منتخب کردہ کالم

معصوم اور بے گناہ الفاظ … کالم سعد اللہ جان برق

معصوم اور بے گناہ الفاظ … کالم سعد اللہ جان برق

ہم نے پہلے بھی ایک مرتبہ کہا ہے کہ ’’الفاظ‘‘ کے معنی اور مفاہیم وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں، منہ اور کان بدلتے ہی الفاظ کے معنی قطعی مختلف بلکہ بعض اوقات بالکل اُلٹ بھی ہو جاتے ہیں یعنی

بلبل چہ گفت و گل چہ شنید و صبا چہ کرد

بلبل کیا کہتی ہے، پھول کیا سنتا ہے اور صبا کیا کرتی ہے یہ موقع اور مقام اور وقت پر منحصر ہے ۔

مثلاً آج کل بڑی اونچی سطح پر جس بڑے الزام کے چرچے ہیں وہ یہ ہے کہ ’’اس نے مجھے شادی کے لیے کہا‘‘ اب یہ کونسی نئی اور انوکھی بات ہے‘ بہت سارے لوگ ایک دوسرے سے کہتے رہتے ہیں کہ مجھ سے شادی کرو گی۔ یا مجھ سے شادی کروگے۔ پلیز مجھ سے شادی کرو۔ ’’یو وِِل میری می‘‘ یا ’’ول یو میری می‘‘۔

ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے جب امریکا میں ہم جنس پرستی کا لائسنس قانونی طور پر ایشو ہو گیا اور اس پر بارک اوباما نے مسرت کا اظہار کیا تو افریقہ کے کسی سربراہ غالباً یوگنڈہ یا کینیا یا کسی اور افریقی ملک کے صدر غالباً موگابے نے، ایک تو یہ افریقی ممالک اور ان کے سربراہ سب ایک جیسے ہوتے ہیں ہمارے سیاستدانوں کی طرح ۔

ہاں تو اس نے کہا تھا کہ میں بہت جلد امریکا بارات لے کر جاؤں گا اور بارک اوباما سے ’’ یوول میری می‘‘ کہوں گا بعد میں پتہ نہیں یہ بیل منڈھے چڑھی یا نہیں یعنی رشتہ پکا ہو گیا یا نہیں۔ لیکن بتانا یہ مقصود ہے کہ کسی کو پروپوز کرنا کوئی بُری بات ہر گز نہیں ہے لیکن ’’الفاظ‘‘ کی منافقت اور دو رنگی دیکھئے کہ آج کل اپنے ہاں یہی عام سی بات بڑی خاص بات بنی ہوئی ہے اور مختلف ماہرین لغت، شارحین اور مفسرین اس کے طرح طرح کے معنی نکال بھی رہے ہیں اور اسے لینا بھی رہے ہیں ۔

ہمیں اس پر اپنے گاؤں کے ایک سادہ دل کا واقعہ یاد آ رہا ہے اس نے ایک شہرت یافتہ عورت سے سرراہ صرف اتنا پوچھا تھا کہ کیسی ہو؟ اب کیسی ہو؟ میں برے معنی کہاں ہیں، سیدھی سادی بات ہے، ہر کوئی ایک دوسرے سے پوچھتا ہے کہ کیسی ہو یا کیسے ہو؟

حال چال ہی تو پوچھنا ہے اور اگر دیکھا جائے تو اس میں خیرخواہی، ہمدردی اور اچھے اخلاق کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اکثر لوگ ایک دوسرے سے شکایت کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ تم نے تو ہمارا حال تک نہیں پوچھا، غالبؔ نے بھی کہا ہے ؎

تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو

ہم کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو

یعنی حال چال پوچھنے میں کوئی گناہ نہیں۔ لیکن اس بیچارے جس نے اس شہرت یافتہ محترمہ سے صرف اتنا پوچھا تھا کہ کیسی ہو؟ اس پر ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا، لڑکی کے بھائیوں نے بھی بندوقیں اٹھا لیں اور آدمی بھی گاؤں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا، بعد میں بزرگوں نے درمیان میں پڑ کر معاملے کو سلجھا تو دیا لیکن اس آدمی کو بھاری سزا کا سامنا کرنا پڑا، صرف اس لیے کہ اس نے دو بالکل ہی دو سادہ سے الفاظ منہ سے نکالے تھے کہ کیسی ہو؟

اب لغت کے حساب سے نہ تو ’’کیسی‘‘ میں کوئی ایسا ویسا مفہوم اور نہ ’’ہو‘‘ میں کوئی ’’ہوا‘‘ ہے لیکن اس موقع پر لغوی معنوں کو یکسر رد کر کے دوسری معنی پہنا دیے گئے ۔

بہت بعد میں ہم نے اس آدمی سے کہا کہ آخر تمہیں کیا پڑی تھی اس کا حال چال پوچھنے کی۔ وہ جیسی بھی تھی جہاں بھی تھی ٹھیک تھی تم اس کی فکر میں کیوں دبلے ہو رہے تھے اور پھر جرگہ میں بہت زیادہ ’’دبلے‘‘ ہوگئے ۔

اس عورت سے بھی ہم نے پوچھا تھا کہ آخر اس نے تمہیں گولی تو نہیں ماری تھی صرف حال پوچھا ھا بتا دیتی یا نہ بتاتی اتنا اودھم مچانے کی کیا ضرورت تھی اور اس نے جواباً کہا کہ اس کی نیت ٹھیک نہیں تھی۔

اور یہی رونا ہم رو رہے ہیں کہ سیدھے سادے معصوم بے ضرر الفاظ میں لوگ نہ جانے کیا کیا ڈھونڈلیتے ہیں یا ڈال دیتے ہیں۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ الفاظ بجائے خود کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ اہمیت اس منہ کی ہوتی ہے جس سے نکلتے ہیں اور ان کانوں کی جن میں پہنچتے ہیں۔ ورنہ مجھ سے شادی کرو گی یا یو ویل میری می کے الفاظ میں ایک حرف بھی ایسا نہیں ہے جسے گندہ یا غلط یا نا شائستہ کہا جائے۔ اور اس کا جواب بھی کچھ زیادہ مشکل یا پریشان کن نہیں۔ ہاں یا نہیں میں کونسے ہاتھی گھوڑے لگتے ہیں۔ یا زبان کو تکلیف ہوتی ہے۔

اسے کہتے ہیں رائی کا پہاڑ یا دھوئیں کا آسمان یا چائے کی پیالی میں طوفان۔ جہاں تک ہم دیکھ رہے ہیں وہاں تک ان الفاظ نے بہت کچھ ہنگامے کھڑے کیے ہیں۔ جسے دیکھو کوئی نہ کوئی لٹھ لیے کسی نہ کسی کے درپے ہے، یا اور یہ سارا شاخسانہ الفاظ میں نہیں بلکہ بولنے سننے لکھنے اور کہنے والوں میں ہے۔ بیچارے الفاظ تو اب بھی دور کھڑے معصوم نگاہوں سے اس ہنگامے کو دیکھ رہے ہیں۔ مجھ سے شادی کرو گی کے چاروں الفاظ ایک دوسرے کو شک کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ اسی نے کچھ کیا ہو گا ورنہ میں تو وہی ہوں جو تھا اور ہوں۔

بہر حال ہمارا یہ کلیہ ثابت ہو گیا کہ نہ تو الفاظ کی کوئی اہمیت ہوتی ہے او نہ ہی ان کے لغوی معنوں کی، سارا چکر منہ اور کانوں کا چلایا ہوا ہے۔
…………..
اگلا کالم
………….