یقینا پاکستان کے لیے یہ امر با عث امتیاز ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ اسحق ڈار کو2016ء کا جنو بی ایشیا کا بہترین وزیر خزا نہ ہو نے کا اعزاز مل گیا ہے اور اسی روز ہمارے گورنر سٹیٹ بینک اشرف وتھراکو بھی ان کی ما لیا تی پالیسیوں کے اعترا ف میں 2016ء کا بہتر ین سنٹرل بینک گورنر قرار دیا گیا ہے اور اتفا ق سے دونوں ایوارڈوں کا اعلان اسی روز ہوا جب وزیراعظم میاں نواز شر یف نے گورنر ہا ؤس لاہو ر میں ملک کی اقتصادی صورتحا ل میں بہتری کے راستے تلاش کرنے کے لیے سر کا ری اہلکا روں، اقتصادی ماہر ین ،صنعت کاروں اور بینک کاروں کا اجلاس طلب کر رکھا تھا۔
اگرمحتر م اسحق ڈار اور اشر ف وتھراکو ملنے والے اعزازا ت کے تنا ظر میں دیکھا جا ئے تو پھراس اجلاس کی ضرورت ہی کیاتھی بلکہ میاں صاحب کو تو اپنی اقتصادی ٹیم اور گو رنر سٹیٹ بینک کی پیٹھ ٹھو نکنے کے لیے انعام وکرام سے نوازنا چاہیے تھا ۔ لیکن شایدمیا ں صاحب کو اپنی حکومت کے 3سال گزرنے کے بعد کچھ نہ کچھ احسا س ہو تا جارہاہے کہ اقتصادی محا ذ پر سب اچھا نہیں ہے ۔ جادوو ہ ہو تا ہے جو سر چڑ ھ کر بولے اور میاں صاحب سمیت اقتصادی ماہر ین اور قوم یہ کہے کہ پاکستانی معیشت دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے ۔ دراصل ایسے ایوارڈ ‘یو رو منی‘ جس نے وتھراصاحب کو ایوارڈ دیا اور ‘ایمر جنگ مارکیٹ‘ جیسے اخبار دیتے ہی رہتے ہیں، تقریباًبا لکل اسی طر ح جیسے بین الاقوامی طور پر جاری کر دہ کتاب Who is Whoمیں کو ئی بھی شخص اپنا نام شامل کر اسکتا ہے۔ شنید یہ ہے کہ ہفتہ کو ہو نے والے اجلاس کے محر ک میاں شہبا ز شریف تھے جو ایسے معاملا ت پر نظر غا ئر رکھنے کی بنا پر ملک کی اصل اقتصادی صورتحال سے بخوبی واقف ہیں۔ اگر حکومتی عینک سے ہی دیکھا جائے تو سب ہر اہی نظر آتا ہے ۔یعنی اگر گلاس کو آدھا بھرا ہوا دیکھا جائے تو بلا شبہ پاکستان کے زرمبا دلہ کے ذخائر ریکارڈ سطح پر ہیں ۔ افراط زر کی شر ح کم ترین ہے لیکن کسی حد تک بہتر ی کی صورتحا ل ہے تو وہ دیکھنا پڑے گا کہ بین الاقوامی منڈ ی میں تیل کی قیمتیں کم ہو نے کے طفیل ہے یا اقتصادی منصو بہ بندی کی بنا پر ؟۔
جس وقت مسلم لیگ (ن)نے اقتدار سنبھا لا اس وقت عالمی منڈ ی میں تیل کی قیمت قریباً 150 ڈا لر فی بیر ل تھی جو اب 50ڈا لر سے بھی کم ہے۔ اس’ کُشن‘ کا فا ئد ہ اٹھا کر اکا نومی میں جو بہتر ی ہو نا چاہیے تھی وہ نہیں ہو پا ئی ۔پاکستان میں شر ح نمو قریباً4.2 فیصد ہے ۔ اسکی وجہ صاف ظا ہر ہے ملک میں مقا می صنعتیں بھر پو ر طر یقے سے پیداوار نہیں دے رہیں، ملک میں سر ما یہ کا ری کے اہداف بھی پورے نہیں ہو رہے ۔ جہاں تک صنعتی پیداوار میں اضافہ کا تعلق ہے یہ تو رواں سال کے دوسر ے حصے میں پہلے سے بھی کم ہو گئی ،اسی طر ح زرعی پیداوار میں 6.25 فیصدکمی آئی ہے ۔ چائنہ پاکستان راہداری کے سوابر اہ راست غیر ملکی سر ما یہ کا ری FDIبہت کم ہے، ملک بھر میں سرمایہ کاری کے اہداف بھی پورے نہیں ہو پا رہے اور برآمدات کا حال بھی انتہا ئی پتلا ہے ۔ملکی برآمدات تو موجو دہ حکومت کے برسر اقتدار آ نے کے وقت 25ارب ڈالر تھیں جو گھٹ کر 20ارب ڈا لر رہ گئی ہیں۔ ہمارا روپیہ مصنو عی طور پر ڈا لر سے مہنگا کیا گیا ہے،یہ ایک وجہ ہے جس سے برآمدات کم ہو رہی ہیں۔ جہاں تک بیر ون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی ترسیلات کا تعلق ہے تو وہ بھی روبہ زوال ہیں ،درآمدات میں اضا فہ ہوتا جارہا ہے ۔ اس پر مستزادیہ کہ غیر ملکی قر ضے موجودہ حکومت کے دور میں تشو یشنا ک حد تک بڑ ھ گئے ہیں جو 73ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں ۔ 2013ء میں پاکستان کے غیر ملکی قر ضوں کا حجم61 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھا ۔ اسی طرح پا ور سیکٹر کے گر دشی قر ضے جوموجو دہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد بڑ ے طمطراق کے ساتھ بیک جنبش قلم اتا رے گئے تھے اب دوبا رہ قریباً 400 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔
