھی تصویریں حافظے میں بنی ہوئی تھیں، جیسے ٹی وی اداکار رضوان واسطی نما سر رحمان ہوں گے، سر سلطان کی پرسنیلیٹی اداکار قوی خان جیسی بنے گی اور سر داور کے لیے جناب عرفان کھوسٹ کو زحمت دی جا سکتی ہے۔
فقیر خدا کو حاضر ناظر جان کے سچ کہتا ہے اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہتا کہ اسے سکول کالج والی کتابیں کچھ نہیں سکھا پائیں۔ فیثا غورث کا تھیورم، پروبیبلیٹی کے امکانات، الجبرے کے منحوس فارمولے، کیمسٹری کی ایکویشنیں، فزکس کا لا آف انرشیا۔ آج تک ان میں سے کچھ کام نہیں آیا، ہاں جو کچھ عمران سیریز یا سب رنگ میں یا باقی غیر نصابی کتابوں میں پڑھا تھا وہ اب ہوتے ہوئے نظر آتا ہے تو حیرت نہیں ہوتی۔ ایکریمیا اور پاکیشیا کے تعلقات، دنیا کے دور دراز صحرا اور وہاں کی زندگی، سمندروں کے اندر آبدوزوں کی جنگیں، عجیب و غریب سائنسی پلاٹس، عمران کا دنیا کے ہر موضوع پہ گفتگو کرنا اور کبھی چول نہ مارنا، مطلب یار حد ہے۔ کون اتنا لکھ سکتا ہے اور کون مسلسل ایک ہی معیار کا لکھ سکتا ہے اور کون بڑھاپے کی سرحدوں پہ ہوتے ہوئے بھی ناول میں نصیحتیں اور اصلاحی چکر نہیں گھسیڑتا؟ یہ مظہر کلیم ہی تھے استاد‘ نہیں تو بڑے بڑے لکھنے والے بعد میں ”بچوں کی ذہنی نشوونما‘‘ کے چکر میں پڑ کے برباد ہو گئے۔ جاسوسی ناول صرف تفریح کے لیے پڑھا جاتا ہے اس میں دعوت فکر گھولیں گے تو پھر کیا ہو؟ پڑھنے والے کو دو لائنوں میں سمجھ آ جاتا ہے کہ لو بھئی بابا جی گئے کام سے۔ تو اپنے بابا جی فل ٹائم کام پہ تھے، جیو مرشد مظہر کلیم، جگ جگ جیو، مولا خوش رکھے، گور پیا کوئی ہور!
چلتے چلتے یاد آ گیا، اماں بی بی بہت فین تھیں ابن صفی کی، وہ کہتی تھیں کہ حسنین اگر تم ان کی ناولیں پڑھ لو تو تمہیں مظہر کلیم بھول جائیں گے لیکن ان دنوں حسنین بی بی کے پاس پشاور میں گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے گیا تھا اور گلبہار کے آس پاس دور دور تک ابن صفی کا ایک بھی ناول نہیں مل سکا تھا۔ کوئی شک نہیں کہ وہ استاد کامل تھے لیکن یار اپنے مظہر کلیم نے بھی کوئی قصور تو نہیں کیا تھا۔ ابن صفی کے چراغ سے ہی آگے چراغ جلائے رہے ورنہ میری نسل کو کیا پتہ ہوتا کہ عمران سیریز کس چڑیا کا نام ہے؟ فلمیں وغیرہ بھی مانا کہ دماغ کا کینوس وسیع کرتی ہیں لیکن ان دنوں کرائے پہ وی سی آر لانے کی نسبت ایک روپے میں ایک دن کو ایک ناول زیادہ سستا پڑتا تھا تو بس لے دے کے گرمیوں کی تپتی دوپہریں مظہر کلیم ایم اے کے آسرے پہ گزرتی تھیں۔ او کیپٹن مائے کیپٹن، آر فیئر فل ٹرپ از ڈن