جب ہفتہ کو گورنرہاؤس میں وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں ایک پاور کمپنی کے مالک نے گردشی قر ضوں کی عدم ادائیگی کامعاملہ چھیڑاتو پانی وبجلی کے وزیر خواجہ آصف ان پر برس پڑ ے اوراُ لٹا سوال کر دیا کہ پہلے اپنا آڈٹ کرا ئیں۔یقیناوزیر خزانہ اسحق ڈار کی سر برا ہی میں پاکستان کا آ ئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کر کے اسے خیر بادکہہ دینا بہت بڑی کا میا بی ہے۔بعض ماہر ین کے مطابق اگر اقتصادی صورتحا ل میں بہتر ی نہ آ ئی تو آئندہ چند بر سوں میں ہی پاکستان کو محض اپنے غیر ملکی قر ضوں کی قسطیں ادا کرنے کے لیے آ ئی ایم ایف کے پروگرام میں دوبارہ جانا پڑ ے گا اور اس مر تبہ آ ئی ایم ایف کڑ ی شرائط منوائے بغیر پاکستان کو قر ضہ نہیں دیگا ۔اعلیٰ سطح کے اجلاس میں اکانومی کی بہتر ی کے لیے متعدد مثبت تجاویز پیش کی گئیںتا ہم مجمو عی طور پر ماحول مبارک سلامت کا ہی تھا ۔ بعض صنعت کا روں نے اس بات کا گلہ بھی کیا کہ نیب نے ان کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔یہ بات حیر ان کن ہے کہ میاں نواز شر یف جو خو د بھی صنعت کا ر ہیں نیب کی ہتھ چھٹ پالیسیوں پر کوئی قد غن نہیں لگا سکے۔یقینا ملک میں کر پشن اور بے قاعدگیوں کے سدباب کے لیے ایک اعلیٰ سطح کا ادارہ ہونا چاہیے جو بے لاگ اور کڑا احتساب کر سکے۔لیکن جنر ل مشرف کا قائم کردہ ادارہ نیب تو الٹی گنگا بہا رہا ہے اور بعض اوقات تو ایسے لگتا ہے کہ ڈی جی نیب اپنے صوبا ئی سر بر اہوں جو زیا دہ تر ریٹا ئر ڈ فوجی ہیں کے آگے بے بس ہیں۔اسی بنا پر اکثر صنعت کار وں اور بعض بینکرو ں کو خا ص طور پر یہ شکایت ہے کہ انھیں بے جا ہراساں کیا جا تا ہے ۔
ہما رے ارد گرد کے ممالک اقتصادی ترقی میں ہم سے بہت آ گے نکل چکے ہیں، ان کی شر ح نمو اور برآمدات بھی ہم سے سبقت لے جا چکی ہیں۔ بھارت کی شر ح نمو 7.5پر پہنچ چکی ہے، دوسر ی طرف بنگلہ دیش کی شر ح نمو 7.1فیصد ہے جبکہ عالمی بینک کی تا زہ رپو رٹ کے مطابق پاکستان کی بجٹ میںدی گئی 5.2فیصد شر ح نمو حا صل کرنا شاید مشکل ہو۔ سی پیک کے 46ارب ڈا لر کے منصو بے کا بہت چر چاکیا جا تا ہے لیکن اس کے تحت لگنے والے منصوبے بھی عالمی بینک کی رپو رٹ کے مطابق تا خیر کا شکار ہیں ۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق جب تک پاکستان کم از کم 7 فیصد سالانہ شر ح نمو کا ٹا رگٹ پو را نہیں کر پاتا غربت اور پسماند گی میں اضا فہ ہوگا اور حکومت کے ملک کو اقتصادی ترقی سے ہمکنا ر کر نے کے منصوبے دھر ے کے دھر ے ہی رہ جا ئیں گے۔ دنیابھر میں اب تر قی کی معراج اقتصادی اور تجارتی اہداف کے حصول پر مبنی خا رجہ پالیسی ہے جبکہ ہمارے ہاں ابھی تک اس کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔خا رجہ پالیسی سکیو رٹی بنیادوں پر کو ئی اور بناتا ہے اور سیاستدانوں سے یہ توقع کی جا تی ہے کہ دودھ کی نہر یں بہا دیں ،آج کی دنیا میں ایساکرناناممکن ہے لیکن حکومت کی اقتصادی پالیسیاں صرف اسحاق ڈار صاحب کے ہاتھوں میں نہیں ہیں بلکہ اس ضمن میں میاں صاحب کی ایک مخصوص اور فرسودہ سوچ بھی ہے ،غا لباً مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی نظر یں اس طرف لگی ہوئی ہیں کہ جیسے بھی ہو اونے پو نے قر ضے لو یا سکو ک بانڈز فروخت کرو تا کہ اگلے انتخا بات میں ترقی کے دعوے لے کر پھر سے ووٹ لے لئے جا ئیںچاہے ایسا کرنے کے لئے عوام کا بال بال غیر ملکی قرضے میں جکڑا جائے۔